مصر میں گذشتہ چند ماہ سے سوشل میڈیا پر ‘تجرباتی شادی’ کے عنوان سامنے آنے والی متنازع تجویز پر آخر کار ملک کے دارالافتا اور سب سے بڑی دینی درس گاہ جامعہ الازھر کو مداخلت کرنا پڑی۔ سرکاری دارالافتاح اور الازھر کی طرف سے ‘تجرباتی نکاح’ کو حرام قرار دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق چند ماہ قبل ایک قانون دان احمد مہران نے ‘تجرباتی نکاح’ کی تجویز پیش کی تھی۔ ان کی یہ تجویز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور اس کی حمایت اور مخالفت میں دونوں طرف سے لوگوں نے اپنی رائے پیش کی۔ بعض علما نےبھی اس کی حمایت کی تاہم زیادہ تر اہل علم نے اس کی مخالفت کی۔ سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہونے کے بعد مصری دارالافتا اور جامعہ الازھر نے اس معاملے پر حتمی رائے دی ہے۔
مصری قانون دان احمد مہران نے بتایا کہ ان کے پیش کردہ اس اقدام کا مقصد ملک میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رحجان پر قابو پانے میں مدد دینا ہے۔ انہوںنے کہا کہ ‘تجرباتی نکاح’ کی تجویز میں کچھ ایسی شرائط ہیں جن کی پابندی شادی کے وقت میاں بیوی کو قبول کرنا پڑتی ہیں۔ انہیں نکاح نامہ میں درج کیا جاتا ہے۔ طلاق کی صورت میں دونوں میاں بیوی میں سے جو بھی علاحدگی کا ذمہ دار ہوتا ہے طلاق کا بوجھ اس پر ڈالا جاتا ہے۔ اگر شوہر طلاق دے تو اسے بیوی کے تمام حقوق اس کو ادا کرنا ہوتے ہیں اور اگر بیوی خلع لے تو اسے سب کچھ شوہر کو دینا ہوتا ہے۔
احمد مہران کے مطابق یہ تمام شرائط جائز، شرعی اور مسنون ہیں۔ میاں بیوی میں سے جو بھی طلاق کا ذمہ دار ہوگا بوجھ اس پر آئے گا۔ شادی کے وقت دونوں یہ طے کرسکتے ہیں کہ شوہر بیوی کو ملازمت کی اجازت دے گا یا نہیں اور بیوی اپنے شوہر کی دوسری شادی کی اجازت دے گی یا نہیں۔
اس بحث پر جامع الازھر کے زیرانتظام عالمی فتویٰ مرکز نے اپنی شرعی رائے پیش کی ہے۔ دارالافتا کا کہنا ہے کہ شادی اور نکاح ایک مضبوط معاہدہ ہے جو میاں بیوی کے درمیان طے پاتا ہے۔ اس میں میاں بیوی کے درمیان علاحدگی کے لیے پانچ سال یا کم یا زیادہ کی مدت مقرر کرنا ہرگز جائز نہیں۔ تجرباتی نکاح میں نکاح کی مدت کا تعین ہوتا ہے۔ اس لیے ایسا نکاح باطل اور حرام ہے۔
دارالافتا کا مزید کہنا ہے کہ نکاح کا مطلب میاں بیوی کے درمیان تعلق کو دوام دینا، اسی جاری رکھنا اور اس حوالے سے تمام ذمہ داریوں کو انجام دینا ہوتا ہے۔ عارضی نکاح ‘متعہ’ ہوسکتا ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