سنہ 2016ء کو ایران کے دارالحکومت تہران میں بلوائیوں نے سعودی عرب کے سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور سفارت خانے کی عمارت کو آگ لگا دی جس کے بعد سعودی عرب نے تہران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منطقع کردیے۔
یہ حملہ سیکڑوں ایرانی شدت پسندوں کی کارروائی تھی جس نے کئی سال سے دونوں ملکوںکےدرمیان جاری کشیدگی کو سفارتی تعلقات کے منقطع کرنے کے مقام تک پہنچا دیا۔ یہ سب کچھ اس وقت ہوا جب دونوں ملک بہت سے مسائل میں ایک دوسرے سے شدید اختلافات میں الجھے ہوئے تھے۔
عراق کا اختلاف
عراق کے صدر برھم صالح نے بیروت انسٹیٹیوٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی پر تبادلہ خیال کیا۔ اس حوالے سے عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الکاظمی کےمشیر ڈاکٹر حسین علاوی نے الحدث ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بغداد ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جاری مذاکرات کی میزبانی کررہا ہے، تاہم انہوں نے اس کی کوئی مزید تفصیل بیان نہیں کی۔
سنہ 2003ء میں امریکا کی قیادت میں عالمی فوج کی مداخلت کے بعد عراق کا سیاسی نظام تبدیل ہوگیا۔ عراق پر چڑھائی کے وقت عراقی اپوزیشن جماعتوں میں سے بیشتر اسلامی جمہوریہ ایران کی سرزمیںپر متحرک تھیں۔ عراق کا موجودہ سیاسی نظام سعودی عرب اور ایران کےدرمیان ‘ثالث’ کا کردار ادا کررہا ہے۔ خود عراق کے دونوں پڑوسی ملکوں سعودی عرب اور ایران کے ساتھ کئی امور پر اختلافات موجود ہیں اور بعض اوقات ان قریبی پڑوسیوں کے ساتھ معاملات کشیدگی کی سطح پر بھی پہنچ جاتے ہیں۔
احمدی نژاد کی پالیسی
القاعدہ تنظیم اور سعودی عرب میں نوجوانوں کی طرف سے اس انتہا پسند گروپ سے وابستگی کے بعد سعودی عرب نے اس گروپ کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا تو خطے مین سیکیورٹی اور سیاسی محاذوں پر بھی فضا غیر مستحکم ہوگئی۔ اس کے نتیجے میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشمکش مزید بڑھ گئی۔
سنہ 2005ء میں ایران میں محمود احمدی نژاد صدر بنے تو انہوں نے اپنے پیش رو محمد خاتمی کی پالیسی کو آگے بڑھانے اور علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کی سفارت کاری پر چلنے کے بجائے اپنی پالیسی اختیار کی۔ اس پالیسی نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا کردیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ احمدی نژاد کی پالیسیوں کے باوجود سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے کشیدگی کم کرنے کی پوری کوشش کی مگر احمدی نژاد نے رفسنجانی اور شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے درمیان طےپائے معاہدوں سے مکمل انحراف کرلیا۔ سابق ایرانی صدرہاشمی رفسنجانی کے مشیر غلام علی رجائی نے بھی اس کا برملا اعتراف کیا۔
احمدی نژاد نے ‘قوم پرستی’کی پالیسی اپنائی اور سابق صدور کی میراث کو آگے لے کرچلنے کےبجائے اس کے برعکس چل پڑے۔
اسداران انقلاب کی توسیع پسندی
پاسداران انقلاب فائونڈیشن جو ملک میں عسکری، اقتصادی، سیکیورٹی اور ثقافتی میدانوں میں گہرا اثرو نفوذ رکھتی ہے کو احمدی نژاد کے دور میں مزید طاقت مل گئی۔ انہوں نے دوسرے ملکوں بالخصوص عراق میں پاسداران انقلاب کی نئی ذمہ دارایاں سونپیں۔ القدس بریگیڈ اور اس کے سابق سربراہ مقتول قاسم سلیمانی کے ذریعے عراق اور دوسرے پڑوسی ملکوں میں اس کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا۔ امریکا نے جنوری 2020ء کو قاسم سلیمانی کو بغداد کے ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کرکے ہلاک کردیا تھا۔
