امریکہ کے نو منتخب صدر جو بائیڈن کی حکومت کی جانب سے منظرِ عام پر لائی جانے والی انٹیلیجنس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ امریکہ نے اس معاملے میں سعودی شہزادے کا کھلے عام نام لیا ہے جبکہ محمد بن سلمان اس الزام سے انکار کرتے آئے ہیں کہ انھوں نے جمال خاشقجی کے قتل کے احکامات جاری کیے تھے۔
جبکہ سعودی عرب کی وزارت خارجہ نے امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے سعودی قیادت کے خلاف ’جارحانہ اور غلط‘ قرار دیا اور یہ کہا کہ وہ اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتے۔
سعودی وزارت خارجہ نے سرکاری خبر رساں ادارے سعودی ال اناعیہ ایجنسی (ایس پی اے) کے ذریعہ شائع کردہ ایک سرکاری بیان میں کہا ہے کہ اس رپورٹ میں غلط معلومات کا ایک مجموعہ اور جھوٹے نتائج شامل ہیں۔ کسی بھی ایسے معاملے کو مسترد کرتے ہیں جو ملک کی قیادت، خود مختاری اور اس کی عدلیہ کی آزادی کے لیے تعصب کا باعث بنے۔
سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں ایسی رپورٹ جاری کرنے اور اس میں پائے جانے والے غلط اور بلاجواز نتائج پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب سعودی سلطنت نے اس گھناؤنے جرم کی مذمت کی تھی اور اس کی قیادت نے یہ یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائے تھے کہ مستقبل میں دوبارہ ایسا بدقسمت واقعہ نہ دہرایا جا سکے۔
جمال خاشقجی ایک سعودی صحافی تھے جنھوں نے امریکہ میں خود ساختہ جلا وطنی اختیار کی ہوئی تھی اور وہ سعودی عرب کی حکومت پر تنقید کرتے رہتے تھے۔
یاد رہے کہ صدر بائیڈن نے جمعرات کو سعودی عرب کے بادشاہ شاہ سلمان سے فون پر رابطہ کیا تھا۔ انھوں نے یہ فون کال رپورٹ پڑھنے کے بعد کی تھی لیکن اس رابطے کے بعد ایسی کوئی اطلاعات سامنے نہیں آئی تھیں کہ آیا اس رپورٹ سے متعلق کوئی بات ہوئی یا نہیں۔
صدر بائیڈن سعودی عرب سے امریکہ کے تعلقات کو ’از سر نو ترتیب دینے‘ کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکی صحافی اور امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے جمال خاشقجی کو سنہ 2018 میں استنبول کے سعودی سفارت خانے میں بڑی بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ سعودی عرب کے سفارت خانے کی عمارت کے اندر سعودی اہلکاروں کے ہاتھوں ہونے والے اس قتل میں ملوث ہونے کے تمام الزامات کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے تردید کی تھی۔
امریکی قومی انٹیلیجنس کے ادارے نے کہا ہے کہ ‘ہم نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی صحافی خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں پکڑنے یا قتل کرنے کی منظوری دی تھی۔’
رپورٹ میں ایسی تین وجوہات بیان کی گئی ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا گیا ہے کہ ولی عہد نے اس آپریشن کی منظوری دی تھی:
- سنہ 2017 کے بعد سے ریاست میں فیصلہ سازی پر کنٹرول
- ان کی حفاظت پر معمور ایک مشیر کا اس آپریشن میں براہ راست ملوث ہونا
- ولی عہد کی جانب سے ‘بیرون ملک مقیم مخالف آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پرتشدد اقدامات کی حمایت’
یاد رہے کہ اس سے پہلے سعودی حکام نے کہا تھا کہ سعودی ایجنٹس کی ایک ٹیم کو جمال خاشقجی کو سعودی عرب لانے کے لیے بھیجا گیا تھا اور اس کارروائی کے دوران صورت حال بگڑ جانے کی وجہ سے وہ ہلاک ہوگئے۔
سعودی عرب کی ایک عدالت نے اس قتل کے جرم میں پانچ اہلکاروں کو موت کی سزا سنائی تھی لیکن گذشتہ سال ستمبر میں ان کی سزا میں کمی کر کے اس کو 20 سال قید میں بدل دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں ان افراد کے نام لیے گئے ہیں جن پر خاشقجی کے قتل کا الزام یا ذمہ داری ڈالی گئی ہے۔ لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ہم نہیں جانتے کہ انھیں نقصان پہچانے کی منصوبہ بندی میں ملوث لوگ کس حد تک اس میں آگے بڑھے۔‘
سنہ 2019 میں امریکہ کے نمائندہ خصوصی ایگنس کلامارڈ نے سعودی عرب پر الزام عائد کیا کہ اس نے جان بوچھ کر خاشقجی کو مارنے کی اجازت دی اور انھوں نے سعودی عدالت کی کارروائی کو انصاف کے منافی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔
