دنیا کی سب سے بڑی جمہوریہ ہونے کے دعویدار بھارت میں مسلسل دوسرے سال یومِ جمہوریہ پر احتجاج کے سائے منڈلاتے نظر آئے۔ پچھلے سال احتجاج متنازع شہریت قانون پر تھا اور اس بار متنازع زرعی قوانین پر بھڑکے پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کا احتجاج تھا۔
اس سال احتجاج نے جو رنگ اختیار کیا اس نے بھارت کے اندر اور باہر سب کو سوچنے پر مجبور کردیا کہ بھارتی جمہوریت کس ڈگر پر ہے۔ دلی کا مشہور لال قلعہ جو اب بھی اقتدار کی ایک علامت سمجھا جاتا ہے، کسانوں کے ٹریکٹر مارچ کے دوران ایک مفتوحہ قلعہ نظر آیا۔ مفتوحہ کا تاثر بھی خود بھارتی میڈیا اور حکمران جماعت نے دیا اور کسان تحریک کو خالصتانی تحریک سے جوڑا۔ اس احتجاج کو کسی نے ٹکڑے ٹکڑے گینگ کی نظر سے دیکھا، تو کسی نے اسے نکسل بتایا۔
بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) اور مودی کی حکومت سے متنفر عام پاکستانی نے بھی اس احتجاج کو اسی زاویے سے دیکھا جس زاویے سے بی جے پی حکومت اسے دیکھ رہی تھی۔ پہلی بار بھارت کا ‘گودی میڈیا‘ اور پاکستان کا الیکٹرانک میڈیا اس احتجاج کو یکساں رنگ اور نظر میں دیکھ اور دکھا رہے تھے، جو اچنبھے سے زیادہ کم علمی اور جذباتی انداز کا اظہار تھا۔ اس احتجاج کو سمجھنے اور جاننے کے لیے جذبات کو پرے رکھ کر گہرائی سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔
کسانوں کا موجودہ احتجاج چونکہ پنجاب اور ہریانہ سے شروع ہوا اور سکھ برادری اس احتجاج میں غالب نظر آئی، اس لیے اسے بھارتی میڈیا نے غصے اور نفرت کی آگ میں خالصتانی کہا۔ پاکستانی میڈیا بھی جذبات کی رو میں بہہ گیا۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پنجاب اور ہریانہ سے اٹھنے والی یہ تحریک پورے بھارت کے کسانوں کی تحریک ہے اور اسے ملک گیر حمایت حاصل ہے، اور اسے صرف پنجاب تک محدود رکھنا کم علمی ہے۔ دوسرا یہ تحریک کھیت اور پیٹ کی لڑائی ہے، سکھ برادری کی قیادت میں چلنے والی اس تحریک کو خالصتانی کہنے اور سمجھنے والے اس سے پہلے پنجاب میں چلنے والی تحریکوں کو بھی نظر انداز کرگئے۔
بھارت کی مرکزی حکومت کے خلاف سکھوں کی موجودہ اجتماعی مزاحمتی تحریک پہلی نہیں، دوسری بڑی تحریک ہے۔ اس سے پہلے ماسٹر تارا سنگھ کی قیادت میں سکھوں نے پہلی لڑائی پنجاب کو صوبہ بنانے کے لیے جواہر لال نہرو کی حکومت سے لڑی تھی۔
اگست 1961ء کو ماسٹر تارا سنگھ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھے تھے اور 48 دن گزر جانے کے بعد جواہر لال نہرو کی حکومت نے ان کے مطالبے پر سنجیدگی دکھائی تھی، جس کے بعد ماسٹر تارا سنگھ نے بھوک ہڑتال ختم کی تھی۔
اس کے بعد ہریانہ و ہماچل پردیش کی پنجاب سے علیحدگی، پنجاب اور ہریانہ کے مشترکہ دارالحکومت چندی گڑھ کے قیام اور اسے مرکزی حکومت کے زیرِ انتظام دیے جانے میں 6 سال لگ گئے تھے۔ یعنی بھارت کے قیام کے تقریباً 19 سال کی لڑائی کے بعد یکم نومبر 1966ء کو اندرا گاندھی کے اقتدار میں سکھوں کے خواب کو تعبیر ملی تھی اور صوبہ پنجاب وجود میں آیا تھا۔
آج پھر سکھ سڑکوں پر ہیں لیکن اس بار لڑائی زمین کی نہیں، کھیت اور پیٹ یعنی زمینی پیداوار کے تصرف کی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ کی خوردنی پیداوار بھارت کی کل پیداوار کا 30 فیصد ہے جس میں گندم، چاول، دودھ اور دودھ سے بنی اشیا شامل ہیں۔ اس لیے اس لڑائی میں سکھ نمایاں ہیں جو ان صوبوں کی اکثریتی آبادی ہے۔
