‘میں سنہ 2009 سے فرانس میں رہ رہی ہوں اور میں نے کبھی بھی نہ اجنبیت محسوس کی اور نہ ہی مجھے کسی نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن حکومت اور میڈیا کی جانب سے اس نئے قانون کے بارے میں بحث شروع ہونے کے چند روز بعد مجھے ایک انتہائی نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ اُس روز میں بس میں سفر کے دوران کسی سے عربی زبان میں بات کر رہی تھی کہ اچانک ایک فرانسیسی خاتون نے مجھ پر چیخنا شروع کر دیا۔ وہ مجھے دہشتگرد اور مہاجر کہہ رہی تھی اور یہ کہ میں فرانس کے بغیر کچھ نہیں ہوں۔
یہ کہنا تھا حفضہ علامی کا جو کہ ایک مراکشی نژاد فرانسیسی شہری ہیں اور الجزیرہ ٹی وی کے لیے کام کرتی ہیں۔
سنہ 2017 میں جب میں فرانس کے صدارتی انتخابات کی رپورٹنگ کے لیے میں پیرس گیا تھا تو وہاں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس وقت بھی فرانس میں ثقافتی اور مذہبی تنوع کے بارے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر کچھ پریشان تھیں۔ لیکن اب انھیں اپنے خدشات حقیقت بدلتے نظر آ رہے ہیں۔
میں سوچتی ہوں کہ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا جبکہ میں تو حجاب بھی نہیں کرتی۔ تو میں تصور کر سکتی ہوں کہ سکارف یا عبایہ وغیرہ پہننے والی خواتین کو کیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک صحافی کے طور پر کام کرنے میں مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ فرانسیسی لوگ پڑھے لکھے اور قابل افراد کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی عرب مسلمان سے ملتے ہیں تو ان کا پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک جاہل اور غریب آدمی ہوگا۔ اس بارے میں فرانسیسی لوگوں کی سوچ کافی تنگ نظر اور طے شدہ ہے۔
فرانس کی قومی اسمبلی نے گذشتہ منگل کو ایک نئے قانون کی منظوری دے دی تھی جسے بقول فرانسیسی حکومت ‘شدت پسندی’ اور ‘معاشرے سے الگ تھلک رہنے’ کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب اس قانون کو ایوانِ بالا میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
اس قانون کی حمایت کرنے والے فرانسیسی سیاستدانوں کا کہنا ہے اس طرح تشدد کے واقعات کی اصل وجوہات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
قانون میں ہے کیا؟
اس قانون میں اسلام اور مسلمانوں کا نام تو نہیں لیا گیا ہے لیکن مبصرین کے خیال میں اسں کی سمت مسلمانوں کی ہی جانب ہے۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد سب کو فرانسیسی معاشرے کی بنیادی اقدار میں شامل کرنا ہے۔
عبادت گاہیں اور مذہبی تنظیمیں
اس نئے قانون کے تحت ’عبادت گاہوں کو قوم پرستی‘ اور ’دوسرے ممالک کی حکومتوں کی حمایت‘ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ سب کو ملک کے سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ خاص طور پر ایسی تنظیموں اور عبادت گاہوں کی نگرانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے جو ’انتہا پسندانہ عقیدے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔‘
اگر کسی مذہبی رہنما کے متعلق پتا چلا کہ وہ فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکے گا۔ اس قانون کے تحت مذہبی تنظیموں اور عبادت گاہوں کو بند کرنے کے حکومتی اختیارات کو نمایاں طور پر بڑھایا جائے گا۔
بیرون ملک جیسے ترکی، قطر یا سعودی عرب سے آنے والی مالی امداد اگر 10 ہزار یورو سے زیادہ ہوگی تو اسے ظاہر کرنا ہوگا اور کھاتوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔ مذہبی تنظیموں کے لیے مالی شفافیت کے نئے اصول وضع کیے جائیں گے۔
فرانسیسی حکومت کی مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے تمام مذہبی تنظیموں کو لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ ’فرانس کی لبرل اور روشن خیال اقدار‘ کو تسلیم کرتے ہیں۔
سکول اور تعلیم
