ہر سال کی طرح اس بار بھی عورت مارچ میں اٹھائے گئے پلے کارڈز میں اکثر بے ہودہ نعرے بازی تھی؛ سوقیانہ جملے، منٹو کی بھونڈی نقل اور بد تہذیبی و بدذوقی کی عکاسی۔ اس لیے میں نے قصداً ان سے صرفِ نظر کیا۔ تاہم ایک پلے کارڈ جو بہت زیادہ لوگوں نے شیئر کیا ہے، انتہائی تکلیف دہ تھا۔ اس پلے کارڈ میں، کنایتاً ہی سہی، ایسی بات کی گئی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے شایانِ شان نہیں ہے۔
مجھے اب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ پلے کارڈ واقعی عورت مارچ میں کہیں سامنے آیا ہے، یا جیسے بعض اوقات پہلے بھی ہوا ہے، کسی نے کسی کو فریم کرنے کےلیے اس طرح کی بات اس کی طرف منسوب کردی ہے؟ اس لیے سب سے پہلے اس بات کی تحقیق لازمی ہے کہ واقعی ایسا پلے کارڈ اس مارچ میں تھا۔ جب یہ متعین ہوجائے تو اس کے بعد اس مخصوص شخص (مرد یا عورت) پر مجموعۂ تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 295-سی کے تحت توہینِ رسالت کا مقدمہ درج کرنا چاہیے۔ اگر اس مخصوص شخص کا تعین نہ ہو، تو پھر یہی مقدمہ اس مارچ کے ارگنائزرز کے خلاف درج ہونا چاہیے۔ اور اگر اس پلے کارڈ کی اس مارچ کی طرف نسبت جھوٹی ہے، تو پھر یہی ایف آئی آر ان تمام لوگوں کے خلاف درج ہونی چاہیے جنھوں نے یہ بے ہودہ بات بغیر تحقیق کیے آگے پھیلائی۔
کئی لوگوں نے عذرخواہی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بے ہودہ بات رسول اللہ ﷺ کی طرف نہیں بلکہ کسی اور کی طرف منسوب ہے، یا محض ایک فرضی بات ہے۔ یہ عذر لولا بھی ہے اور لنگڑا بھی۔ اس بے ہودہ جملے کے الفاظ اپنے مفہوم میں واضح ہیں اور اگر یہ کنایہ ہے تو کنایہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ کس کی طرف ہے۔ ہاں، اگر یہ پلے کارڈ بنانے والے/والی کا موقف یہ ہے کہ اس کا اشارہ رسول اللہ ﷺ کی طرف نہیں ہے، تو اسے اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھ کر کہنا چاہیے کہ اس کی مراد کیا تھی اور یہ کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتا/سکتی۔ اس صورت میں، کم از کم فقہ حنفی کی رو سے، اس کےلیے معافی کی گنجائش پیدا ہوجاتی ہے۔
تاہم دفعہ 295-سی کے الفاظ میں ایسی کسی تخفیف یا معافی کی گنجائش نہیں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے اس دفعہ کے الفاظ: Whoever by words, either spoken or written, or by visible representation, or by any imputation, innuendo, or insinuation, directly or indirectly, defiles the sacred name of the Holy Prophet Muhammad (peace be upon him) shall be punished with death, or imprisonment for life, and shall also be liable to fine.