سعودی عرب میں استغاثہ کا کہنا تھا کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو اس قتل کے بارے میں کچھ علم نہیں تھا۔ لیکن سنہ 2019 میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کیونکہ یہ قتل سعودی اہلکاروں کی غفلت سے ہوا ہے اس لیے وہ سعودی عرب کی حکومت کے ایک اہم ترین رکن ہونے کی حیثیت سے اس قتل کی ذمہ دار قبول کرتے ہیں۔
امریکی جریدے واشنگٹن پوسٹ جس کے لیے جمال خاشقجی کام کرتے تھے، کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کی تحقیقات کی بنیاد وہ فون کالیں ہیں جو امریکہ میں سعودی سفیر ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے بھائی خالد بن سلمان نے قتل کے بعد کی تھیں۔
شہزادہ خالد جو ملک کے نائب وزیر دفاع بھی ہیں مبینہ طور پر انھوں نے اپنے بھائی محمد بن سلمان کی ہدایت پر جمال خاشقجی کو فون کر کے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ استنبول کے سعودی سفارت خانے چلے جائیں اور انھیں کچھ نہیں کہا جائے گا۔ شہزادہ خالد نے جمال خاشقجی سے بات کرنے کی تردید کی تھی۔
سنہ 2019 میں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندہ ایگنس کالامرڈ نے سعودی عرب کی ریاست پر جمال خاشقجی کو ’سوچ سمجھ کر‘ قتل کرنے کا الزام عائد کیا تھا اور اس قتل کے مقدمے کو انصاف کے ساتھ ایک مذاق قرار دیا تھا۔
یہ معاملہ اب کیوں اٹھایا جا رہا ہے؟
جمال خاشقجی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ کو شائع کرنا امریکہ کے صدر جو بائیڈن کی سعودی عرب سے امریکہ کے تعلقات کو از سر نو ترتیب دینے کی پالیسی کا حصہ ہے اور وہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی کے برخلاف سعودی عرب کے بارے میں زیادہ سخت رویہ رکھتے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے اس قتل کی تفتیشی رپورٹ کو عام کرنے کے قانونی تقاضوں کو سعودی عرب سے تعلقات بہتر رکھنے کی بنیاد پر رد کر دیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان جان پاسکی نے بدھ کو کہا تھا کہ صدر بائیڈن سعودی حکمران فرما روا شاہ سلمان سے براہ راست بات کریں گے اور ان کے بیٹے ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان سے بات نہیں کریں گے جو کہ عملاً اس وقت سعودی عرب کے حکمران ہیں۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا تھا کہ سعودی عرب کے 85 سالہ حکمران شاہ سلمان سے صدر بائیڈن کی اقتدار میں آنے کے بعد یہ پہلی بات چیت ہو گی۔
انھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہم نے اقتدار میں آنے کے فوراً بعد یہ بات واضح کر دی تھی کہ ہم سعودی عرب سے اپنے تعلقات کا از سر نو جائزہ لیں گے۔’
نئی امریکی انتظامیہ نے اس سلسلے میں پہلے ہی پالیسی کی سطح پر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ صدر بائیڈن نے یمن کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگ کی حمایت ختم کر دی ہے اور سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بھی بند کر دی ہے۔
جمال خاشقجی کو کیسے قتل کیا گیا؟
انسٹھ سالہ صحافی جمال خاشقجی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر سنہ کو 2018 ترکی کے شہر استنبول کے سعودی سفارت خانے میں جاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
سعودی عرب کے حکام کے مطابق جمال خاشقجی پر قابو پانے کے لیے انھیں ایک انجیکشن لگایا گیا اور جسمانی کشمکش کے دوران انھیں انجیکشن کی ضرورت سے زیادہ مقدار لگ گئی جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔ جس کے بعد ان کی لاش کے ٹکڑے کر کے کچھ مقامی مددگاروں کے حوالے کر دی گئی۔ ان کی لاش کا اس کے بعد سے کوئی سراغ نہیں مل سکا۔
ترکی کے خفیہ اداروں کی طرف سے جاری کردہ معلومات جن میں کچھ آڈیو مواد بھی شامل ہے، دل دہلانے دینے والی تفصیلات سامنے آئی ہیں۔
خاشقجی ماضی میں سعودی عرب کی حکومت کے مشیر کے طور پر بھی کام کر چکے تھے لیکن بعد میں سعودی حکمران خاندان کی نظروں میں کھٹکنے لگے اور وہ ملک چھوڑ کر سنہ 2017 میں امریکہ چلے گئے۔ امریکہ میں انھوں نے واشنگٹن پوسٹ کے لیے محمد بن سلمان کی پالیسی پر تنقیدی کالم لکھنے شروع کر دیے۔
اپنے پہلے ہی کالم میں انھوں نے لکھا تھا کہ انھیں سعودی عرب میں گرفتاری کا خوف تھا کیوں کہ محمد بن سلمان اپنے تمام مخالفین کی آواز دبانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے اپنے آخری کالم میں یمن پر سعودی عرب کے حملے پر شدید تنقید کی تھی۔