2002ء کے بعد 2018ء تک ق لیگ، پیپلزپارٹی پارلیمنٹرین اور ن لیگ کی حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی۔ اگرچہ تینوں حکومتوں میں کسی ایک وزیراعظم کو مدت پوری کرنے کا موقع نہیں مل سکا۔اس پس منظر کے ساتھ 25 جولائی 2018ء کو ایک بار پھر عام انتخابات ہوئے۔ سسٹم کے بیٹھ جانے کے بعد 26 جولائی کو آنے والے نتائج کسی بھی فریق کے لیے متوقع نہیں تھے۔جیتنے اور ہارنے والے سبھی درجہ بدرجہ حیران اور پریشان تھے۔ 26 جولائی کو اسلام آباد میں سیاست دانوں کی ایک بڑی بیٹھک ہوئی جس میں انتخابی نتائج کو دھاندلی زدہ قرار دے کر مسترد کردیا گیا۔
مولانا فضل الرحمن کے سوا دیگر بڑے تو ایڈجسٹ کردیے گئے، مولانا مگر سراپا احتجاج بن گئے۔ انہوں نے ملک بھر میں درجن سے زائد ملین مارچ کیے اور پھر آزادی مارچ کے عنوان سے احتجاج کیا اور اپنے کارکنوں کا لہو مسلسل گرمائے رکھا۔اس اثناء میں سیاست کے پلوں کے اوپر اور نیچے سے بظاہر طوفانی ریلے گزرتے رہے، بڑی پارٹیوں کے قائدین ”اندر“ اور” باہر “آتے جاتے رہے۔ اور چھوٹی پارٹیوں کے قائدین ہر ہفتے عشرے مولانا کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے اندازوں کا تبادلہ کرتے رہے۔ بالآخر ستمبر 2020ء میں اسلام آباد میں ہونے والی ایک آل پارٹیز کانفرنس نے "پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ” کو جنم دیا۔سیانے چونکہ” اندر باہر“ تھے لہٰذا ”نیانوں“ کی قیادت مولانا کو مل گئی۔
مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد مولانا فضل الرحمن نے اپنی سیاست کا آغاز جس تحریکی اور احتجاجی ماحول میں کیا تھا، 2020ء میں ان کو دست یاب سیاسی پود اور ذرائع ابلاغ کے اکثر بزرجمہر تو اس سے ناواقف تھے ہی، قوم بھی اس کو بھلا بیٹھی ۔ کہاں نواب زادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، میر غوث بخش بزنجو، علامہ احسان الٰہی ظہیر، ملک محمد قاسم، رسول بخش پلیجو، غلام مصطفی جتوئی، ایئرمارشل اصغرخان، پروفیسر عبدالغفوراحمد، فتح یاب علی خان اور بے نظیر بھٹو جیسی سیاسی شخصیات اور کہاں …… خیر چھوڑیے وقت وقت کی بات ہے۔ بہرحال گزشتہ ڈھائی برس میں حکومت کو تو چھوڑیے اپوزیشن نے بھی سیاسی اخلاقیات، فراست اور روایات کا پاس نہیں کیا۔ پاکستان میں سیاست کو گندگی اور سیاست داں کو گالی بنانے والوں نے الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تمام حدیں عبور کرلیں۔ ان حالات میں مولانا کو اس اتحاد کو قائم رکھنے کے لیے کئی کڑوے گھونٹ پیناپڑے۔
ناقدین کے مطابق پی ڈی ایم نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بتائے گئے اہداف میں سے کوئی ایک بھی حاصل نہیں کیا۔استعفوں، لانگ مارچ اور عدم اعتماد سے چلتے چلتے بات ضمنی انتخابات میں حصہ لینے اور اب سینیٹ الیکشن کی تیاریاں تیز کرکے حکومتی ہتھکنڈے ناکام بنانے پر آپہنچی۔