(جو کوئی بھی الفاظ کے ذریعے، خواہ تحریری صورت میں ہوں یا بولے جانے کی صورت میں، یا دکھائی دینے والی بصری علامت کے ذریعے، یا کسی بھی تعریض، کنایہ یااشارےکے ذریعے، براہ راست یا بالواسطہ، حضرت محمد ﷺ کے مقدس نام کی توہین کرے، تو اسےموت یا عمر قید کی سزا دی جائے گی اور اس پر جرمانہ بھی عائد کیا جائے گا۔)
پس اس قانون کی رو سے چاہے توہین کنایے کی صورت میں ہو، اور خواہ وہ بالواسطہ ہو، جرم ہے اور اس پر اس قانون میں مذکور سزاؤں کا اطلاق ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ اس قانون کے متن میں عدالت کو اختیار دیا گیا ہے کہ سزاے موت یا عمر قید میں کوئی ایک سزا چنے (اور جرمانہ تو بہرصورت عائد ہوگا) لیکن وفاقی شرعی عدالت نے 1991ء میں اسماعیل قریشی کیس میں قرار دیا ہے کہ اس متن میں "یاعمر قید” کے الفاظ قرآن و سنت سے منافی ہیں اور حکومت کو 30 اپریل 1991ء تک کا وقت دیا تھا کہ وہ متن سے یہ الفاظ حذف کرلے، بصورتِ دیگر یہ الفاظ غیر مؤثر ہوجائیں گے۔ حکومت نے آج تک، یعنی تقریباً 30 سال بعد بھی، یہ الفاظ حذف نہیں کیے لیکن قانوناً یہ الفاظ غیر مؤثر ہیں۔ چنانچہ اس جرم پر دو ہی سزائیں ہیں: سزاے موت اور جرمانے کی سزا ، اور ان دونوں سزاؤں میں کسی ایک کے چننے کا اختیار عدالت کے پاس نہیں ہے بلکہ اسے دونوں سزائیں دینی ہوں گی، اگر جرم ثابت ہوجائے۔
بعض دوستوں کی جانب سے اس طرح کی بات سامنے آئی ہے کہ یہ نعرے عورت مارچ والوں کی جانب سے نہیں ہیں، بلکہ کسی نے پاکستانی عوام کو مشتعل کرکے توڑ پھوڑ پر ابھارنے، اور نتیجتاً ایف اے ٹی ایف کے سامنے پاکستان کی پوزیشن خراب کرنے، کےلیے یہ نعرے پھیلائے ہیں، اور وڈیو کلپ پر وائس اوور کیا ہے۔
اس دعوے کو جوں کا توں سچا مان کر اگلی بات پیشِ خدمت ہے کہ ایسی صورت میں بھی توہین تو ہوئی ہے، عورت مارچ والوں کی جانب سے نہیں، کسی اور کی جانب سے سہی۔ تو پھر اس بات کو یہیں چھوڑ دینا مناسب نہیں ہے، بلکہ اگلے دو سوالات پر غور کی ضرورت ہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ایسی صورت میں ضروری نہیں کہ عورت مارچ والے کھل کر ان نعروں، اور توہین آمیز جملوں، سے اپنی علیحدگی اور براءت کا اعلان کریں؟ دوسرا سوال پہلے سوال سے زیادہ اہم ہے۔ توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب پاکستان میں جرم ہے اور سنگین جرم ہے۔ کوئی اس قانون کو غلط سمجھتا ہو، تب بھی اسے یہ تو ماننا پڑے گا کہ اس وقت برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ یہ قانون موجود ہے اور اس کی رو سے یہ معاملہ سنگین جرم کا ہے۔ تو اس سنگین جرم کی روک تھام، اصل مجرموں تک رسائی، انھیں عدالت میں پیش کرکے ان کا جرم ثابت کرنا اور عدالت سے انھیں قرار واقعی سزا دلوانے کی کوشش کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومت کیوں ستّو پی کر سوئی ہوئی ہے؟ پیمرا کا رخ کس طرف ہے؟ پی ٹی اے نے اپنی ذمہ داری کیوں اب تک پوری نہیں کی؟ ایف آئی اے کیا کررہی ہے؟ اور قانون کی حکمرانی کی بات کرنے والوں کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے؟ادھورا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ برا ہوتا ہے۔
میں اپنے تمام وکیل دوستوں اور شاگردوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے پر فوری کارروائی کرکے قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں تاکہ کسی کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کےلیے موقع نہ ملے۔