امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی ’کیمپین ٹیم‘ کے مطابق سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی۔ انھوں نے ٹرمپ انتظامیہ پر یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ اس نے سعودی عرب کی طرف سے یمن میں ہونے والی طویل اور تباہ کن جنگ کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں پر آنکھیں بند کر رکھی تھیں، جہاں چھ سال کے عرصے میں ہزاروں افراد ہلاک کیے گئے۔
وائٹ ہاؤس میں صدر جو بائیڈن کی نئی ٹیم نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لے گی اور انسانی حقوق کے مسئلے کو باقاعدگی سے دیکھا جائے گا۔ صدر بائیڈن نے یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ سعودی عرب کی یمن میں جاری مہم جوئی کے لیے امریکی فوجی امداد روک دیں گے۔
اقتدار میں آنے کے پہلے ہفتے میں ہی صدر جو بائیڈن کے تحت امریکی انتظامیہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے کئی ارب ڈالرز کے اسلحے کے فروخت کے معاہدوں کو معطل کر دیا ہے اور ان کا نئے سرے سے جائزہ لینا شروع کر دیا ہے۔
کیا واقعی کوئی تبدیلی واقع ہونے والی ہے؟
کیا امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں طویل دورانیے کے لیے تبدیلی آنے والی ہے؟ کیا بائیڈن انتظامیہ کی خوب تشہیر والی مہم کا سعودی عرب کی طرف سے کی جانے والی متعدد انسانی حقوق کی پامالیوں پر کوئی حقیقی اثر بھی ہو گا یا سعودی عرب کے پڑوسی ملک یمن میں جاری جنگ میں نئی امریکی انتظامیہ انسانی حقوق پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گی؟
آخر کار سعودی عرب امریکہ کا عرب دنیا میں ایک قریبی شراکت دار ہے، جو ایرانی ملیشیا کو مشرق وسطیٰ میں پھیلنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور امریکہ کے ہتھیار خریدنے والا بڑا ملک بھی ہے۔
عوامی تاثر
سٹاک ہوم انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ ریسرچ کے مطابق سنہ 2015 سے سنہ 2019 تک سعودی عرب اسلحہ خریدنے والا سب سے بڑا ملک ہے جبکہ امریکہ اس اسلحے کا بڑا حصہ فروخت کرنے والا بڑا ملک ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے مغرب سے خریدے جانے والے اسلحے، جس میں برطانوی اسلحہ بھی شامل ہے، کو یمن جنگ میں استعمال کیا گیا۔
برطانیہ میں اسلحے کی تجارت کے خلاف ایک کیمپین میں شامل اینڈریو سمتھ کا کہنا ہے کہ کسی بھی حقیقی تبدیلی کے لیے صدر بائیڈن کو اس سے کئی گنا سخت مؤقف اختیار کرنا ہو گا جو اوبامہ انتظامیہ میں نائب صدر بائیڈن نے اختیار کیا تھا۔‘
‘صدر اوبامہ کے دور میں اسلحے کی بڑی تعداد میں فروخت شروع ہوئی تھی۔‘
سعودی عرب میں انسانی حقوق کی بہتری سے متعلق سعودی حکام ملک میں حالیہ عرصے میں پھانسیوں کی تعداد میں نمایاں کمی کی مثال دیتے ہیں۔
ملک کے طاقتور ترین حکمران شہزادہ محمد سلمان کی ٹیم کو اس بات کا ادراک ہے کہ انسانی حقوق سے متعلق معاملات کیسے عالمی سطح پر ملکی تشخص کو مجروع کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
برطانوی رکن پارلیمنٹ کرسپن بلنٹ کے مطابق محمد بن سلمان کو ان کے قریبی مشیروں کی طرف سے متضاد مشورے دیے جا رہے ہیں کہ تاہم (صدر بائیڈن کی طرف سے انسانی حقوق پر زور دینے کی وجہ سے) اب محمد بن سلمان کو ایک اور موقع دیا ہے کہ وہ اس قابل عمل مشورے پر کاربند رہیں کہ سعودی عرب کا عوامی تاثر اہمیت رکھتا ہے۔
سنہ 2017 سے، جب سے محمد بن سلمان اقتدار میں آئے ہیں، ملک میں کئی تبدیلیاں رونما ہوئیں ہیں۔ محمد بن سلمان نے ایک سماجی انقلاب برپا کرتے ہوئے خواتین پر عائد ڈرائیونگ کی پابندی کا خاتمہ کیا، عوام کے لیے تفریحی مواقع پیدا کیے اور مذہبی پیشواؤں کے اثر و رسوخ کو ایک طرف کرتے ہوئے انھوں نے خواتین اور مردوں کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع بھی دیا۔
گذشتہ پانچ سال کے مقابلے میں سعودی عرب اب ایک عام اور خوشگوار مملکت کی طرح کا ہے۔
اس کے ساتھ ہی محمد بن سلمان، جنھوں نے کئی دیگر سینیئر سعودی حکام کے برعکس مغرب میں زیادہ وقت نہیں گزارا، نے آزادی اظہار رائے پر قدغن لگانے کے احکامات جاری کیے۔ اس سے قبل جب سعودی شہریوں کو احتجاج کا حق نہیں تھا تو وہ آن لائن کوئی اپنی شکایت درج کرا سکتے تھے۔ مگر اب یہ حق بھی ان سے چھین لیا گیا ہے۔
ہزاروں شہریوں کو گرفتار کیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس سب پر محمد بن سلمان نے کوئی اظہار ندامت نہیں کیا۔ شہریوں کو پرامن اور تعمیری آرا کی پاداش میں زدوکوب کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں اور یہ بات محمد بن سلمان کے ترقی پسند ایجنڈے میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئی۔
