سپریم کورٹ کا آئین کے تحت خفیہ رائے دہی کا فیصلہ آتے ہی اسلام آباد میں ہلچل مچ گئی ہے۔ جو بے مول تھے وہ ان مول اور جو بے وقعت تھے وہ گراں قدر ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں میں ’پاوری‘ ہو رہی ہے اور وہ آنے والے دنوں کے خوش کُن خیال سے نہال دکھائی دے رہے ہیں۔
موسم بدل رہا ہے اور محکمۂ موسمیات بھی۔ لانگ مارچ کا موسم بھی قریب ہے اور اس موسم کے تقاضے الگ۔ محکمے نے بھانپ لیا ہوگا کہ اس سے زیادہ دریاؤں کے سامنے بند باندھنے کی کوشش کی تو سیلاب کو روکا نہ جا سکے گا۔ بہتری اسی میں ہے کہ حالات اور وقت کی نزاکت کو سمجھا جائے۔ حکومت کی کشتی بیچ منجدھار میں ہے، کشتی پار لگ گئی تو لگ گئی۔۔۔ نہیں تو ادارے کا اس سے زیادہ، کوئی تعلق نہیں۔
سینیٹ انتخابات سے قبل حکومت کی اوپن بیلٹ کی انتخابی چال پر سپریم کورٹ کی آئین کے مطابق رائے اور دوسری جانب الیکشن کمیشن کے دلیرانہ فیصلوں سے مُراد لی جا رہی ہے کہ اپوزیشن کی اعتدال پسند اسٹیبلشمنٹ کی مراد بر آئی ہے۔۔۔
یعنی فی الحال ہر طرف سے صدا ہے کہ اب کی بار ادارہ لا تعلق ہے۔ یہ خبر البتہ حکومتی حلقوں میں اضطراب پیدا کر چکی ہے کہ یہ آنا فانا ہواؤں کا رُخ کیوں بدل رہا ہے۔ آصف زرداری پھر بھاری پڑنے لگے ہیں اور نواز شریف بھی کافی حد تک مطمئن دکھائی دے رہے ہیں۔
جوڑ توڑ اس وقت اپنے عروج پر ہے، رابطے آخری مراحل میں اور وعدے یقین دہانیوں میں بدل رہے ہیں۔ سینٹ کی ایک نشست تمام انتخابات پر بھاری ہو چکی ہے۔ پی ڈی ایم جماعتیں اپنے امیدوار کے انتخاب پر فخر و تحسین، داد و تعریف کے ڈونگرے برسا رہی ہیں اور کیوں نہ ہوں گیلانی صاحب اس انتخاب کا مرکز بن چکے ہیں۔ سابق سیاست دان ہوں یا خاندانی اثر و رسوخ، ذاتی مراسم ہوں یا آپسی وضع داری۔۔۔ گیلانی صاحب ہر امتحان پر پورا اترتے ہیں۔ سو اپنی سی کوشش اور کاوش جاری ہے کہ کہیں کسی وقت تیر نشانے پر لگے۔
خفیہ ووٹ میں گیلانی صاحب پُراُمید ہیں کہ فتح اُن کا مقدر بنے گی اور یہی اسٹیبلشمنٹ کے بظاہر نیوٹرل رہنے کا ٹیسٹ بھی ہو گا۔ پی ڈی ایم اس صورت حال پر ہر گھڑی کڑی نظر رکھے ہوئے ہے۔ ایک طرف نامعلوم اور معلوم کالوں پر نظر تو دوسری جانب اپنے گھر میں شامل افراد پر۔
عجیب بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک یا تو عدالت کے فیصلے کی منتظر تھی یا وہ خود بھی حکومت اور اپوزیشن کے اندر کی توڑ پھوڑ کا اندازہ لگانا چاہتی ہے۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے مطابق ن لیگ کے دو اراکین اسمبلی کو بیلٹ خالی رکھنے کا پیغام ملا ہے اور تصدیق کی صورت وہ پیغامات میڈیا کے سامنے رکھے جائیں گے۔
خفیہ ووٹ کی صورت اپوزیشن پُراُمید ہے کہ بیس سے پچیس افراد پی ڈی ایم کے امیدوار کو ووٹ دے سکتے ہیں جن میں سے چھ یا سات نادرن پنجاب سے ہیں اور محض وعدے پر راضی ہیں۔ اپوزیشن اراکین اس بارے میں یقین دہانی دینے سے قاصر ہیں کیونکہ اُن کے ہاں مشکل وقت میں ثابت قدم رہنے والے ساتھیوں کو مایوس کرنا بھی درست نہیں۔
اب اگر شہباز شریف جیل سے باہر آگئے تو وہ مفاہمت کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے اندر صورت حال مخدوش ہے تاہم اپوزیشن اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی ہل جُل نہ ہونے کے باعث ایک متاثر کُن جوش اور جذبے سے انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہے۔
دوسری جانب مریم نواز کے باہر جانے کی خبروں میں شدت آ رہی ہے۔ شہباز شریف باہر نہیں بھی آتے تو اب اُن کے لیے حمزہ کے ذریعے پارٹی چلانا آسان ہو گا جبکہ مریم نواز کو ایک بڑے چیلنج کا سامنا ضرور ہو سکتا ہے۔
شہباز اگر باہر آجاتے ہیں تو ممکن ہے کہ مریم کو باہر بھیج دیا جائے تاہم شہباز کی سیاست کا تعین ہوا کا رخ تبدیل کر سکتا ہے۔
سینیٹ انتخابات کے بعد اور لانگ مارچ سے پہلے کچھ اور تبدیلیاں بھی رونما ہو سکتی ہیں۔
وہ تبدیلیاں کچھ اور ’اعتدال پسندی‘’ کا تقاضا کر سکتی ہیں، پارلیمنٹ کو تھوڑی سی اور ’آزادی‘’، ان ہاؤس تبدیلی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے جس کے لیے ن لیگ تیار نہیں۔
ماضی کے کچھ واقعات کی طرح امکان ہے کہ آصف زرداری قلیل المدتی سیٹ اپ کے لیے اپوزیشن کو تیار کر لیں اور شفاف انتخابات کی راہ ہموار ہو جائے۔ بہر حال اس ساری صورتحال میں ادارے کا آزاد اور معتدل رہنا ضروری ہو گا۔