ہ بہار بھی ایک ان دیکھے ہرجائی کی نذر۔۔۔ پھولوں کے موسم میں کانٹے اور خوشبوؤں کے موسم میں ناگوار دوائیوں کے بدمزہ ذائقے۔۔۔ سب سے بڑھ کر اپنے پیاروں کی تکلیف خدا کسی کو نہ دکھائے۔
کورونا آ گیا مگر اب دنیا اسے ویکسین لگا کر رخصت کر رہی ہے۔ آئندہ چند ماہ میں تقریباً پوری پہلی دنیا (فرسٹ ورلڈ) اور دوسری دنیا جبکہ کسی حد تک آدھی تیسری دنیا (تھرڈ ورلڈ کنٹریز) اپنی عوام کو کورونا سے پاک کر دے گی مگر ہم۔۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں۔۔ ہمیں یہ سوچنا ہو گا۔
بقول شاعر
ہمیں یہ سوچنا ہو گا کہ زندگی اپنی
فضائے دہر میں کیوں موت سے بھی سستی ہے
یہ دوسرے سال کی دوسری بہار ہے جو مسلسل خزاں کی خبر لائی ہے۔ گئے برس کے مارچ میں شروع ہونے والی وبا ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں، اسلام آباد اور پنجاب میں کیا اعداد و شمار ہیں اُس سے قطع نظر اسلام آباد کا کوئی گھر خالی نہیں جہاں کووڈ کے مریض ناں ہوں۔ یہ آفت ہے، آزمائش یا نااہلیت بہرحال صورتحال بہتر ہونے کے آثار کم ہیں۔
ویکسین کیوں وقت پر آرڈر نہ ہوئی، قیمتوں میں اضافہ کیوں طے نہ پایا، کتنے فنڈز ویکسین کے لیے مقرر کیے گئے، کہاں کہاں سے مفت کی ویکسین کا انتظار کیا گیا اور پھر کس طرح پرائیویٹ کمپنیوں کے مافیاز کے ہاتھوں بے بس ہوئے۔۔۔ کاش کہ اس پر میرے عوام کے دکھ درد میں مبتلا اپوزیشن الگ سلگ ہی سہی مگر اپنی گزارشات حکومت کے سامنے تو رکھتی۔
کاش مجھ سمیت ہمارا میڈیا روز مرہ کے سیاسی مگر غیر سیاسی مسائل سے نکل کر کورونا کی تیسری لہر اور ویکسین کی عدم دستیابی کو انتہائی ’سیاسی مسئلہ‘ بنا کر ترجیحات میں شامل کرتا۔ کاش ٹیلی وژن چینلز بے انتہا اشتہاروں کے درمیان کہیں کہیں پبلک سروس پیغامات کو بھی پہلی لہر کی طرح جگہ دیتے۔
کاش اخبارات کورونا کی اموات پر دو کالمی خبریں ہی چھاپ دیتے اور کاش ہم صحافی کورونا کو پی ڈی ایم کے ٹوٹنے، جہانگیر ترین کی پیشیوں، مریم نواز کی سرگرمیوں، بلاول کے شوکاز پھاڑنے کے چٹکلوں سے آگے بڑھ کر کچھ عوام کے ہسپتالوں میں بڑھتی تعداد اور ویکسین پر مستحق اشرافیہ کی بلاشرکت غیرے استحقاق کو چیلنج کر سکتے۔
حالت یہ ہے حکومت ویکسین منگوانے کے شش و پنج سے نکل نہیں پا رہی۔ ادویات کا مافیا دن رات دوائیوں کی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر رہا ہے، ویکسین اجازت ملنے اور نہ ملنے کے درمیان بھی ملکی اشرافیہ تک پہنچ رہی ہے لیکن عوام یا تو ویکسین کو ترس گئی یا پھر اتنی متنفر کہ ویکسین لگوانے سے بھاگ رہی ہے۔
22 کروڑ عوام میں سے اب تک ساٹھ سال سے اوپر صرف تیرہ لاکھ افراد ہی ویکیسن سے مستفید ہوئے ہیں، یہ تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔
حالت یہ ہے کہ کورونا کا ٹیسٹ ایک سال پہلے جس قیمت پر نجی لیبارٹریز میں شروع ہوا آج بھی اسی جگہ پر ہے جبکہ ہمسایہ ملک انڈیا میں یہ ٹیسٹ اب پانچ سو انڈین روپے میں ہو رہا ہے۔ ہسپتالوں میں کورونا وارڈ بن گئے ہیں مگر کورونا مریضوں کی انتہائی نگہداشت کا کوئی بہتر انتظام موجود نہیں ہے۔ زندگی بچانے والی ادویات اول تو دستیاب نہیں اور اگر ہیں تو سونے کے مول۔
کاش ہماری حکومت پہلی لہر کی طرح ہنگامی اقدامات ہی کر لیتی، کاش این سی او سی سمارٹ نہ سہی کوئی ہنڈسم سا لاک ڈاؤن کر دیتی، کاش فنڈز نہ سہی ویکسین کے نام پر مفت کی ہی سہی مگر وقت پر ویکسین کی عرضیاں ہی ڈال دیتی، کاش سپریم کورٹ کوئی ازخود نوٹس لے کر ڈریپ اور حکومت کو آمنے سامنے بٹھا دیتی اور کاش کمپنیاں اور حکومت نیب کے خوف سے آزاد ہو کر عوام کے لیے دلیرانہ بروقت فیصلے ہی کر لیتیں تو آج حالات یہاں تک نہ پہنچتے کہ کورونا کی شرح 12 فی صد کے قریب اور صحت کی سہولتیں ناکافی ہو رہی ہیں۔
این سی او سی سے گزارش ہے کہ کوئی لاک ڈاؤن اب بھی ہو جائے، میڈیا سے گزارش ہے کہ ڈاکٹروں اور طبی عملے کو بُلیٹنز اور اخباروں میں جگہ مل جائے، اپوزیشن سے استدعا ہے کہ چند دنوں کے لیے صرف صحت کو سیاسی مسئلہ بنا لیں اور عوام سے درخواست ہے کہ رمضان کی تراویح اب گھر پر اور عید کی شاپنگ بڑی عید تک موقوف کر دیں۔
منبروں پر بیٹھے علما سے دست بستہ گزارش کہ خدارا بھلے زکوۃ اور صدقات حاصل کریں لیکن عوام کو کورونا کے حقائق دے روشناس کریں ورنہ ایسا نقصان ہو جائے گا کہ کبھی بھر نہیں پائیں گے۔
بہت سے اپنے پیارے کھو چکے، بہت سے ہسپتالوں میں اخراجات سے پریشان اپنوں کے مرنے کی نہیں تو جینے کی دعا بھی نہیں کر پا رہے، خدارا اس لہر کو سب سنجیدگی سے لیں۔۔۔ خدارا کچھ کریں۔۔ اپنے لیے۔۔۔ قوم کے لیے۔