ایک اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں کے کسان خوشحال ہیں، ان علاقوں سے بڑی تعداد امریکا، کینیڈا، برطانیہ اور دیگر یورپیہ ملکوں میں آباد ہے، ان کے پاس نہ وسائل کی کمی ہے نہ قیادت کی۔ اجتماعی طور پر یہ منظم اور پڑھی لکھی اقلیت ہے جس کا اقتدار اور افواج میں بھی بڑا حصہ ہے۔
ایک اور بات جو یاد رکھنے کی ہے، وہ یہ کہ ناانصافی کے خلاف کسانوں نے ہمیشہ مزاحمت کی ہے جس میں پنجاب کا اپنا شاندار کردار ہے، اور اس کا ایک واضح ثبوت ‘پگڑی سنبھال جٹا‘ کے نام سے 07ء-1906ء میں شروع ہونے والی تحریک ہے۔ اس تحریک کی قیادت بھگت سنگھ کے چچا اجیت سنگھ، والد کشن سنگھ اور ان کے ساتھیوں گھسیٹا رام، لال چند فلک وغیرہ نے کی تھی۔
اس تحریک کو نام، بانکے دیال کے مشہور زمانہ گیت ‘پگڑی سنبھال جٹا‘ سے ملا تھا۔ یہ تحریک نوآبادیاتی حکومت کے خلاف تھی جس نے کسانوں پر قرض کا بوجھ بڑھا دیا تھا اور زمینیں آباد ہونے کے بعد چھین لینے کی دھمکی دی تھی۔ موجودہ تحریک میں بھی کسانوں کا جھنڈا اجیت سنگھ کی تصویر ہے جس پر پگڑی سنبھال جٹا لکھا ہے۔ آج کی تحریک اور اس کے منتظمین ایک بار پھر انگریز کے خلاف چلنے والی تحریک کی یاد دلا رہے ہیں۔
اس تحریک کو بھی 1906ء کی تحریک کی طرح لوک فنکاروں کی مدد حاصل ہے اور اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک کی حمایت میں اب تک 200 سے زیادہ گیت آچکے ہیں۔ بھارت میں غیر فلمی میوزک کی سب سے بڑی انڈسٹری، پنجابی میوزک انڈسٹری ہے۔ کچھ اندازوں کے مطابق اس انڈسٹری کا سالانہ کاروبار ایک ہزار کروڑ کے آس پاس ہے اور موہالی میں یومیہ 2 درجن سے زیادہ گیت ریکارڈ ہوتے ہیں۔
پہلے ان گیتوں میں محبت، لڑکیوں کی خوبصورتی، شراب اور چٹکلے سنائی دیتے تھے لیکن اب یوں لگتا ہے کہ پوری پنجابی میوزک انڈسٹری میں کسانوں کے مظاہروں کے علاوہ کسی اور موضوع پر کوئی ریکارڈنگ نہیں ہو رہی۔ ان گیتوں کی ریکارڈ تعداد یہ بتاتی ہے کہ کسانوں کا غصہ پورے سماج میں پھیل چکا ہے اور ثقافتی گہرائی پا چکا ہے۔
پنجابی میوزک انڈسٹری کا دعویٰ رہا ہے کہ آج جو پنجاب سنتا ہے کل اسے پورا ملک سنتا ہے اور اس بار یہ دعویٰ سچ ہوتا دکھائی دے رہا ہے، کیونکہ پنجاب کے کسانوں کو تامل ناڈو تک حمایت اور مدد مل رہی ہے، جس کاثبوت ‘ساڈا حق‘ کے نام سے 2 زبانوں میں بننے والا میوزک البم ہے۔ اس میوزک البم کو تامل ناڈو کے موسیقاروں اور نغمہ نگاروں نے مل کر ترتیب دیا ہے اور البم کے کور پر تامل اور پنجابی زبان میں گیت لکھے ہیں۔ پنجابی میوزک انڈسٹری کے میوزک البم میں ہر دوسرا گیت دہلی کو خبردار کر رہا ہے اور اسے چیلنج کرتا سنائی دیتا ہے۔ تقریباً ہر دوسرے البم کا نام ‘سن دلیئے‘ ہے۔ کچھ گیتوں میں دلی سرکار کا گھمنڈ توڑنے کی بات کی گئی ہے تو کچھ نے دلی سرکار کا مذق اڑایا ہے کہ اس نے کن سے جھگڑا مول لے لیا ہے اب اپنی خیر منائیں۔
صرف فنکار ہی اس تحریک کا ساتھ نہیں دے رہے بلکہ سابق فوجی، اہم سیاستدان اور کھلاڑی بھی اس تحریک کے ساتھ ہیں جنہوں نے سرکار کی طرف سے ملنے والے اعزازات لوٹا دیے ہیں۔ اعزازات واپس کرنے والوں میں پنجاب کے موجودہ اور سابق وزرائے اعلیٰ بھی شامل ہیں جو عوام سے کٹ کر سیاست نہیں کرسکتے۔