اس قانون کے تحت تین سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو گھر پر تعلیم کی اجازت کی شرائط کو سخت کر دیا جائے گا تاکہ والدین کو بچوں کو سکولوں سے دور رکھنے سے روکا جا سکے۔ جبکہ بلا اجازت قائم کیے گئے سکولوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گھروں پر سکولنگ کی کڑی نگرانی ہوگی۔
کنوارے پن کا ٹیسٹ اور شادیاں
اس قانون میں شادی سے پہلے کنوارے پن کا ٹیسٹ کروانے پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
اسی طرح زبردستی کی شادیوں کو رکوانے کے لیے حکومتی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خاتون اور مرد کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں ان کی شادی والدین کی جانب سے زبردستی تو نہیں کروائی جا رہی۔
فرانس کے قانون کے تحت بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں تو پہلے ہی سے ممنوع ہیں لیکن اس نئے قانون کے تحت ایسے تارکینِ وطن کو فرانس میں رہائشی اجازت نامہ نہیں مل سکے گا جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔
سیکولرازم کے اصولوں کا احترام
کسی بھی شخص یا ادارے کو، جس میں نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں جو ریاستی خدمات فراہم کر رہی ہیں، سیکولرازم کے اصولوں کا احترام اور عوامی خدمات کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ اِسی اصول کے تحت عوامی سوئمنگ پولز میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ وقت مقرر کرنے پر پابندی ہوگی۔
پبلک سروس کو اِن خدمات کی خلاف ورزی پر مجبور کرنے کی کسی بھی کوشش کی سزا پانچ سال قید اور 75 ہزار یورو جرمانہ ہو سکتی ہے۔ کسی سرکاری ملازم کو مذہبی بنیادوں پر ڈرانے دھمکانے والوں کو بھی سخت سزا ہو گی۔
کسی سرکاری ملازم کی نجی معلومات شیئر کرنا اور لوگوں کو اس کے خلاف اکسانا بھی جرم ہوگا۔
فرانس میں کچھ مبصرین اور سیاستدان حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے اس قانون کا استعمال کر رہی ہے۔ لیکن وزیراعظم ژاں کیسٹکس نے کہا ہے کہ یہ قانون مذاہب کے خلاف یا خاص طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔
فرانس میں 60 لاکھ کے قریب مسلمان رہتے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق شمالی افریقی ممالک مثلاً الجزائر، مراکش اور تیونس سے ہے، جو فرانس کی کالونیاں رہ چکے ہیں۔
فرانس میں سنہ 2015 سے اب تک مسلمان شدت پسندوں کے حملوں میں ڈھائی سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم گذشتہ برس توہین آمیز خاکوں کو سکول میں دکھانے والے استاد کے قتل کے بعد سے فرانس میں مسلمانوں کی طرف غصے کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور مبصرین کے خیال میں یہ قانون سازی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
’مسلمان ہونا ایک احساس جرم بن جائے گا‘
فرانس میں رہنے والے بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس نئے قانون میں بظاہر تو کئی اچھے نکات ہیں لیکن خدشہ یہ ہے کہ اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو مزید دیوار سے لگایا جائے گا۔ مسلمان فرانسیسی معاشرے میں گھلنے ملنے کے بجائے مزید دور ہو جائیں گے اور معاشرتی بیگانگی کا شکار ہوں گے۔
صحافی حفضہ علامی کہتی ہیں کہ یہ قانون مسلمانوں کو نشانہ بنائے گا جو رپبلکن اصولوں اور اقدار کے دشمن نہیں ہیں، وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ قانون مسلمانوں کو ایک عام شہری کے بجائے اجنبی اور درانداز کے طور پر دیکھے گا۔ ان کے خیال میں یہ لوگوں کی شہری آزادیوں کو سلب کرے گا اور سیکولرازم کو تنگ نظری سے نافذ کرے گا۔
حفضہ کو خدشہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے نسل پرستانہ قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور مسلمان ہونا ایک احساس جرم بن جائے گا جس کے نتیجے میں مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے گریز کریں گے۔
