کل سے یہ خبر شئیر کی جا رہی ہے کہ پاکستان نے مقامی طور پر کرونا ویکسین تیار کر لی ہے جو این آئی ایچ مہیا کرے گی۔ اس بارے میں وزیر اعظم کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے ایک ٹویٹ بھی کیا ہے کہ این آئی ایچ کی ٹیم نے کامیابی سے چینی ویکسین Cansino کو مقامی طور پر فل کرنے اور فنشڈ فارم میں ڈھالنے کا عمل مکمل کر لیا ہے۔
سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت پاکستان نے چینی ویکسین Cansino کے concentrate کو بلک یعنی بڑی مقدار میں درآمد کرنے کے بعد کر این آئی ایچ کو اجازت دی ہے کہ وہ اسے استعمال کے لئے تیار شدہ ویکسین کی شکل میں ڈھالنے کے باقی پراسس کو سرانجام دے سکتا ہے۔ درآمد کی اجازت بھی غالبا این آئی ایچ کو براہ راست نہیں دی گئی اور اس بارے میں اجازت نامہ ایک کمپنی اے جے مرزا کو جاری کیا گیا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ اے جے مرزا کی اس سارے پراسس میں کیا حیثیت ہے اور اس کمپنی کو کن بنیادوں پر اس مقصد کے لئے چنا گیا ہے؟
پاکستان میں بائیولوجیکل ڈرگز اور ویکسین بنانے کی استعداد بہت ہی محدود ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری ادارہ این آئی ایچ کی ٹیکنیکل کیپسٹی نجی شعبے سے بہت بہتر ہے مگر ظاہر ہے کہ این آئی ایچ بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ کر کے مارکیٹنگ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ یہ بنیادی طور پر ریسرچ کا ادارہ ہے۔ پاکستان میں نجی شعبے میں فارماسوٹیکل سیکٹر کی گروتھ پچھلے دس پندرہ سالوں میں حیرت انگیز رہی ہے۔ اس سیکٹر میں پرافٹ مارجن بھی بہت مناسب ہے اور یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک آدھ یونٹ رکھنے والے گروپس نے کئی یونٹس کھڑے کر لئے ہیں۔ فارماسوٹیکل سیکٹر کی یہ گروتھ جہاں ایک مثبت بات ہے وہاں اس شعبے کی ریسرچ اور بنیادی خام مال کی مینوفیکچرنگ کے بارے میں غفلت بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پڑوس کے ممالک انڈیا اور چین سے سستا خام مال خرید کر ملک میں موجود فارماسوٹیکل فیکٹریوں میں اسے گولی’ سیرپ یا ٹیکے کی شکل میں ڈھالنا کوئی بڑی سائنس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں فارماسوٹیکل کیمسٹری اور ادوایات کی تیاری سے متعلقہ اصل شعبہ جات کی کوئی خاص پذیرائی نہیں ہے۔ کمپنیوں کی اکثریت کا زور مارکیٹنگ پر ہے۔
ویکسین کی پاکستان میں تیاری بہت دور کی بات ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ اسٹیٹ آف دی آرٹ انجن کی مقامی سطح پر تیاری کی بات کر رہے ہیں۔ اس میں ابھی بہت سا وقت لگے گا۔ ہم بارہا یہ لکھ چکے ہیں کہ پاکستان کے سائنسی ریسرچ و تحقیق کے اداروں اور نجی شعبے کے کردار پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کی کارکردگی کسی طور پر متاثر کن نہیں ہے۔ صرف ڈاکٹر عطاء الرحمن کے کراچی میں قائم انسٹیٹیوٹ ایچ ای جے کی کارکردگی اور کمرشل اہمیت کے حامل پریکٹیکل آوٹ پٹ کے بارے آڈٹ کیا جائے تو عجیب قسم کی چیزیں سامنے آئیں گے۔ ایچ ای سی کے چئیرمین کو ہٹانے کے حالیہ تنازعہ کے دوران ڈاکٹر طارق بنوری نے کھل کر ایچ ای جے کو کئی سالوں سے دی جانے والی فیاضانہ فنڈنگ کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔ اسی طرح دیگر جامعات کو این آر پی یو وغیرہ کے نام پر ایچ ای سی نے کئی سالوں سے فنڈنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان سائنس فاؤنڈیشن’ پاکستان فارماسوٹیکل ریسرچ کونسل اور اس قبیل کے کئی اور ادارے بھی فنڈنگ کرتے ہیں۔ اس ساری فنڈنگ کے بعد قوم یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ امپیکٹ فیکٹر کے سینکڑوں پیپرز شائع کرنے کے علاوہ عملی طور پر پاکستان کے عوام کو اس سب سے کیا فائدہ پہنچا ہے؟
مجھے ذاتی طور پر یہ سوال پوچھتے ہوئے دس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے کہ پاکستان کی پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کے کیمسٹری’ فزکس’ بائیولوجیکل سائنسز وغیرہ کے شعبوں سے وابستہ درجنوں تحقیقی اداروں کے کتنے پیٹنٹس کمرشل پروڈکٹس میں ڈھل سکے ہیں؟ یاد رہے کہ یہاں کمرشل پروڈکٹ سے مراد یہ نہیں ہے عملی طور پر مارکیٹ میں کتنی پراڈکٹس آئی ہیں۔ اس میں انڈسٹری کے پراسسز میں استعمال میں آنے والی وہ ٹیکنالوجی بھی شامل ہے جو لائسنس کے ذریعے کسی انڈسٹری کو دے گئی ہے۔
ہنوز اس سوال کا جواب مطلوب ہے!