سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ‘العربیہ’ کے ذریعے نشر ہونے والے ٹیلی ویژن انٹرویو میں کہا ہے کہ ان کا ملک ایران کو پڑوسی ملک کی حیثیت سے دیکھتا ہے جو اس بات کا اشارہ ہے کہ ریاض تہران کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ تہران کا منفی طرز عمل ہے۔ ایران اپنے متنازع جوہری پروگرام اور ملک سے باہر ایرانی ملیشیائوں کی مدد تہران کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ ہے۔
سعودی ولی عہد کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ایران اور سعودی عرب کے بعض سینئر عہدیداران کے مابین عراق میں "خفیہ بات چیت” کی خبریں سامنے آرہی ہیں
ایران اور سعودی عرب خطے میں ایک دوسرے کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوششیں کرتے آئے ہیں تاہم دونوں ممالک کے مابین زیادہ کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا جب سنہ 2016 میں ممتاز شیعہ عالم دین شیخ النمر کی پھانسی کے بعد ایرانی مظاہرین کے ایک گروپ نے تہران میں سعودی سفارت خانے کی عمارت پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کر دیا۔
دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کیا اور پھر سفارتی تعلقات منقطع کر دیے۔ تاہم ایران کے حوالے سے سعودی عرب ولی عہد کا لہجہ پہلی مرتبہ نرم ہوا ہے۔
سعودی عرب کے قومی چینل پر صحافی عبد اللہ المودائفر کو دے گئے تقریباً 90 منٹ کے انٹرویو میں ولی عہد نے سعودی عرب کے امریکہ، یمن اور ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بات چیت کی۔
ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے شہزادہ سلمان سے پوچھا گیا کہ کیا دونوں ممالک تصفیہ طلب معاملات پر کسی فیصلے پر پہنچنے کی کوئی کوشش کر رہے ہیں؟
ولی عہد کا کہنا تھا ’ہم نہیں چاہتے کہ ایران کی صورتحال مزید خراب ہو۔ اس کے برعکس، ہم چاہتے ہیں کہ ایران ترقی کرے اور خطے اور دنیا کو خوشحالی کی طرف لے جائے۔‘
تہران کے جوہری، میزائل پروگرام اور خطے میں مختلف پراکسیوں کی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ ’ہمارا مسئلہ ایران کا منفی رویہ ہے۔‘
ولی عہد کا کہنا تھا کہ ریاض علاقائی اور عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر تہران کے ’منفی رویے‘ کا حل تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں امید ہے کہ ہم ان مسائل کا حل نکال لیں گے اور ایران کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات استوار کریں گے جس سے تمام فریقین کو فائدہ ہو گا۔‘
اس سے قبل دیے گئے انٹرویوز میں جب بھی ایران کی بات آئی، محمد بن سلمان کا لہجہ بہت سخت رہا اور وہ تہران پر خطے میں عدم تحفظ بڑھانے کا الزام عائد کرتے آئے ہیں۔ تاہم حالیہ انٹرویو ان کے لہجے میں تبدیلی کا غماز ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے مقامی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ سعودی اور ایرانی عہدیداروں نے کشیدگی کو کم کرنے کے لیے رواں ماہ عراق میں براہ راست بات چیت کی ہے۔
عراق کے ایک سرکاری عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ان مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔
یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ دونوں حریف ممالک کے درمیان یہ مذاکرات عراقی وزیر اعظم مصطفی الکاظمیٰ کی مدد سے بغداد میں منعقد ہوئے ہیں۔
دوسری جانب ریاض نے ان مذاکرات کی تردید کی ہے جبکہ تہران کی جانب سے مکمل خاموشی ہے اور صرف اتنا کہا گیا ہے کہ ایران نے ہمیشہ سے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کا خیرمقدم کیا ہے۔
’اندرونی معاملات میں کسی دباؤ یا مداخلت کو قبول نہیں کریں گے‘
امریکہ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے ولی عہد کا کہنا تھا کہ امریکہ سعودی عرب کا ایک سٹریٹیجک پارٹنر ہے اور بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ریاض کو کچھ معاملات پر تھوڑا سا اختلافات ہے جنھیں حل کرنے کے لیے وہ کام کر رہے ہیں۔
تاہم ولی عہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب اپنے اندرونی معاملات میں کسی دباؤ یا مداخلت کو قبول نہیں کرے گا۔
یاد رہے صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ وہ صرف اپنے سعودی ہم منصب شاہ سلمان سے بات چیت کریں گے۔
اپنے پیشرو ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور یمن کی جنگ کے حوالے سے سعودی عرب کے خلاف سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
سعودی ولی عہد کا کہنا تھا کہ سعودی اور امریکی مفادات کی بات کی جائے تو بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ ہم 90 فیصد معاملات پر متفق ہیں ان مفادات کو مستحکم بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔
’جن 10 فیصد معاملات پر ہمارا اتفاق نہیں ہے، اُن کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ امریکہ ہمارا سٹریٹجک پارٹنر ہے۔‘
سنہ 2017 میں ولی عہد کا منصب سنبھالنے والے شہزادہ محمد بن سلمان، عملی طور پر سعودی عرب کے حکمران ہیں اور روس، انڈیا اور چین کے ساتھ بھی بہترین شراکت داری کے خواہاں ہیں۔
یاد رہے اس سال کے آغاز میں بائیڈن انتظامیہ نے ایک انٹیلیجنس رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ سنہ 2018 میں شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کو زندہ یا مردہ پکڑنے کے منصوبے کی منظوری دی تھی۔
سعودی ولی عہد اس منصوبے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے آئے ہیں اور انھوں نے امریکی انٹیلیجنس رپورٹ کو واضح طور پر مسترد کرتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔
بائیڈن انتظامیہ نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں سے لڑنے والے فوجی اتحاد، جس کی قیادت سعودی عرب کرتا ہے، کی جارحانہ کارروائیوں کی حمایت سے بھی دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔
یمن کے تنازع کو سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک ’پراکسی وار‘ کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی جنگ ہے۔
یمن کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ’کوئی ریاست اپنی سرحدوں پر مسلح ملیشیا کا وجود برداشت نہیں کر سکتی۔، اس کے ساتھ ہی انھوں نے حوثی باغیوں کو مذاکرات کی میز پر آنے پر زور دیا۔
یاد رہے ریاض نے گذشتہ ماہ جنگ بندی کی تجویز پیش کی تھی تاہم حوثیوں نے ابھی تک اسے قبول نہیں کیا۔
اس سوال کے جواب میں کہ کیا حوثی خود فیصلہ کر سکتے ہیں یا یہ فیصلہ تہران کرے گا؟ ولی عہد کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حوثیوں کے ایرانی حکومت کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں، لیکن حوثی یمنی اور عرب النسل ہیں اور ہمیں امید ہے کہ وہ اپنے اور وطن کے مفادات کو مقدم رکھیں گے۔