پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سفارتی عہدوں پر شاذ و نادر ہی کوئی سیاسی تعیناتیاں کی ہوگی مگر اس حکومت میں نان کیئرسٹس کے لیے موجود کوٹہ کا زیادہ تر استعمال ریٹائر فوجی حکام کررہے ہیں۔اس وقت لگ بھگ 10 ممالک میں ریٹائرڈ فوجی بطور سفیر خدمات انجام دے رہے ہیں۔
حکومت نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) بلال اکبر کو سعودی عرب کے لیے نئے سفیر کی حیثیت سے نامزد کردیا۔ رپورٹ کے مطابق جنرل (ر) بلال اکبر، سفیر راجا علی اعجاز کی جگہ لیں گے جو مئی میں اپنی سروس سے ریٹائر ہورہے ہیں، راجا علی اعجاز جنوری 2019 سے ریاض میں سفیر ہیں۔
یاد رہے کہ ریاض میں سفیر کا عہدہ اکثر ریٹائرڈ عسکری افسران کے پاس رہا ہے جو اس کی عکاسی کرتا ہے کہ دفاعی تعلقات مضبوط دوطرفہ تعلقات کی بنیاد ہیں، اگرچہ کچھ وقت کے لیے یہ عہدہ فارن سروس سے تعلق رکھنے والے سفارتکاروں کے پاس بھی رہا ہے۔
ریٹائرڈ جنرلز سیاسی تقرریوں کے لیے 20 فیصد کوٹہ کے برخلاف تعینات ہوتے ہیں جبکہ ریاض میں مشن دوبارہ جنرل کے پاس آجانے کے علاوہ برونائی، اردن، شام، سری لنکا، یوکرین، مالدیپ، نائیجیریا اور لیبیا میں مسلح فورسز کے ریٹائرڈ افسران سفیر ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے سفارتی عہدوں پر شاذ و نادر ہی کوئی سیاسی تعیناتیاں کی ہیں، لہٰذا اس وقت نان کیئرسٹس کے لیے کوٹہ کا زیادہ تر ریٹائر فوجی حکام کی جانب سے استعمال کیا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ جنرل (ر) اکبر گزشتہ برس دسمبر میں پاک فوج سے ریٹائرڈ ہوئے تھے اور کی آخری تعیناتی پاکستان آرڈیننس فیکٹری (پی او ایف) واہ کے چیئرمین کی حیثیت سے تھی۔
ان کا فوج میں ایک روشن کیریئر رہا ہے جہاں انہوں نے تھری اسٹار جنرل کے طور پر چیف آف جنرل اسٹاف اور راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی 10 کور کے کمانڈر کے فرائض انجام دیے، یہی نہیں بلکہ بہت سے لوگ اس وقت حیران رہ گئے تھے جب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع شروع ہونے سے کئی ماہ قبل ستمبر 2019 میں بلال اکبر کو پی او ایف کا چیئرمین تعینات کردیا گیا تھا۔
جنرل ہیڈکوارٹرز کی سفارش پر جنرل بلال اکبر کی تعیناتی ان دوطرفہ تعلقات کا کنٹرول لینے کی فوجی خواہش کو ظاہر کرتی ہے جو حال ہی میں سورش کا شکار ہوئے تھے تاکہ انہیں مزید خراب ہونے سے روکا جائے۔
ابتدائی طور پر یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے قرض کی واپسی کا کہا تھا اور اسے رول اوور کرنے پر راضی نہیں ہوا تھا جبکہ کووڈ 19 کی وبا کے دوران مملکت میں پاکستانی ورکرز کو بھی نکال دیا گیا تھا۔
اسی اثنا میں ریاض نئی دہلی کے قریب ہوا تھا اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے اسے اہم مالیاتی کانفرنس کے لیے دعوت دی تھی جبکہ دونوں ممالک نے اپنے تعلقات کو استوار کرنے کے لیے اسٹریٹجک پارٹنرشپ کونسل متعارف کرایا تھا۔ لہٰذا جنرل (ر) بلال اکبر کے لیے یہ نئی اسائنمنٹ چیلنج ثابت ہوگی۔