٭وزیراعظم نے بیرون ملک پاکستانیوں کی شکایات پر نوٹس لے لیا۔
اللہ بیرون ملک پاکستانیوں پر رحم کرے، اندرون ملک پاکستانیوں کی دعا۔
٭راتوں رات پارٹیاں بنانے کا وقت گزر گیا، مریم نواز
اب یہ کام دن دہاڑے ہوتا ہے۔چاہے پوچھ لیں فاروق ستار اور مولانا فضل الرحمن سے۔
٭نواز شریف کی وطن واپسی کی کوئی توقع نہیں، شیخ رشیداحمد
چلیں اب پھر کوئی اور کام کرلیں۔
٭مسلم لیگ ن کا سینیٹ الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان۔
بھرپور حصہ پھر بھی نہیں ملے گا مسلم لیگ ن کو سینیٹ میں۔
٭خواجہ آصف کے اکاؤنٹ میں چپراسی نے 28 ملین روپے جمع کرائے، نیب
خواجہ صاحب کہیں ”مصروف“ ہوں گے تو چپراسی کو بھیج دیا پیسے جمع کرانے، اس میں کون سی غلط بات ہے۔
٭نالائقوں نے پاکستان کو نیلام گھر بنا دیا، مریم اورنگزیب
طارق عزیز مرحوم کی روح تڑپ اٹھی ہوگی آپ کے اس بیان پر۔
٭جمعیت علمائے اسلام میں تھے، ہیں اور رہیں گے، مولانا شیرانی
پنجابی میں کہتے ہیں ”کھر دے من دے نئیں پروہنے کہندے دو دو سوں جاں گے“ (گھر والے مانتے نہیں مہمان کہتے ہیں دو دو سو جائیں گے)
٭تین سال بعد بھی زرداری اینڈ کمپنی کا کوئی چانس نہیں، فواد چودھری
اس لیے آپ نے ابھی تک پیپلزپارٹی میں جانے کا سوچا نہیں؟
٭پنجاب میں امن وامان کی ناقص صورت حال، اتنے بدترین حالات کبھی نہیں دیکھے، چودھری پرویزالٰہی
کہیں وسیم اکرم پلس کی ریٹائرمنٹ کا وقت تو نہیں ہوگیا؟!
٭چاہتے تھے کہ میلے کپڑے گھر میں ہی دھل جائیں، حافظ حسین احمد
لیکن پھر آبپارا لانڈری والوں سے رابطہ ہوگیا۔
٭حکومت کے خلاف آپشن مرحلہ وار استعمال کریں گے، زرداری
جب تک ڈھائی برس بھی گزر جائیں گے حکومت کے۔
٭نیب بتائے بڑے گھپلوں کو انجام تک کیوں نہیں پہنچاتا، اعظم خان سواتی
بڑے گھپلوں میں شاید بڑے لوگوں کے ملوث ہونے کی وجہ سے۔
٭اگر ترقیاتی کام ہورہے ہیں تو سندھ حکومت کررہی ہے، وزیراطلاعات سندھ
اطلاعات کے وزیر کو تو کم ازکم صحیح اطلاع دینی چاہیے۔
٭چیزوں کو ایک دن میں نہیں بدلا جاسکتا، جام کمال
ڈھائی برس کو ایک دن قرار دینا جام صاحب کا ہی کمال ہے، اس پر کوئی تمغہ تو بنتا ہے ان کا۔
٭دنیا چاند پر جا رہی ہے اور ہم ملک کے سب سے بڑے شہر کا کچرا نہیں اٹھا سکے، مصطفی کمال
ہم شاید کچرے کے ڈھیر پر چڑھ کر چاند تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
٭سندھ اور مرکز دست بہ گریبان، کراچی کا کوئی پرسانِ حال نہیں، سراج الحق
سراج لالہ! باقی پورے ملک کے پرسانِ حال کا نام بتاکر شکریہ کا موقع دیں۔
٭بلاول بالغ ہوگئے، عدم اعتماد ہی آئینی طریقہ ہے، وفاقی وزیر داخلہ
یہ بیان وزیر صاحب کی داخلی کیفیت کا غماز سمجھا جاسکتا ہے؟
٭طالبان کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی کریں گے، امریکا
پھر اس کے بعد جو کریں گے طالبان کریں گے۔
٭براڈ شیٹ سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، وزیراعظم
شہزاد اکبر صاحب سے پتا کرلیں ذرا!
٭امریکا اور چین میں مصالحت کرانے کو تیار ہیں، شاہ محمود قریشی
کوئی حد ہے آخر…………!
٭بلاول کا وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لانے کا اعلان۔
چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا انجام بھول گئے بلاول صاحب؟!
٭سابق الیکشن کمشنر ہمارا دشمن تھا، عمران خان
موجودہ سے دوستی کا اعتراف بھی کہا جاسکتا ہے اس بیان کو؟!
اور آخر میں مختار مسعود کی آوازِ دوست سے ایک اقتباس:
”بسااوقات مجھے وہ شخص یاد آتا ہے جو ایک نوآبادی کی آزادی کے لیے بہادری سے لڑا اور اس کی ایک ٹانگ ضایع ہوگئی۔ وہ قومی ہیرو بن گیا مگر جنگ طویل تھی اور جاری رہی۔ یہی ہیرو اس اثناء میں ایسا بدلا کہ دوسری طرف جا ملا اور ملک کے خلاف لڑتا ہوا مارا گیا۔ جنگ نوآبادی نے جیت لی اور اب قومی ہیرو کے صحیح مقام کے تعین کا سوال اٹھا۔ طے پایا کہ اس کا ایک مجسمہ نصب کیا جائے، مگر وہ صرف ایک ٹانگ پر مشتمل ہو جو آزادی کی راہ میں کٹی تھی۔ ایک ٹانگ کا یہ مجسمہ عبرت کا بہت بڑا سبق ہے، اگر پاکستان میں مجسمہ سازی جائز ہوتی اور تحریکِ پاکستان کے سلسلے میں مجسمے بنائے اور کہیں نصب کیے جاتے تو اس جگہ پر علم الاعضاء کے عجائب گھر کا گمان ہوتا۔“
نوٹ: اس اقتباس کا موجودہ سیاسی صورت حال سے تعلق جوڑنے والا خود ذمہ دار ہوگا۔
خامہ بدست کے قلم سے
لکھاری ایک معروف صحافی و کالم نگار ہیں۔ " خامہ بدست" کے قلمی نام کے ساتھ ملکی سیاست و معاشرت پر مختصر مگر جامع تبصرہ کرتے ہیں جو طنزومزاح سے بھرپور ہوتا ہے۔
Related Posts
Add A Comment