9 اپریل 2021ء کواسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے کیے گئے خطاب کا تحریری متن
اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی دعوت پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب نے مذکورہ بالا موضوع پر تقریر کی۔ تقریر میں پہلے پاکستانی دستور کی اسلامیت کے متعلق قائدِ اعظم کی 26 فروری 1948ء کی ایک گفتگو کا حصہ بیان کیا، اس کے بعد اولین دستوری دستاویز، قراردادِ مقاصد، کا خلاصہ ذکر کیا اور دکھایا کہ بانیانِ پاکستان کے نزدیک پاکستان کے دستور کا اسلامی ہونا ضروری تھا اور اس دستور کے بنیادی خدوخال ان کے نزدیک کیا تھے؟ اس تصور کے مطابق پاکستان کے دستوری نظام کا غیر اسلامی ہونا بھی ممکن نہیں ہے اور آمریت کےلیے بھی یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے بعد انھوں نے دستور کی چند اساسی دفعات پر روشنی ڈالی اور پھر بنیادی حقوق کے باب (دفعات 8 تا 28) میں ایک ایک دفعہ پر گفتگو کرکے اس پر قرآن مجید کی آیات، رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور سیرت کے واقعات و خلفاے راشدین کے نظائر سے استدلال کیا۔ تقریر کا متن یہاں شیئر کیا جارہا ہے۔ ان کے استدلال سے اتفاق یا اختلاف سے قطعِ نظر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیسے وہ دستور کی تعبیر و تشریح میں اسلامی احکام سے مدد لینے کو ضروری سمجھتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد کے خصوصی شکریہ کے ساتھ اس تقریر کا اردو متن پیش کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
ہمارے آئین کی بنیاد اس اعتراف اور تصدیق پر رکھی گئی ہے کہ پوری کائنات پر اقتدار اعلی اللہ تعالیٰ کا ہے اور اختیارات کا استعمال ایک مقدس امانت ہے؛ اور ریاستی طاقت اور اختیار کا استعمال عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے کیا جائے گا۔ آئین کا دیباچہ مزید یہ کہتا ہے کہ ریاستِ پاکستان میں جمہوریت، آزادی، مساوات، رواداری، برداشت اور سماجی انصاف کا اطلاق اسلامی اصولوں کے مطابق ہوگا۔ اسی طرح اس میں کہا گیا ہے کہ اقلیتوں کو اپنے مذاہب کی پیروی کرنے، ان پر عمل کرنے اور اپنی ثقافتوں کی ترویج کےلیے مناسب مواقع دیے جائیں گے۔
آئین 280 دفعات پر مشتمل ہے مگر ان میں تقریباً دو درجن دفعات ایسی ہیں جو عوام کے حقوق کے تحفظ کے متعلق ہیں اور ان پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ آئین کی دفعہ 3 استحصال کی تمام صورتوں کے خاتمے کو یقینی بناتی ہے۔ یہ دفعہ قرآن شریف کی سورۃ البقرۃ (2)، آیت 279 کے عین مطابق ہے جس میں فرمایا گیا ہے:
تم ظلم/استحصال نہ کرو اور تم پر ظلم/استحصال نہ کیا جائے۔
دفعہ 4 یہ یقینی بناتی ہے کہ سب کے ساتھ قانون کے مطابق یکساں سلوک ہو، اور بالخصوص زندگی، آزادی، جسم، ساکھ اور جائیداد کے خلاف کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا جس کی اجازت قانون نے نہ دی ہو۔ یہ دفعہ بھی اسلام سے بالکل مطابقت رکھتی ہے۔ ایک بہت مشہور حدیث ہے:
مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
اس دفعہ میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ وہ کام جس کی کوئی قانونی ممانعت نہ ہو، اسے ہر شخص کرسکتا ہے اور کسی کو ایسے کام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جس کا مطالبہ قانون نے اس سے نہ کیا ہو۔ یہی اصول سورۃ مریم (19) ، آیت 64 کے آخری ٹکڑے میں موجود ہے:
اور تمھارا رب بھولنے والا نہیں ہے۔
سورۃ الاعراف (7)، آیت 32 سے بھی یہ اصول معلوم ہوتا ہے:
کہہ دو کہ کس نے حرام کردیا اللہ کی اس زینت کوجو اس نے اپنے بندوں کےلیے پیدا کی ، اور پاک رزق کو؟