جہاں تک سینیٹ انتخابات کا تعلق ہے تو الیکشن کمیشن کے شیڈول کے مطابق 3 مارچ کو یعنی آج منتخب ہونے والے 48 ارکان کی مدت 6 برس ہوگی۔ ان نشستوں کے لیے 170 امیدوار میدان میں آچکے ہیں۔ پنجاب میں 11 نشستوں کے لیے 29، سندھ میں 11 نشستوں کے لیے 39، کے پی کے میں 12 نشستوں کے لیے 51، بلوچستان میں 12 نشستوں کے لیے 41اور اسلام آباد میں 2 نشستوں کے لیے 10 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف اور اس کے اتحادیوں میں ٹکٹوں کے معاملے پر کافی تنازعات نے جنم لیا۔ تحریکِ انصاف کو جہاں اپنے کارکنوں کو مطمئن کرنا تھا، وہاں سندھ میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور بلوچستان میں ”باپ“ کو بھی راضی رکھنا تھا۔ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں جو ہوگا سو ہوگا، اصل سیاسی معرکہ مگر اسلام آباد سے سینیٹ کی جنرل سیٹ پر ہونے والے انتخاب کو قرار دیا جارہا ہے۔ اس نشست کیلئے حکومت نے مشیرِ خزانہ حفیظ شیخ کو میدان میں اتارا ہے جبکہ پی ڈی ایم کی طرف سے سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی متفقہ امیدوار اس شان سے موجود ہیں کہ دو سابق وزرائے اعظم شاہد خاقان عباسی اور راجا پرویزاشرف بھی ان کی تایید وتجویز کنندہ ٹھہرے ہیں۔
بہت سے سیاسی پنڈت گیلانی صاحب کے میدان میں اترنے پر دور کی کوڑیاں لا تے رہے ہیں، کوئی ان کے تعلقات کے بارے بتاتا رہا ہے تو کوئی ان کی رشتہ داریوں کی تفصیلات بیان کرتا رہا ہے۔ کسی نے ان کی ”سب“ سے بنا کر رکھنے کی خصوصیت نمایاں کی ہے تو کوئی یاد کرا رہا ہے کہ گیلانی صاحب کو بطور وزیراعظم پوری قومی اسمبلی نے اعتماد کا ووٹ دیا تھا اور کوئی ان کی جوڑتوڑ کی صلاحیت کا ڈنکا بجا تا رہا ہے۔ غرض حفیظ شیخ کے مقابلے میں انہیں ایک زبردست حریف قرار دیا جارہا ہے۔
صورت یہ بنتی ہے کہ اگر گیلانی صاحب حفیظ شیخ صاحب کو ہرانے میں کامیاب ہوجائیں تو یہ ایک طرح وزیراعظم پر عدم اعتماد ہوگا۔ اس لیے کہ وہ قومی اسمبلی جہاں عمران خان اور ان کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل ہے، وہاں سے ان کا امیدوار، جسے سینیٹر منتخب ہوکر وزیر خزانہ بننا ہے، ہار جائے۔ اب یہ 1985ء تو ہے نہیں کہ غیرجماعتی قومی اسمبلی میں جرنیلی امیدوار خواجہ صفدر کے مقابلے میں آزاد پارلیمانی گروپ کے فخرامام جیت جائیں۔
آج تک تو اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم سینیٹ کے الیکشن میں مصروف رہی ہے اور 3 مارچ کے یعنی آج کے بعد کیا ہوگا انور چراغ کا کہنا ہے کہ 4 مارچ ہوگا۔ وہ تو خیر ہوگا ہی، لیکن اگلے چھ سال تک منتخب ہونے والے 48 ارکان، ایوان بالا میں پہلے سے موجود اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کا انتخاب کریں گے۔ تب چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے لیے پی ڈی ایم کا امید وار کون ہوگا، اس کے لیے بھی شاید زرداری صاحب اور میاں صاحب کاکسی نہ کسی پر” اتفاق“ کرا لیا جائے اور یوں پی ڈی ایم ایک بار پھرمتفقہ امیدوار لے آئے گی، لیکن وہ اپوزیشن جو 64 ارکان کی موجودی میں اپنی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہ کروا سکی، وہ اپنا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کیسے بنا پائے گی؟ البتہ یہ ضرور ہوگا کہ ”ناجائز اور جعلی اسمبلیوں“ کے ذریعے منتخب ہونے والے ارکان کی بدولت حکومت کو قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا میں بھی اکثریت حاصل ہوجائے گی۔اور 1973ء کے آئین کے تناظر میں ووٹ کو عزت دینے کے لیے کی جانے والی جدوجہد یوں جاری رہے گی کہ زرداری نواز اتفاق کی بدولت پی ڈی ایم شاید ان ہاوٴس تبدیلی کی طرف نکل کھڑی ہو۔