جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں کہ اعلی عدالت کے جج صاحب فیصلہ لکھنا چاہیں اور لکھ نہ پائیں، حکمران حکم چلانا چاہیں اور چلا نہ پائیں، مقننہ قانون بنانے کی سکت رکھتی ہو مگر اختیار نا ہو اور میڈیا زبان رکھتے ہوئے قوت گویائی سے محروم ہو تو ایسے نظام کو کیا کہیں گے؟
رواں ہفتے ایک اعلیٰ عدالت کے منصف کو فیصلے میں شریک کرنے سے روک دیا گیا تو دوسری عدالت کے جج صاحب نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ جنرل اسد درانی کے مقدمے میں سب سمجھ چکے ہیں فیصلہ دینا چاہتے ہیں مگر جناب۔۔۔ میری معذرت۔۔۔ یہ محض خبر ہے اس کے پیچھے کیا کچھ ہوا ہو گا؟
ماضی قریب یا بعید میں کس معاشرے، کس ملک میں ایسا ہوا ہے؟ سوال یہ ہے کہ آئین کہاں؟ نظام کیا؟ اور حکمرانی کس کی؟
کمزور سے کمزور ملک میں عدالتیں خوف سے آزاد اور بے باک ہوتی ہیں، انصاف کا ترازو جھُک جائے تو نظام ڈھے جاتے ہیں، بظاہر زندہ معاشرہ مردہ اور بظاہر زندہ قوم ہجوم میں بدل جاتی ہے۔ کیا ہم اس مقام پر پہنچ گئے ہیں؟
یہی وجہ ہے کہ ہم دنیا میں ہی نہیں خطے کی دوڑ میں پیچھے بلکہ بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔
ہم سے جُدا ہونے والے بنگلہ دیش کی معاشی اور سماجی ترقی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ سنہ 1971 میں ہم سے آزادی پانے والا ملک اس وقت خطے میں سب سے آگے ہے۔
74 فیصد شرح خواندگی، گذشتہ پندرہ برسوں میں پانچ فیصد اور کورونا سے قبل سات فیصد سے زائد کی رفتار سے ترقی کرنے والا ملک بنگال ہمارے لیے اب مشعل راہ بن چکا ہے۔ سنہ 2019 میں 40 ارب ڈالرز سے زائد برآمدات کرنے والا ملک اس وقت کپڑے کی صنعت میں صرف چین سے مقابلہ کر رہا ہے جبکہ اس کی آبادی کی ساٹھ فیصد عورتیں کام کرتی ہیں۔
نوجوانوں کی اکثریت پر مبنی ملک نے ڈیجیٹل اکانومی میں دنیا میں انڈیا کے بعد دوسرا مقام حاصل کر لیا ہے اور یہی نہیں آکسفورڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے مطابق بنگلہ دیش دنیا میں پانچ لاکھ فری لانسرز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جو سالانہ ایک سو ملین ڈالر کماتا ہے۔
کسی زمانے میں حقارت سے پکارا جانے والا ’ٹکا‘ (بنگلہ دیش کی کرنسی) ہمارے روپے کے مقابلے میں دگنی عزت کما چکا ہے۔ اور یوں لگ بھگ ملک کی تمام آبادی ترقی میں ہاتھ بٹا رہی ہے۔
یہ سب تب ممکن ہوا جب ملک میں جمہوریت مضبوط ہوئی، سال ہا سال ملک کے اقتدار پر قبضہ جمانے والی فوج بیرکوں میں واپس گئی اور خود جمہوری نظام کی محافظ بنی۔ یہ سب تب ممکن ہوا جب فوج ہی نے آئین کو تحفظ دیا، ووٹ کے تقدس کو بحال کیا، عدالتیں محفوظ اور ادارے معتبر کیے۔
سنہ 2007 میں برسراقتدار جماعت کی جانب سے دھاندلی کے بعد مظاہروں اور احتجاج کے بعد شفاف انتخابات ہوئے اور اقتدار منتخب حکومت کے سپرد ہوا۔
یوں تو پاکستان میں موجودہ مبینہ ہائبرڈ نظام سیاست کی آڑ میں چھپے سیاسی کرداروں، جمہوریت کے بہروپ میں غیر جمہوری چہروں اور صحافت کے پردے میں چھپے آلہ کاروں کو ظاہر کر رہا ہے تاہم ایسا کب تک چلے گا؟ ہم کب سیکھیں گے؟ آئین کی سربلندی کے لیے جمہوریت کے ہاتھ مضبوط کیے بغیر معاشی بدحالی کا شکار ملک ترقی کی راہ پر گامزن کیسے ہو گا؟