رسول اللہ ﷺ کی زندگی سے بھی یہ اصول اخذ ہوتا ہے ۔ آپ نے غزوۂ بدر ، جو 17 رمضان 2 ہجری ( 13 مارچ 624ء) کو ہوئی تھی، کے بعد قیدیوں کو اختیار دیا کہ وہ چاہیں تو دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا کر آزادی حاصل کرسکتے ہیں۔[1] یہ کام جبراً بھی لیا جاسکتا تھا لیکن آپ نے ان سے ایک طرح کا سمجھوتا کیا۔
لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے بارے میں اگلی اہم دفعہ 9 ہےجو کہتی ہے کہ قانون کی اجازت کے بغیر کسی کو زندگی اور آزادی سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہ دفعہ سورۃ المآئدۃ (5)، آیت 32 کے عین مطابق ہے:
جس نے کسی انسان کو قتل کیا، سواے اس کہ جان کے بدلے میں یا زمین میں فساد کی وجہ سے ہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا، اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔
اور جہاں تک آزادی کی بات ہےتو اس کی عکاسی سورۃ البقرۃ (2)، آیت 256 میں نظر آتی ہے:
دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم دفعہ 10 کی طرف آتے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ کسی کو وجہ بتائے بغیر گرفتار نہیں کیا جائے گااور تحویل میں بھی نہیں لیا جائے گا اور جب ایسا کیا جائے گا تو اسے 24 گھنٹوں کے اندر حاکمِ فوجداری کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک بہت اہم دفعہ 10-الف کا اضافہ اٹھارویں آئینی ترمیم 2010ء کے ذریعے کیا گیا جو ہر شخص کو منصفانہ سماعت اور مناسب عمل کا حق دیتی ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ المائدۃ (5)، آیت 8 میں فرمایا گیا ہے:
اے ایمان والو!، کھڑے ہو اللہ کےلیے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ جانتا ہے جو تم کررہے ہو۔
دفعہ 11 جبری مشقت اور غلامی کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ جہاں تک غلامی کا تعلق ہے، قرآن شریف کے نزول کے وقت غلامی کا عام رواج تھا لیکن اسلام نے غلاموں کو آزاد کرنے کے لیے کئی مواقع دیے ، مختلف گناہوں کے کفارے کےلیے غلام کو آزاد کرانے کا حکم دیا اور ثواب کمانے کےلیے بھی غلام آزاد کرنے کی ہدایت دی ۔ اس لیے غلامی جلد ہی ختم ہوگئی۔ قرآن شریف نے آزاد انسان کو غلام بنانے کی اجازت نہیں دی۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تین لوگوں کا ذکر کیا جن کے خلاف آپ خود قیامت کے دن استغاثہ کریں گے۔ ان میں ایک وہ ہے جس نے آزاد انسان کو غلام بنا کر بیچا ۔
اسی طرح اسلام میں جبری مشقت کی کوئی اجازت نہیں ہے اور، جیسا کہ پہلے کہا گیا، کہ جنگی قیدیوں سے بھی جبری مشقت نہیں لی گئی۔ مزدوروں کے حقوق کے تحفظ پر اسلام نے خصوصی زور دیا ۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ مزدور کی اجرت اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔
دفعہ 12 ایسے فعل پر سزا کے خلاف تحفظ دیتی ہے جو اس وقت جرم نہیں تھا جب اس کا ارتکاب کیا گیامگر بعد میں اسے جرم قرار دیا گیا۔ کئی آیات اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اصول اسلام کا بھی ہے۔ مثلاً سورۃ بنی اسرائیل (17)، آیت 15 میں فرمایا گیا:
اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک ہم رسول نہ بھیجیں۔
آئین کی اس دفعہ سے ایک بہت اہم استثنا سنگین غداری کے جرم کا ہے ۔ چنانچہ یہ دفعہ 23 مارچ 1956ء سے نافذ ہونے والے کسی آئین کی منسوخی یا معطل کرنے کو قانون کے ذریعے جرم قرار دینے سے نہیں روکتی۔
