سندھ ہائی کورٹ نے فارماسوٹیکل کمپنی AGP Limited کی درخواست پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے درآمد شدہ کرونا ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت کے تعین کا فارمولا طے کرنے کے نوٹفیکیشن کو معطل کر دیا ہے۔ اس نوٹفیکیشن کے تحت پرائیویٹ سیکٹر کی طرف سے جو ویکسین ملک میں درآمد کی جا رہی ہے اس کی قیمت کے تعین کے لئے ڈرگز ایکٹ کے تحت اختیار کو بروئے کار لایا گیا تھا۔ اس نوٹفیکیشن کے تحت مندرجہ ذیل فارمولا طے کیا گیا تھا:
Formula for imported vaccine in finished form
Trade Price= landed cost and mark up@40%
Formula for imported vaccine in bulk form and local repack:
Trade Price= landed cost, packaging cost and mark up@40%
اس نوٹفیکیشن کے تحت AGP Limited کی درآمد شدہ ویکسین کی قیمت کا ابھی حتمی طور پر تعین ہونا تھا کہ یہ کمپنی سندھ ہائی کورٹ میں بھاری بھرکم کارپوریٹ وکلاء کے ساتھ پہنچ گئی اور نوٹفیکیشن کو معطل کروا دیا۔ اس نوٹفیکیشن پر عمل کو معطل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ نجی سیکٹر کی طرف سے درآمد شدہ کرونا ویکسین کو یہ کمپنی – اور مستقبل میں دیگر کمپنیاں بھی – اپنی من مانی قیمت پر فراہم کریں گی۔ حکومت پاکستان اس وقت چین سے ملنے والی ویکسین کو محدود پیمانے پر مفت میں مہیا کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ حکومت کی طرف سے ویکسین کی فراہمی طبی ترجیحات کی بنیاد پر بتدریج ہی فراہم کی جا سکے گی۔ پاکستان کی آبادی اور طبی شعبہ میں حکومتی خدمات کی فراہمی کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کرونا ویکسین کے لیے بھی عوام کی اکثریت کا اپنی جیبوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ نجی شعبہ آنے والے دنوں میں چینی’ روسی اور دیگر ممالک میں بنائی گئی ویکسین کو بڑے پیمانے پر درآمد کر کے قیمتا عوام کو فراہم کرنا شروع کرے گا۔ اس صورتحال میں ویکسین کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے۔ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے پرائسنگ فارمولا جاری کیا جانا ایک درست قدم تھا جسے AGP Limited نے معطل کروا دیا ہے۔
اس سارے عمل کے پیچھے اس وقت کئی طرح کی کہانیاں گردش کر رہی ہیں کہ کن طاقتور لوگوں کی کوشش ہے کہ نجی سیکٹر کو قیمت ریگولیٹ کئے بغیر یا پھر بھاری شرح منافع پر ویکسین درآمد کرنے کی اجازت ملنی چاہیئے۔ اخباری خبروں کے مطابق اس فارمولا کے تحت ڈریپ AGP Limited کی درآمد شدہ ویکسین کی قیمت لگ بھگ ساڑھے آٹھ ہزار روہے برائے دو خوراک مقرر کرنے جا رہی تھی۔ کمپنی کی طرف سے تیرہ ہزار روپے سے زائد قیمت طلب کی جا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑا فرق ہے جس سے کروڑوں روپے ادھر سے ادھر ہونے ہیں۔ یوں یہ ایک بڑے اسکینڈل کی بازگشت ہے جس پر حکومت کو بروقت توجہ دے کر عوامی مفاد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔ آج ہی کی خبر ہے کہ توانائی کے شعبے میں وزیراعظم کے مشیر ندیم بابر کو مستعفی ہونے کا کہا گیا ہے۔ صحت عامہ اور کرونا ویکسین کا مسئلہ اس وقت بہت زیادہ حساس ہے۔ AGP Limited نے غالبا یہ دھمکی بھی دی یے کہ اگر اس کو من چاہی قیمت نہ دی گئی تو وہ امپورٹ کی گئی شپمنٹ کو کسی دوسرے ملک کی طرف بھجوا دیں گے۔ اگر یہ بات درست ہے تو AGP Limited کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیئے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے عوام کی اکثریت کرونا ویکسین کی فراہمی کی منتظر ہے اور حکومت نے ایک معقول پرائسنگ فارمولے کا اعلان کر دیا ہے تو یہ بلیک میلنگ شرمناک ہے۔