‘مسجدوں میں جا کر عبادت کرنا اتنا سادہ عمل نہیں رہے گا۔ وہ مسلمان جو نوکریوں یا تعلیم کے لیے فرانس آنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی کیونکہ فرانس میں مسلمانوں کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں۔’
’کئی لوگ پاکستان منتقل ہو چکے ہیں یا ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں‘
آصفہ ہاشمی پیرس کے شمال میں ایک مضافاتی علاقے کی رہائشی ہیں۔ وہ ایک طرف تو فرانسیسی معاشرے میں تمام رنگ و نسل اور مذہبی برادریوں کو ملنے والی آزادیوں اور برابری کی تعریف کرتی ہیں لیکن انھیں اس نئے قانون پر کچھ تشویش بھی ہے۔
آصفہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ فرانسیسی اقدار کو اپنانے کے لیے مسلمانوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ کئی ایسے لوگوں کو جانتی ہیں جو اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے جس طرح کی مذہبی زندگی چاہتے ہیں اس کی آزادی فرانس میں مشکل ہوتی جا رہی ہے۔
‘میرے جاننے والوں میں کئی لوگ ایسے ہیں جو یا تو پاکستان منتقل ہو چکے ہیں یا ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس نئے قانون کی وجہ سے لوگوں کے خوف میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ جیسے اب ہر وقت ان کی نگرانی کی جائے گی۔’
آصفہ فرانس میں ملنے والی آزادیوں کی تعریف بھی کرتی ہیں۔ ‘اگر آپ قانون کا احترام کریں تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں ہم پاکستان سے زیادہ اچھی طرح رمضان گزارتے ہیں۔ گھروں پر میلاد ہوتے ہیں، سپیکروں پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن کی آوازیں گھروں سے باہر جاتی ہیں لیکن کبھی بھی محلے والوں یا حکام نے کچھ نہیں کہا۔ میرے خیال میں حکومتی سطح پر اور میڈیا میں جتنی شدت سے بات ہوتی ہے عام محلوں اور علاقوں میں صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوتی۔’
آصفہ خود ایک آفس میں کام کرتی ہیں جہاں باقی دفاتر کی طرح نقاب پہننے پر پابندی ہے۔ انھوں نے گذشتہ کچھ برسوں میں آہستہ آہستہ حالات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ وہ حکومت کی مجبوریوں کو بھی سمجھتی ہیں۔
‘ہم تھوڑے پریشان ہیں۔ جب ہم آپس میں بات کرتے ہیں تو اس میں عام گھریلو مسائل کے علاوہ مستقبل کے خدشات پر بھی بات ہوتی ہے۔ چند لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے سب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘
’جس طرح کے پُرتشدد واقعات ہوئے ہیں اور معصوم لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے اس کے بعد حکومت کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ وہ سکیورٹی کو سخت کرے اور ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔’
تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی مذہب کی قابلِ احترام شخصیات کے بارے میں بھی قانون ہونا چاہیے۔ ‘آزادیِ رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کی دل آزاری کی جائے۔’
موجودہ صورتحال کا فرانس کی تاریخ سے تعلق
پیریس کے رہائشی اسد الرحمان فرانسیسی معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن مسائل کے تدارک کے لیے یہ قانون متعارف کرایا جا رہا ہے بہت مشکل ہے کہ یہ قانون اس سلسلے میں کوئی مدد کر سکے۔
‘اگر ہم اس صورتحال کو مذہبی کے بجائے نسل کی بنیاد پر دیکھیں تو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔‘
‘فرانس کے مسلمانوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقہ کے ممالک سے ہے جو فرانس کی کالونی رہے ہیں۔ فرانس کے ساتھ ان مسلمانوں کا ایک کلونیئل تعلق ہے جس میں بڑی پیچیدگی ہے۔ مثلاً اگر آپ الجزائر کی بات کریں تو اس نے تحریک چلائی اور فرانس سے آزادی حاصل کی۔ فرانس نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ایک بھرپور آپریشن کیا لیکن آخر کار فرانس کو الجزائر سے نکلنا پڑا اور سنہ 1962 میں الجزائر آزاد ہو گیا۔‘