دفعہ 13 کسی ایک جرم پر ایک سے زائد دفعہ سزا دینے کے خلاف تحفظ دیتی ہے اوریہ بھی قرار دیتی ہے کہ کسی ملزم کو اپنے خلاف گواہی دینے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کا نظام بھی ایسا ہی ہے کہ اگر کسی شخص کو کسی جرم کی سزا اس دنیا میں ملے تو پھر اسے آخرت کی سزا نہیں دی جائے گی، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ دنیا میں کسی کو سزا دی جائے تو یہ اس کےلیے آخرت کی سزا سے کفارہ بن جاتی ہے۔ کسی جرم کا اقرار کرنا کسی شخص کا رضاکارانہ عمل ہے اور اس پر اسے آخرت کی سزا سے نجات مل سکتی ہے لیکن اسے اقرار پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔
دفعہ 14 انسان کی عظمت اور گھر کی رازداری کو تحفظ دیتی ہے۔ یہ دفعہ بھی قرآن کے عین مطابق ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ التین (95) ، آیت 4 انسان کو أَحۡسَنِ تَقۡوِيمٖکا خطاب دیتی ہے اور سورۃ بنی اسرائیل (17)، آیت 70 وَلَقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِيٓ ءَادَمَ کا اعلان کرتی ہے۔ اسی طرح گھر کی رازادری کے متعلق کئی آیات اور احادیث ہیں، جیسا کہ سورۃ الحجرات (49)، آیت 12 میں فرمایا گیا: وَ لَا تَجَسَّسُواْ (اور مت کرو جاسوسی )۔ اسی طرح حدیث ہے:
بدگمانی سے بچو کیونکہ بدگمانی جھوٹی بات ہے۔ اور عیب مت تلاش کرو، اور جاسوسی مت کرو، اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش مت کرو، اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، اور ایک دوسرے کے ساتھ بغض نہ رکھو، اور ایک دوسرے سے منہ مت موڑو، اور اے اللہ کے بندو، سب آپس میں بھائی بن جاؤ۔
دفعہ 15 نقل وحرکت اور پاکستان میں کہیں بھی رہنے کی آزادی کا حق دیتی ہے۔ قرآن شریف کی کئی آیات ، جیسے سورۃ آل عمران (3) کی آیت 137، سورۃ النحل (16)، آیت 36، سورۃ النمل(27)، آیت 69 میں حکم دیا گیا ہے:
تو زمین میں چلو پھرو۔
اسی طرح دفعہ 16 قانون کی حدود کے اندر اجتماع کی آزادی کا حق دیتی ہے، جبکہ دفعہ 17 انجمن سازی اور سیاسی پارٹی بنانے کا حق دیتی ہے، مگر ساتھ ہی ایک اہم بات دفعہ 17 کی شق 3 میں سیاسی پارٹیوں کے متعلق یہ کہی گئی ہے کہ وہ قانون کے مطابق اپنے ذرائع آمدن ظاہرکریں گی۔ اسلام نے بھی مسلمانوں کو اجتماعیت کا درس دیا ہے۔ سورۃ الشوری(42) کی آیت 38 میں فرمایا گیا ہے:
اور ان کے کام ایک دوسرے کے ساتھ مشورے سے ہوتے ہیں۔
مسلمانوں کے گروہوں، جیسے انصار اورمہاجرین،کو رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف تسلیم کیا بلکہ ان کے ایک دوسرے پر حقوق بھی مقرر فرمائے۔ اسی طرح قانونی ذمہ داریوں کی پابندی کا اسلام نے حکم دیا ۔ قرآن شریف کی سورۃ المائدۃ (5)،آیت 1 میں آیا ہے:
اے ایمان والو! اپنے معاہدات کی پابندی کرو۔
مالیاتی امور میں شفافیت، بالخصوص سرکاری عہدیداروں کےلیے، اسلام کا بنیادی ستون ہے۔ خود رسول اللہ ﷺ سے طائف کے محاصرے کے موقع پر ، جو 8ھ ( 630ء) میں ہوا تھا، غنیمت کے متعلق سوال کیا گیا اور آپ نے اس کا برا منانے کے بجاے اس کی وضاحت دینی ضروری سمجھی۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ان کو خطبے کے دوران میں ٹوک دیا گیا اور انھوں نے واضح کیا کہ اضافی چادر ان کو ان کے بیٹے نے دی تھی۔ رسول اور خلیفۂ وقت سے ایک عام شخص نے معلومات کا مطالبہ کیا تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ تسلیم کیا گیا کہ اس کا حق ہے کہ اسے یہ معلومات مہیا کی جائیں۔ یوں ان واقعات سے دفعہ 19-الف میں مذکور معلومات کے حق کے بارے میں بھی اسلام کا تصور واضح ہوجاتا ہے۔
دفعہ 18، تجارت، کاروبار اور پیشہ اختیار کرنے کا حق دیتی ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ النسآء (4) کی آیت 29 میں فرمایا گیا:
مگر یہ کہ تجارت ہو آپس کی رضامندی سے۔
رسول اللہ ﷺ نے شادی کی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ، جو ایک کاروباری خاتون تھیں ، اور آپ نے ان کےلیے تجارتی سفر بھی کیے۔ مدینہ کے انصار زراعت پیشہ تھے، جبکہ مکہ سے آنے والے مہاجرین عام طور پر تجارت کرتے تھے۔ کئی صحابہ مختلف پیشوں اور فنون کے ساتھ وابستہ تھے اور کسی بھی پیشے کو حقیر نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس کئی صدیوں بعد بھی یورپ میں سرجری کو حقیر سمجھا جاتا تھا اور اس وجہ سے کئی قسائی سرجن بن گئے تھے۔