پاسداران انقلاب نے عراق میں عسکری گروپ کے ذریعے متحرک ہوگیا۔ اس کے بعد اسے شام میں بھی ‘عرب بہار’ کے آغاز میں سنہ 2011ء میں اپنے پنجے گاڑھنے کا موقع ملا۔ پاسداران انقلاب نے شام اور عراق سے آگے بڑھ کر خلیجی ممالک میں بھی اپنے سیل قائم کئے۔ کویت، سعودی عرب اور بحرین میں ایرانی سیلز کی موجودگی تہران کی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور پڑوسی ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا کھلا ثبوت ہیں۔
امن کا راستہ
ایران اور سعودی عرب کے درمیان جاری محاذ آرائی کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ کیا سعودیہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان امن ناممکن ہے تو اس کا جواب ‘نفی’ میں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کو بہتر کرنے کا راستہ طویل اور دشوار ضرور ہے اور اس کے لیے ٹھوس اور تعمیری سوچ کے تحت تواتر کےساتھ بات چیت کی ضرورت ہے۔
سعودی عرب کی شمالی اور جنوبی سرحدوں کو ایرانی حمایت یافتہ مسلح ملیشیائوں کی طرف سے خطرات لاحق ہیں۔ سعودی عرب میں حساس تنصیبات، ہوائی اڈوں اور شہری تنصیبات پر ایرانی حمایت یافتہ گروپ حملے کرتے چلے آ رہے ہیں۔ سعودی عرب ان گروپوں کو مملکت کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ سعودی عرب نے ایرانی حمایت یافتہ عناصر کےحملوں پر نہ صرف اعتراض نہیں کیا بلکہ بار بار واضح کیا ہے کہ سعودی عرب اپنی قومی سلامتی اور تحفظ کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے۔
دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان طویل سرد جنگ میں ایک اچھی خبر اس وقت سامنے آئی جب سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اپنے ایک انٹرویو میں ایران کے ساتھ بات چیت کا عندیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ایران پڑوسی ملک ہے اور ہم اس کے ساتھ بہتر تعلقات کے خوہاں ہیں۔ سعودی ولی عہد کے بیان کے رد عمل میں ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ نے کہا کہ ان کا ملک پڑوسی ملکوب بالخصوص سعودی عرب کے ساتھ کسی بھی سطح پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کو باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں ملکوں کےدرمیان ٹھوس بات چیت جاری ہے۔ ایران اور سعودی عرب دونوں ہی تیزی کے ساتھ جامع انداز میں مذاکرات کررہے ہیں اور ان مذاکرات کی خطے کی مجموعی صورت حال پر اثرات مرتب ہوں گے۔
خلیج کے ایک سابق سفارت کار نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے ایران کے ساتھ بات چیت کا اشارہ دینے کے بعد اب گیند ایران کے کورٹ میں ہے۔ اب یہ ایران پرمنحصر ہے کہ وہ خطے میں استحکام میں معاونت کرتا ہے یا شمالی کوریا کی طرح مسترد شدہ ملک قرار پاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی شخص اس بات کو نہیں مانتا کہ ایران ہی صرف حق پر ہے۔ تمام ممالک ایران کی پالیسیوںکے ناقد ہیں۔ ایران کے مسائل خلیجی ممالک کے ساتھ نہیں بلکہ تمام عرب ممالک، ایشیائی ، افریقی اور یورپی ملکوں کے ساتھ بھی ایران کے اختلافات ہیں۔
مصنف: حسن مصطفیٰ، دوبئی، بشکریہ العربیہ اردو