’اس کے بعد فرانس کی سکیورٹی اداروں میں جو زیادہ تر لوگ شامل کیے گئے یہ وہ فوجی تھے جنھوں نے الجزائر کے لوگوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ ان ہی لوگوں کو فرانس میں پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ نئے انتظامی ڈھانچے میں یہی لوگ شامل کر دیے گئے۔ تو مسلمانوں کے ساتھ ان کے کشیدہ تعلقات پہلے ہی سے موجود تھے جو مذہبی سے زیادہ نسلی تھے۔ سکیورٹی اداروں خاص طور پر پولیس میں ان لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے شمالی افریقہ سے آنے والے مسلمانوں اور اداروں کے درمیان ایک منافرت کا رشتہ بن گیا۔’
اسد الرحمان کہتے ہیں کہ موجودہ کشیدہ کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ چند سیاستدان کچھ وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے انھیں آنے والے انتخابات میں کامیابی مل سکے۔ ان کے مطابق اس مسئلے کی جڑیں فرانس میں بہت گہری ہیں۔
وہ کہتے ہیں ‘فرانسیسی اپنی نسل کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ وہ اپنی شناخت، روایات اور اقدار کی بقا کے معاملے پر بہت حساس ہیں۔ اس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ مسلمان ایک ایسی اقلیت ہیں جو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں، جو معاشرے کی مختلف سطحوں پر نظر آنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ شناخت کو بچانے کا بحران صرف مسلمانوں میں نہیں ہے یہ احساس اور خوف خود فرانسیسیوں میں بھی ابھرا ہے اور حالیہ واقعات اس کا بھی اظہار ہیں۔’
اسد الرحمان کے مطابق اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ’فرانسیسی اپنی اقدار اور ثقافتی شناخت کے بارے میں کسی حد تک قدامت پسند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان برطانیہ اور امریکہ میں جس آسانی سے عوامی سطح پر اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں وہ آسانی مسلمانوں کو فرانس میں میسر نہیں ہے۔‘
سوال یہ ہے کہ ژاں پال سارتر، روسو، والٹائر، البرٹ کامیو جیسے دانشوروں اور روشن خیالوں کے ملک میں سیکولرازم اتنا سخت گیر کیسے ہو رہا ہے۔ اسد الرحمان کہتے ہیں کہ یہ لوگ اور یہ روشن خیالی پیرس کا نظریاتی کلچر ہے۔
‘اگر آپ پیرس سے باہر نکلیں تو صورتحال مختلف ہے۔ پیرس سے باہر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں صورتحال مختلف ہے۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے برطانیہ میں بریگزٹ ہوا۔ ان علاقوں میں بے روزگاری ہے، سہولیات کی کمی ہے اور نسبتاً لوگ اتنے خوشحال نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور سخت گیر گروپ مضبوط ہو رہے ہیں اور ایک ثقافتی شفٹ آ رہا ہے۔’
اسد الرحمان کہتے ہیں کہ اپنے اپنے ادوار میں مختلف مذاہب ترقی پسند تھے لیکن وہی مذاہب آج اپنی انھی ترقی پسند اقدار کے ساتھ قدامت پسند ہو چکے ہیں کیونکہ معاشرے تبدیل ہو چکے ہیں اور آگے نکل گئے ہیں۔ یہی معاملہ کچھ فرانس کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔
ان کے مطابق فرانسیسی ریپبلک کی جو اقدار اٹھارویں صدی میں تھیں وہ بہت ترقی پسند تھیں لیکن آج اکیسویں صدی عالمگیریت کی صدی ہے جس میں صرف مسلمان ہی نہیں بالکہ مشرقی یورپ کے لوگ بھی فرانس میں آ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک پیچیدہ اور وسیع کلچر پیدا ہو رہا ہے لیکن فرانسیسی ریاست کی اقدار اس کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہیں۔ ‘
‘مثال کے طور پر عورتوں کے پردہ کرنے کا مسئلہ برطانیہ یا امریکہ میں ہمیں اس طرح نہیں نظر آتا جیسے فرانس میں نظر آتا ہے کیونکہ برطانیہ، امریکہ یا دیگر مغربی ممالک نے اسے دوسرے طریقے ہینڈل کیا۔ ان ممالک نے لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کی اور آزادی دی۔ لیکن فرانس میں یہ آزادی نہیں دی جا رہی۔ اگر کوئی خاتون یا مرد اپنی مذہبی علامت کو پہننا چاہتا ہے تو یہاں کا قانون اسے رد کرتا ہے۔ تو اگر آپ اپنی لبرل اقدار پر بھی سخت گیر رویہ اپنائیں گے تو یہ قدامت پرستی ہے۔’