2 لاکھ سے بھی زیادہ کسان 26 نومبر سے دہلی کی سرحدوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ دہلی کی سرحدوں پر جہاں سکھ زمیندار جما ہوا ہے وہیں نچلی ذات قرار دیا جانے والا کھیت مزدور بھی جم کر بیٹھا ہے۔ یہ سب ذات پات اور مذہب کی تقسیم کو چھوڑ کر مل کر پکا اور کھا رہے ہیں۔ اس تحریک کو خالصتان تحریک سے اس لیے بھی نہیں جوڑا جاسکتا کہ یہ تحریک مذہبی بنیادوں پر نہیں اٹھی اور اس کی قیادت گولڈن ٹیمپل سے بھی نہیں کی جا رہی۔ اس تحریک میں 2 ایکڑ سے بھی کم زمین والے کاشتکار سے لے کر بڑے بڑے زمیندار تک سب شامل ہیں اور ان کے ساتھ ہندو زمینداروں کی بھی بڑی تعداد شریک ہے۔
مودی حکومت کسانوں کی اس تحریک کو ہلکا لے رہی ہے، حالانکہ پچھلے سال اسی سرد موسم میں متنازع شہریت قانون کے خلاف مسلمان سڑکوں پر تھے اور سکھوں اور ہندوؤں کا ایک حصہ بھی ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ اب کسانوں کی تحریک پر دہلی کے مسلمان گل پاشی کر رہے ہیں اور لنگر کا بندوبست کرنے میں بھی ہاتھ بٹا رہے ہیں۔
مسلمان اجتماعی، فکری اور معاشی اعتبار سے قیادت سے محروم طبقہ تھے اور انہوں نے فکرِ روزگار اور کم وسائل کے باوجود زبردست تحریک چلائی تھی۔ شاہین باغ کی خواتین کا سرد موسم اور حکومتی سختیوں سے مقابلہ اس احتجاج کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کر گیا تھا۔ بُرا ہو کورونا وبا کا، جس کی وجہ سے مسلمانوں کو احتجاجی تحریک لپیٹنا پڑی، اور مودی حکومت شیر ہوگئی۔
اسی لیے مودی حکومت اب کسان تحریک کو بھی اسی طریقے سے ہینڈل کرتی نظر آتی ہے کہ وقت گزارتے جاؤ، تھک ہار کر یا کسی فرقہ وارانہ فساد کی سازش کے ساتھ انہیں بھی رخصت کردیں گے۔ لیکن اس بار مودی حکومت کو منہ کی کھانا پڑ سکتی ہے، اور اس احتجاج کو ’شاہین باغ ٹو‘ کا نام بھی دیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ احتجاج اب محروم طبقات کی آواز بنتا دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ ابھی اس کے مقاصد صرف زرعی قوانین کی واپسی تک محدود ہیں لیکن کل کو یہی تحریک بھارت میں حقیقی جمہوریت کی واپسی کی تحریک بھی بن سکتی ہے۔ متنازع شہریت قانون کا نفاذ اور اس کی حتمی تشکیل کا کام باقی ہے اور مسلمانوں کے دوبارہ منظم ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔
دلی کے لال قلعہ پر لہرایا جانے والا جھنڈا جسے خالصتان تحریک کا جھنڈا کہا جا رہا ہے دراصل سکھ مذہب کے دسویں گورو، گوبند سنگھ کا جھنڈا ہے اور اسے مذہبی تقدیس حاصل ہے۔ اس جھنڈے کو سکھ برادری نشان صاحب کے نام سے جانتی ہے اور ان کا عقیدہ ہے کہ یہ جھنڈا جہاں بھی لہرائے گا انہیں فتح دلوائے گا۔
کسان تحریک کی اٹھان اور اس کا مزاج بتا رہا ہے کہ جواہر لال نہرو کو جھکا دینے والے بھارتی پنجاب کے سکھ اس بار مودی کو بھی جھکا کر دم لیں گے اور اگر مودی نے سمجھداری سے کام نہ لیا اور جمہور کے سامنے ہار ماننے سے انکار کیا تو بڑی تکلیف دہ دائمی ہار ان کا مقدر بن سکتی ہے اور یہ شکست صرف مودی کی نہیں ہوگی بلکہ اگر اقتدار اور بیوپار کے گٹھ جوڑ کے خلاف اس تحریک کو طاقت سے دبانے کی کوشش ہوئی تو بھارت بھی بہت کچھ کھو سکتا ہے۔