حال ہی میں اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ میں پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے گھر کو درست کرنے کی جو بات کہی ہے، اس پر قومی ہی نہیں عالمی سطح پر بھی توجہ دی گئی ہے اور اس پر بڑے پیمانے پر تبادلہ خیال جاری ہے۔
چند برس قبل پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے اس وقت کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں کچھ ایسے ہی موضوعات پر کچھ سفارشات مرتب کی تھیں۔
ان تجاویز اور فوج کے سربراہ کے بیان میں مماثلت کے بارے میں سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے بی بی سی کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’اصل مشکل یہی ہے کہ جب اس طرح کی کوئی بات حکومت یا نواز شریف کہہ دے تو ڈان لیکس بن جاتی ہیں، انھیں غدار قرار دیا جاتا ہے یا ہمارے جیسے لوگ کہہ دیں تو کہا جاتا ہے کہ یہ سویلین لوگ ہیں، یہ ایسی نازک باتیں کہاں سمجھتے ہیں۔‘
ایک اور سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ انھیں خوشی ہے کہ قومی سلامتی اور استحکام کے ضمن میں جس راستے کی نشاندہی کی گئی تھی، ڈھائی برس کے بعد وہ فلسفہ ان کی سمجھ میں آ گیا ہے۔
’اب وہ اس راستے پر آئے ہیں تو ہم انھیں مشورہ دیں گے کہ پاکستان کے قومی مقاصد کے حصول کی کنجی قومی ترقی کے راز میں پوشیدہ ہے۔ لہٰذا ہمیں اپنی ترقی پر پوری توجہ مرکوز کر دینی چاہیے۔‘
’اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ قومی خارجہ پالیسی پاکستان کے مفادات کے تابع ہو اور اسے دنیا کے مفادات سے کسی طرح بھی وابستہ نہ کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک جامع اور باریک بینی کے ساتھ تیار کی گئی حکمت عملی اور خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے۔‘
مولانا فضل الرحمٰن نے ایک اور سوال پر کہا کہ موجودہ حالات میں کشمیر اور دوطرفہ مسائل کے حل کے سلسلے میں مذاکرات کی کلید انڈیا نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہے اور جب وہ حالات کو اپنے مقاصد کے اعتبار سے موزوں پائے گا، مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرے گا جس میں پاکستان کے لیے نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
’ایسی صورتحال سے نمٹنے کا راستہ بھرپور قومی اتفاق رائے، اقتصادی طور پر مضبوط پاکستان اور ایک مضبوط حکومت ہی کر سکتی ہے۔ پاکستان پر آئی ایم ایف، ایف ٹی اے ایف اور انسانی حقوق کمیشن وغیرہ کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نمٹنے کا راستہ بھی یہیں سے نکلتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ آرمی چیف کی طرف سے ’ہاؤس کو ان آرڈر‘ لانے کی بات سامنے آنے پر ہم سمجھتے ہیں کہ اب وہ ہمارے نظریات کے قریب آ چکے ہیں۔
’لیکن ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ایسے بڑے اہداف نظریاتی اور سیاسی طور پر ایک مضبوط حکومت کے ذریعے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں، موجودہ کمزور غیر نظریاتی حکومت میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ ایسا بڑا کام کر سکے۔‘
سنہ 2018 میں کشمیر کمیٹی کی جانب سے پیش کی گئیں سفارشات کیا تھیں؟
واقعہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی نے آج سے ڈھائی برس قبل یعنی سنہ 2018 میں حکومت پاکستان کو کچھ سفارشات پیش کی تھیں، جن کا بنیادی نکتہ عین ان ہی الفاظ میں تھا کہ ہمیں اپنے گھر کو درست کرنا ہے، اسی صورت میں دنیا میں ہماری بات سنی جا سکے گی اور ہم کشمیر سمیت اپنے بنیادی مسائل پر کوئی مؤثر کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔
کشمیر کمیٹی کی اس رپورٹ میں حکومت پاکستان کو کئی اہم تجاویز پیش کی گئی تھیں جن کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ موجودہ حالات میں پاک چین اقتصادی راہداری عالمی سیاست میں غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکی ہے اور عالمی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے تعلق سے ان دنوں جو پالیسیاں اختیار کی جارہی ہیں، وہ اقتصادی راہداری ہی کے گرد گھومتی ہیں۔
کمیٹی نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ ’ان دنوں‘ انڈیا نے کشمیر کے ضمن میں جو طرز عمل اختیار کر رکھا ہے اور مذاکرات کی بار بار پیشکش کے باوجود کشیدگی میں اضافہ کرتا جا رہا ہے یا ایف اے ٹی ایف کے ذریعے پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
کمیٹی کے مطابق دیگر عوامل کے علاوہ ان کی ایک اہم وجہ اقتصادی راہداری ہے جس کے بارے میں طاقت کے بعض عالمی مراکز کا انداز فکر پاکستان سے مخلتف ہے، اس پس منظر میں ضروری ہے کہ پاکستان اپنے داخلی حالات ک فوری طور پر درست کرے کیونکہ مکمل قومی اتفاق رائے کے ذریعے ہی پاکستان بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اعتماد کے ساتھ اپنا مؤقف پیش کر کے اپنے قومی مقاصد کے حصول کی طرف قدم بڑھا سکتا ہے۔
پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا امریکا، انڈیا اور اسرائیل پر مشتمل ایک سہ ملکی اتحاد کچھ اس قسم کا ماحول پیدا کر رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کے نکتہ نظر سے کچھ ایسے نان ایشوز اہمیت اختیار کر جاتے ہیں جن میں الجھ کر پاکستان اپنے بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز نہیں رکھ پاتا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان ایسے مسائل میں الجھ جاتا ہے جن کی وجہ سے عالمی سطح پر پاکستان کے لیے سیاسی ہی نہیں اقتصادی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اور ان مسائل پر سے نمٹنے کے لیے داخلی سطح پر زیادہ بڑے، غیر معمولی اور حساس پلیٹ فارم کی ضرورت ہے۔
اس پس منظر میں کمیٹی نے تجویز پیش کی کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ کشمیر کمیٹی کو ہمیشہ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کا درجہ دیا جائے اور اسے کسی ایک ایوان کی کمیٹی نہ بنایا جائے۔
دوسری تجویز یہ پیش کی گئی کہ قومی سلامتی کمیٹی اور پارلیمانی کشمیر کمیٹی کو ایک سطح پر جا کر یکجا کر دیا جائے تاکہ قومی سلامتی، کشمیر اور قومی سلامتی کی طرح ہی اہم اقتصادی معاملات پر ایک بڑا پلیٹ فارم غور فکر کر کے پالیسی کی تشکیل میں معاونت کر سکے۔
کمیٹی کی ان تجاویز کے پس پشت یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ حکومت، پارلیمنٹ میں نمائندہ سیاسی قوتیں اور عسکری قیادت جب ایک پلیٹ فارم کو یکجا ہو کر فیصلے کریں گی تو اس کے نتیجے میں زیادہ بڑے پیمانے پر قومی اتفاق رائے بھی وجود میں آئے گا اور بیرون ملک بھی پاکستان کا مؤقف زیادہ توانائی کے ساتھ پہنچ سکے گا۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے یہ سفارشات اپنے ایک خط میں اس وقت کی حکومت کو پہنچا دیں تھیں لیکن وہ حکومت اس وقت غیر معمولی سیاسی بحرانوں میں گھری ہوئی تھی جس کی وجہ سے یہ اہم معاملہ قومی ایجنڈے پر نہ آسکا۔
پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی یہ سفارشات اس وقت پارلیمان کی لائبریری میں موجود ہیں۔