اسد الرحمان کہتے ہیں کہ اس نئے قانون کے ذریعے مسجدوں کی نگرانی کر کے سکیورٹی کی صورتحال کسی حد تک بہتر بنائی جا سکتی ہے، مسلمان برادریوں میں خواتین کو کچھ حقوق دلوائے جا سکتے ہیں لیکن جو اصل مسئلہ ہے اس کو یہ قانون حل نہیں کرتا اور وہ ہے مسلمانوں کی معاشی اور سماجی پسماندگی، جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔
‘فرانس میں رہنے والے اکثر مسلمانوں کے لیے صورتحال ایسی ہے کہ ان کے پاس اپنی مخصوص برادری اور مذہب میں سمٹ کر رہنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا۔ مسلمان فرانسیسی معاشرے میں انٹیگریٹ یا گھل مل نہیں پا رہے۔ تو مجھے ڈر یہ ہے کہ اس قانون کا جو مقصد ہے کہ مسلمانوں کی معاشرے سے علیحدگی کو ختم کرنا یہ اسی کو بڑھانے کا سبب نہ بن جائے۔’
اسد الرحمان کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں فرانس کی مذہبی تاریخ کو بھی دیکھنا ہو گا۔
‘فرانس میں مسیحیت اور کلیسا کا بہت استحصالی کردار تھا اور بڑی مشکل سے فرانس نے اس سے اپنی جان چھڑائی اور ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا۔ جس کے بعد سنہ 1905 میں انھوں نے چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا قانون منظور کیا اور یہ طے ہوا کہ ریاست عملداری کو یقینی بنانے والے افراد اور ادارے کسی بھی طرح کی مذہبی علامات کو استعمال نہیں کر سکتے۔ موجودہ صورتحال کو اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں گے تو بات سمجھ میں آئے گی۔’
اسد الرحمان کہتے ہیں کہ کہ فرانسیسی ریاست نے وقت گزرنے کے ساتھ اس نظریے کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ’اس میں وہ خوف بھی نظر آتا ہے کہ کہیں ہماری اقدار تبدیل نہ ہو جائیں اور دوسروں کے نظریات ہم پر حاوی نہ ہو جائیں۔ ‘
’فرانس میں ایک فرانسیسی اسلام کی کوشش ہو رہی ہے‘
برطانیہ کی باتھ سپا یونیورسٹی کے پروفیسر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس اور یورپ کے کئی ممالک میں یہ ایک طرح کا اتفاقِ رائے ہے کہ اسلام اور خاص طور پر سیاسی اسلام کے نام پر تشدد کسی بھی وقت اور کہیں بھی ہونے کا احتمال ہے۔ اس کے علاوہ فرانس میں شدت پسندوں کے حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور فرانس کی مقامی سیاست میں انتہائی دائیں بازو اور ’سینٹرسٹ نظریات‘ کے سیاستدانوں میں اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔
‘ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ مسلمانوں کا یہ جو نیا گروپ سامنے آیا ہے ’فرینچ کونسل آف مسلم فیتھ‘ انھوں نے فرانسیسی حکومت سے مسلسل مذاکرات کیے ہیں۔ کونسل کے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے۔’
ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس کے مسلمان نوجوانوں میں یہ تاثر عام ہے کہ انھیں فرانسیسی معاشرے کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔
‘اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانس کا معاشرہ اور فرانسیسی شناخت برطانیہ اور امریکہ کی طرح ایک کثیر الثقافتی معاشرہ اور شناخت نہیں ہے۔ میرے خیال میں فرانس میں ایک فرانسیسی اسلام کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسا اسلام جو اپنے آپ کو فرانسیسی اقدار میں ڈھال لے اور فرانسیسی کلچر کا آئینہ دار ہو۔‘
ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس میں اسلام اور سیکولرازم کی ایک تاریخی کشمکش ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔
فرانس کی موجودہ صورتحال مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال وہاں رہنے والے مسلمان ایک طرح کی بے یقینی کا شکار ہیں۔
یہ نیا قانون مسلمانوں کے لیے فرانسیسی معاشرے کے دروازے کھولے گا یا مزید دریچے بند ہوں گے اس کا انحصار اقتدار کے ایوانوں میں کیے جانے والے فیصلوں پر ہو گا۔