دفعہ 19 اظہارِ راے کی آزادی کا حق دیتی ہے۔ اسلام کا مسلمانوں سے مطالبہ ہے کہ وہ ہمیشہ حق بات کہیں۔ سورۃالاحزاب (33) کی آیت 70 میں فرمایا گیا:
اور کہو سیدھی بات
سورۃ المآئدۃ(5)، آیت 8 میں فرمایا گیا:
اے ایمان والو!، کھڑے ہو اللہ کےلیے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے
مشہور واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ وہ چوری کرتا ہے، شراب پیتا ہے ، جوا کھیلتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے اور وہ آپ کی خاطر ان میں کسی ایک کام کوچھوڑنا چاہتا ہے، تو آپ نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ اس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا تو باقی برائیاں بھی خود بخود چھوٹ گئیں۔[4]
اسی طرح قرآن شریف کی کئی آیات ،جیسے سورۃ النسآء (4)، آیت 114، سورۃ الانبیآء (21)،آیت 3، سورۃ الزخرف ( 43)، آیت 80 اور سورۃ المجادلۃ ( 58)، آیات 7 تا 10 میں معلومات چھپانے پر، بالخصوص جن سے عوامی مفاد وابستہ ہو اور جن کا جاننا عوام کا حق ہو، سخت ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے اور کہیں تو اسے شیطانی عمل بھی قرار دیا گیا ہے ۔
دفعہ 23 جائیداد خریدنے اور بیچنے کا حق دیتی ہے۔ مال اور جائیداد کی ملکیت کے حق کے بارے میں قرآن شریف میں بہت سی آیات ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اپنے مال کو استعمال کرنے، اس سے فائدہ اٹھانے، اسے صدقہ کرنے، ہبہ کرنے، بیچنے، اس کے بارے میں وصیت کرنے اور اس طرح کے دیگر تمام مالکانہ حقوق حاصل ہیں اور اسی طرح اس کی موت کے بعد مال پر ورثا کی ملکیت کے بارے میں بھی آیات میں تفصیل دی گئی ہے۔
دفعہ 24 یہ تحفظ فراہم کرتی ہے کہ کسی کو اس کی مرضی کے بغیر اس کے مال سے زبردستی محروم نہیں کیا جائے گا اور اگر کہیں عوامی مفاد کی خاطر ایسا کرنا ضروری ہوجائے تو یہ عمل قانون کی حدود کے اندر رہ کر کیا جائے گا اور اسے اس کے مال کا پورا معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ مشہور واقعہ ہے کہ مسجد نبوی کی تعمیر کےلیے زمین کی ضرورت پڑی تو دو یتیم بھائیوں، سہل اور سہیل، کے ولی کے ساتھ بات کی گئی اور ان کو زمین کا معاوضہ ادا کیا گیا حالانکہ وہ زمین معاوضے کے بغیر دینا چاہتے تھے۔ [5]
سارے شہری برابری کے مستحق ہیں اور کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، جیسا کہ دفعہ 25 پابند کرتی ہے۔ آخری تین دفعات (26، 27 اور 28) امتیازی سلوک کے مختلف پہلوؤں کی ممانعت کرتی ہیں اور ان کے خلاف تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ یہ دفعہ بھی اسلام کے عین مطابق ہے۔ قرآن شریف کی سورۃ الحجرات (49)، آیت 13 میں فرمایا گیا ہے:
اے لوگو! یقیناً ہم نے تمھیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یقیناً تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ عزت والا وہ جو تم میں اللہ کا زیادہ فرمانبردار اور پرہیزگار ہو۔ یقیناً اللہ سب کچھ جانتا ہے اور اسے ہر چیز کی خبر ہے۔
کئی دیگر آیات سے اس بات کے دیگر پہلوؤں پر بھی روشنی پڑتی ہے، جیسے سورۃ الانعام (6)، آیت 164 میں فرمایا گیا:
اور کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
