کرونا وائرس کی ویکسین کی دستیابی اور کم قیمت پر فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے حکومتوں کو بہت سے اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اکتوبر 2020 میں انڈیا اور جنوبی افریقہ نے ایک تجویز عالمی ادارہ تجارت (WTO) میں پیش کی کہ کرونا کے علاج سے متعلقہ ادویات’ ویکسین اور دیگر ٹولز کو وقتی طور پر انٹیلیکچول پراپرٹی رائیٹس کے اطلاق سے مستثنٰی قرار دیا جائے۔
اس تجویز کی حمایت پاکستان سمیت سو کے قریب ممالک کر رہے ہیں۔ اس تجویز کا مقصد یہ ہے کہ اگر کرونا کے علاج کے نئے دریافت شدہ ٹولز انٹیلیکچول پراپرٹی کے قوانین کے زمرے میں آئیں گے تو تمام تر نئی ٹیکنالوجی پر کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو جائے گی۔ اس اجارہ داری کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ترقی پذیر ممالک میں ان ٹولز کی مقامی پیداوار کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں گی۔نتیجہ یہ نکلے گا کہ ویکسین اور دیگر ٹولز یا تو غریب ممالک کے لئے دستیاب ہی نہیں ہوں گے اور اگر دستیابی کسی طرح ممکن بھی ہوئی تو زائد قیمتوں کی وجہ سے ان ممالک کے غریب مریضوں کی قوت خرید سے باہر ہوں گی۔
پاکستان میں روسی ساختہ ویکسین کی درآمد کے ساتھ ہی ویکسین کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے تنازعے نے سر اٹھا لیا ہے اور یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں پہنچ چکا ہے۔عالمی تجارتی تنظیم میں پیش کی گئی تجویز بہت ہمہ گیر اور معقول تھی مگر حسب معمول ملٹی نیشنل فارماسوٹیکل انڈسٹری کے زیر اثر امریکہ’ یورپ’ آسٹریلیا’ سنگاپور وغیرہ کی حکومتوں نے اس تجویز کی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔
زیر نظر ویڈیو میں معروف سکالر ڈاکٹر عزیز الرحمن نے اس تکنیکی مسئلے کو آسان فہم انداز میں بیان کر کے کچھ عملی اقدامات کی طرف نشاندہی کرنے کی کوشش کی ہے۔