الزامات اور انسانی حقوق کی پامالیاں
انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کی وجہ سے مغرب میں محمد بن سلمان کا تشخص ایک ’فرعون‘ کا سا بن گیا۔
ان انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں میں سے ایک سنہ 2018 میں استنبول میں سعودی سفارتخانے کے اندر سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہے، جسے ٹکرے ٹکڑے کر کے ان کی لاش جلا دی گئی۔ اس حوالے سے تازہ تفصیلات سی آئی اے کی رپورٹ میں سامنے لائی جا سکتی ہیں۔
اسی طرح خواتین کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن لیجان الہذول کی گرفتاری اور ان پر مبینہ تشدد اور اس وقت سعودی نظام انصاف ہے، وہ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔
زیادہ تر ٹرائل خفیہ طور پر کیے جاتے ہیں اور وکلا تک رسائی نہیں دی جاتی اور انسداد دہشتگردی کی عدالتیں پُرامن شہریوں کا بھی ٹرائل کرتی ہیں۔
محمد بن سلمان کے دور میں لاپتہ کیے گئے افراد کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ یہ سلسلہ شاہی خاندان کے افراد تک بھی پہنچا، جہاں 79 برس کے شہزادہ عبدالعزیز، جو سعودی عرب کے بانی کے بیٹے بھی ہیں، کو بھی گذشتہ سال گرفتار کیا گیا اور ان پر بغاوت کا مقدمہ چلا۔
سابق ولی عہد اور وزیر داخلہ محمد بن نیاف، جنھیں سنہ 2000 میں القاعدہ کو شکست دینے کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے کو بھی الگ تھلگ کر دیا گیا۔
ولی عہد کے انٹیلیجنس کے سربراہ اور سی آئی اے کے اہم پارٹنر، سعد الجبری سنہ 2017 میں کینیڈا چلے گئے اور محمد بن سلمان کے خلاف قانون مقدمہ دائر کر دیا، جس میں انھوں نے یہ الزام عائد کیا کہ سعودی حکمران صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے چند ہفتے بعد انھیں جان سے مارنے کے لیے ان کے پیچھے کینیڈا قاتل بھیجے۔
الجبری کے بچوں کو سعودی عرب میں ان کے گھروں سے نطر بند کیا گیا اور ان پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ریاستی فنڈز میں خرد برد سے پیسے بنائے۔
محتاط آوازیں
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان معاملات میں بہت کم ہی دلچسپی لی۔ انھوں نے صدر بننے کے بعد سب سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کیا اور انسانی حقوق کی بہتری پر زور دینے کے بجائے وہ سعودی رہنماؤں کے ساتھ ڈیل کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔
اینڈریو سمتھ کے مطابق ’کوئی بھی امریکی صدر اس حوالے سے بہت اثرورسوخ استعمال کر سکتا ہے۔ وہ یہ سب جمہوریت کے لیے کر سکتے ہیں۔ ٹرمپ نے ایسا نہیں کیا۔‘
مشرق وسطیٰ میں سابق امریکی سفارتکار ڈینس روس نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کی کوئی قیمت وصول نہ کر کے ایک بڑی غلطی کی۔
بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے ان واضح ارادوں کے باوجود امریکہ کی وزارت خارجہ، سی آئی اے، پینٹاگون اور امریکہ کی ہتھیاروں کی لابی یہ زور دے گی کہ اس حوالے سے سعودی عرب کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے دانشمندانہ رویہ اختیار کیا جائے۔
ڈینس روس جیسے سفارتکار یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مغرب نواز سعود خاندان کا سعودی عرب میں اقتدار ختم ہوتا ہے تو پھر اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کی جگہ پھر سخت گیر اسلام پسند اور مغرب بیزار حکومت آئے گی۔
ان کے مطابق ہم سعودی عرب کو یہ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ کیا کریں۔ آپ کسی کو بھی کھلے عام سر پر ہتھوڑا نہیں مار سکتے یا پھر انھیں مزید کچھ کرنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے نجی طور پر اہم مذاکرات کی ضرورت ہے۔
اب ہمیں اصلی سوال کی طرف واپس آنا چاہیے: کیا بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب کے انسانی حقوق سے متعلق بہتری لا سکتی ہے؟
اس کا جواب ہے ہاں بالکل۔ اب یہ کام کس حد تک ہو سکتا ہے اس حوالے سے وائٹ ہاؤس پر انحصار ہے کہ وہ کس حد تک اس معاملے پر زور دیتا ہے اور دونوں ممالک اپنے مفادات کا تعین کر سکتے ہیں کہ ان کے لیے کس میں بہتری ہے۔
روس اور چین سعودی عرب کے ساتھ معاملات مزید بہتر کرنے پر رضامند ہیں اور انسانی حقوق سے متعلق کوئی کسی قسم کے مشکل سوالات بھی نہیں اٹھاتے۔
تاہم ابھی تک امریکہ ہی سعودی عرب کا اہم سٹریٹجک پارٹنر ہے اور رائل کورٹ کے ایک اہلکار کے مطابق بائیڈن انتظامیہ گذشتہ انتظامیہ کے مقابلے میں سعودی عرب کے انسانی حقوق کے معاملے پر ذیادہ روشنی ڈالے گی۔ یہ اب ایجنڈے پر ہے اور اس کے لیے اب عمل کی ضرورت ہے نہ کہ محض الفاظ کی۔