معاشرے کے کمزور طبقات اور افراد کے تحفظ کےلیے کیے جانے والے اقدامات کو امتیازی سلوک نہیں کہا جاسکتا اور یہ بھی اسلامی احکام کے عین مطابق ہے کہ بچوں اور کمزور لوگوں پر ذمہ داریوں کا بوجھ کم کیا جائے۔ اس وجہ سے جہاد فی سبیل اللہ کے حکم سے بھی عورتوں اور ضعیف اور بیمار لوگوں کو مستثنی کیا گیا، نماز اور روزے کے احکام میں مریضوں اور مسافروں کےلیے تخفیف کی گئی اور حج کا فریضہ بھی صرف ان لوگوں پر عائد کیا گیا جو حج کےلیے جانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
ایک بہت اہم شق جو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئی، دفعہ 25 –الف ہے جو ریاست پر ذمہ داری عائد کرتی ہے کہ پانچ سال سے سولہ سال تک کی عمر کے بچوں اور بچیوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر انسانیت کےلیے جو پہلا حکم نازل کیا ، وہ حکم تھا ، ٱقۡرَأ: پڑھو (فعل امر) ۔ اسی سورۃ العلق (96) کی چوتھی آیت میں قلم کاذکر ہے: ٱلَّذِي عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ (وہ جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی)؛ اور پانچویں آیت میں تعلیم کا ذکر ہے: عَلَّمَ ٱلۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ يَعۡلَمۡ (انسان کو اس کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا)۔ یوں جو پہلی وحی ہے وہ پڑھنے، لکھنے اور پڑھانے پر مشتمل ہے ۔
رسول اللہ ﷺ نے بھی تعلیم کی اہمیت پر بہت زور دیا اور، جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا، جنگی قیدیوں کو بھی کہا کہ ہر قیدی رہائی حاصل کرنے کےلیے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے ۔
دفعات 20، 21 اور 22 کسی مذہب کے ماننے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیتی ہیں اور اپنے مذہب کےعلاوہ کسی اور مذہب کےلیے محصول ادا کرنے یا زبردستی اس کی تعلیم دینے کے خلاف تحفظ کرتی ہیں۔ یہ دفعات بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں۔ سورۃ البقرۃ (2)، آیت 256 میں فرمایا گیا:
دین میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔
اسی طرح سورۃ یونس (10)، آیت 99 میں فرمایا گیا:
اور اگر تمھارا رب چاہتا تو زمین کے سارے لوگ مل کر ایمان لے آتے۔ تو کیا تم لوگوں کو مجبور کروگے کہ وہ ایمان لے آئیں؟
سورۃ الحج (22)، آیت 40 میں تو جہاد کا مقصد ہی یہ بیان کیا گیا ہے کہ مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کیا جائے:
اور اگر اللہ بعض لوگوں کے ذریعے بعض دوسرے لوگوں کو دفع نہ کرتا تو خانقاہیں، گرجا، مَعبَد اور مسجدیں، جن میں اللہ کے نام کا کثرت سے ذکر کیا جاتا ہے، ڈھا دی جاتیں ۔
اس ساری تفصیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق اسلام کے عین مطابق ہیں اور آئین کی ان دفعات اور اسلامی احکام میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جب لوگوں کو یہ حقوق میسر ہوں تو ان کا عملی نفاذ یقینی بنانے کی ذمہ داری بالخصوص عدالت عالیہ اور عدالت عظمی کے ججز پر عائد ہوتی ہے جنھوں نے اس بات کی بھی قسم کھائی ہے کہ وہ بلا تفریق و امتیاز اور کسی خوف یا لالچ کے بغیر ہر شخص کو انصاف مہیا کریں گے جس میں ذکر کیے گئے بنیادی حقوق بھی شامل ہیں ۔ یہ بات بھی قرآن شریف کے عین مطابق ہے۔
سورۃ المآئدۃ (5)، آیت 8 میں فرمایا گیا ہے:
اے ایمان والو!، کھڑے ہو اللہ کےلیے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس پر مجبور نہ کردے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو کہ یہ تقوی سے قریب تر ہے۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقیناً اللہ جانتا ہے جو تم کررہے ہو۔
اسی سورۃ کی آیت 42 میں حکم دیا گیا ہے:
تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔
سورۃ النسآء (4)، آیت 135 میں فرمایا گیا:
اوراگر تم بات کو بگاڑو یا انصاف کرنے سے منہ موڑو، تو یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے۔