- تحریر: کیتھرن ایلیسن صحافی، نوئیبل میگزن سے
سنہ 1796 میں امریکی صدر جارج واشنگٹن نے سیاسی جماعتوں کو ‘مکار، حوصلہ مند، اور غیر اصولی لوگوں’ کو ‘عوام کی طاقت کو کمزور کرنے’ کی اجازت دینے پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔
آج ان کا یہ الزام سفاکانہ طور پر بروقت معلوم ہوتا ہے کیونکہ امریکی صدارتی انتخابات کے چند ماہ بعد 147 ریپبلکن امریکی کانگریس کے اراکین نے نتائج کو عوامی طور پر چیلنج کیا۔ لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ اس سے پہلے بھی بہت سے امریکی واشنگٹن کی تشویش کو دہراتے آئے ہیں۔
پارٹیوں کی مقبولیت تحت الثری میں پہنچ چکی ہے جبکہ امریکہ میں ڈیموکریٹک اور ریپبلکن دونوں جماعتوں کو نہ صرف عوام کی نمائندگی نہ کرنے والے کی حیثیت سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ اس کے اشرافیہ کے ذریعہ اغوا کیے جانے کی بھی وسیع پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔ در حقیقت امریکی ووٹرز کی مستقل بڑھتی ہوئی تعداد کسی بھی پارٹی سے غیر وابستگی کا اظہار کر رہی ہے۔ سنہ 2018 میں ایسے لوگوں کا فیصد 38 تھا۔ اب یہ تناسب ریپبلکن یا ڈیموکریٹس میں سے کسی کے بھی ووٹروں سے زیادہ ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی رجحان ہے۔ مثال کے طور پر یورپ میں روایتی طور پر طاقتور سمجھے جانے والے مرکزی اور بائیں بازو کی جماعتوں پر اپنے ووٹرز کو نظرانداز کرنے کے الزامات لگائے جارہے ہیں اور ممکنہ طور پر اسی کے رد عمل نے برطانیہ کو بریگزٹ میں دھکیلنے میں مدد فراہم کی ہے۔
پارٹیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی دشمنی نے علم سیاسیات کے سائنس دانوں میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ پارٹی کے روایتی نظام کی وکالت کرنے والوں کا دعوی ہے کہ جمہوریت کا انحصار مضبوط، منظم اور قابل اعتماد سیاسی دھڑوں پر ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کی ماہر نینسی روزن بلم کا کہنا ہے کہ ‘سیاست میں لوگ اکثر عوام تک جانے کے لیے پارٹیوں کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ کیونکہ پارٹیوں کے بغیر ہم افراتفری کا شکار ہو جائیں گے۔’ نینسی موجودہ دور میں سیاسی پارٹیوں کو درپیش مسائل پر تحقیق کر رہی ہیں۔
اس کے باوجود سکالرز کا ایک چھوٹا گروپ جن میں بہت سے نوجوان سکالرز شامل ہیں ان کا کہنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ جماعتوں اور پیشہ ور سیاستدانوں کی کم مداخلت کے ساتھ زیادہ کھلی اور براہ راست جمہوریت کے تصور پر غورو خوض کیا جائے۔ ییل یونیورسٹی میں علم سیاسیات کی ماہر ہیلنے لینڈیمور کا کہنا ہے کہ ایک دہائی قبل اس طرح کی تجاویز کی وکالت کرنے والے ‘مکمل طور پر حاشیے’ پر تھے۔ لیکن ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2008 کے معاشی بحران اور ڈونلڈ ٹرمپ کے سنہ 2016 میں صدر منتخب ہونے سمیت کئی دوسرے واقعات نے اس بحث کو وسیع کر دیا ہے۔
کئی رجحانات نے امریکہ میں پارٹیوں کی مقبولیت اور طاقت میں کمی کو بڑھاوا دیا ہے۔ پارٹی کے زیر انتظام سرپرستی کی اسکیمیں جو مخصوص پارٹی کے کارکنوں کو سرکاری ملازمتوں سے نوازتی تھیں انھوں نے طویل عرصے سے زیادہ تر صلاحیت پر مبنی نظام کی راہ ہموار کی ہے۔ آزاد سیاسی ایکشن کمیٹیوں کے عروج نے امیدواروں کو انتخابی فنڈنگ کا ایک منفرد ذریعہ فراہم کیا ہے۔ پچھلی دہائی میں تقریبا ساڑھے چار ارب ڈالر ان چینلز کو گئے جن پر بصورت ديگر پارٹیاں حاوی ہوتی تھیں۔ اس کی وجہ سے بہت سارے امیدوار زیادہ کاروباری ہوئے ہیں اور ان پر پارٹی بیوروکریسی کے کم اثرات نظر آتے ہیں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اب پارٹیاں امیدواروں کے اجلاسوں کے بجائے پرائمری انتخابات کے ذریعے اپنے امیدواروں کا تعین کرتی ہیں۔ خیال رہے کہ سنہ 1968 میں صرف 17 پرائمریز منعقد کی گئی تھیں جبکہ آج ہر ریاست میں ایک پرائمری یا کوکس (یعنی نمائندہ منتخب کرنے کے لیے اجلاس) منعقد ہوتا ہے۔ ییل یونیورسلی کے ایک ماہر سیاسیات ایان شاپیرو کا کہنا ہے کہ پرائمری کی طرف اس رجحان نے پارٹی کے پرانے رہنماؤں کے بجائے اہمیت کا پلڑا زیادہ سرگرم کارکنوں کی جانب جھکا دیا ہے جن کے عام طور پر عام ووٹرز سے زیادہ پرائمری میں ووٹ ڈالنے کے امکانات رہتے ہیں۔ سنہ 2018 میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹی (ڈی این سی) نے سپر ڈیلیگیٹس کے اثرات کو بھی کم کردیا۔ یہ اہم مندوبین سینکڑوں کی تعداد میں ہوتے ہیں اور پارٹی کے وی آئی پیز کہلاتے ہیں اور ان کے پاس امیدواروں کو منتخب کرنے کے لیے ووٹ دینے کے حق ہوتے ہیں۔ ڈی این سی کی وائس چیئرپرسن نے اس وقت کہا کہ یہ بات رائے دہندگان کی یقین دہانی کے لیے ہے کہ پارٹی کے عہدیدار ان کی باتیں سن رہے ہیں۔
امریکہ کے بہت سے حصوں میں متعصب اور انتخاب میں کامیابی کے لیے ناجائز حلقہ بندیوں نے دونوں پارٹیوں کے لیے ‘محفوظ نشستیں’ بنا کر امیدواروں کو اپنے انتخابی حلقوں کی نمائندگی کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فاتحین کا فیصلہ پرائمریوں میں ہی کر لیا جاتا ہے جس میں ڈیموکریٹس کا ڈیموکریٹس سے اور ریپبلکن کا ریپبلکن کے خلاف مقابلہ ہوتا ہے۔ شاپیرو کا کہنا ہے کہ اسی رجحان کے سبب الیگزینڈررا اوکاسیو کورٹیز سنہ 2018 کے انتخابات میں منتخب ہوئیں اور ان کے انتخاب سے اس بات وضاحت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ انتخاب کے وقت وہ محض 28 سالہ جمہوری سوشلسٹ تھیں جنھوں نے اس سے پہلے کبھی کسی منتخب عہدے پر خدمات انجام نہیں دیا تھا۔ اوکاسیو کورٹیز نے ایک پرائمری میں پرانے ڈیموکریٹ رہنما کو شکست دی جس میں 12 فیصد سے بھی کم ووٹرز ووٹ دینے نکلے تھے۔
ہر کوئی اس بات سے متفق نہیں ہے کہ آج سیاسی جماعتیں پہلے کی نسبت کمزور ہیں۔ روزن بلم کا کہنا ہے کہ آج کے انتہائی پولرائزیشن کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ تر عوام اپنی پارٹی سے زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوئے ہیں اور پارٹی کے زیرقیادت رائے دہندگان کو دبانے یا ووٹروں کو متحرک کرنے کی کوششیں حقیقت میں پارٹی قائدین کو پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور بناتی ہیں۔
تاہم شاپیرو اور بہت سارے دوسرے ماہرین کا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کی پکڑ میں بہت کمی آئی ہے جو جکہ نتیجتا عام طور پر جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے۔
شاپیرو اور ان کے ییل کی ساتھی فرانسس روزن بلوتھ نے سنہ 2018 کے اپنےایک مضمون میں لکھا کہ ‘سیاسی جماعتیں جمہوری احتساب کا بنیادی ادارہ ہیں کیونکہ پارٹیاں، نہ کہ افراد جو اس کی حمایت کرتے ہیں یا جن پر پارٹیاں شتمل ہیں وہ عوام کے لیے کوئی مسابقتی نظریہ پیش کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ووٹروں کے پاس نہ تو وقت ہے اور نہ ہی پالیسیوں کے اخراجات اور فوائد پر تحقیق کرنے کا وسیلہ کہ وہ یہ جان سکیں کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے اور اکثریت کے لیے طویل مدتی بنیاد پر کیا بہتر ہو سکتا ہے۔
یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ پارٹی کی رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے واحد مسئلے پر رائے دہندگی میں کیا غلطی ہوسکتی ہے شاپیرو اور روزن بلوتھ نے کیلیفورنیا کی بدنام زمانہ تجویز 13 کی طرف اشارہ کیا جس پر سنہ 1978 میں بیلٹ کے ذریعے فیصلہ لیا گیا اور جس نے پراپرٹی ٹیکس میں تیزی سے اضافے کو محدود کردیا۔ پہلے تو یہ اقدام بہت سارے ووٹروں کو جیت کی طرح لگا لیکن پھر کئی سالوں کے دوران اس نئے اصول نے مقامی بجٹ کو اس حد تک کم کردیا کہ کیلیفورنیا میں فی طالب علم سکول کے اخراجات اب 50 ریاستوں کی فہرست سب سے نچلی سطح پر ہیں۔
ڈارٹ ماؤتھ یونیورسٹی میں علم سیاسیات کے ماہر رسل موئر ہیڈ اور شریک مصنف روزن بلم کا کہنا ہے کہ پارٹیاں سمجھوتے میں آسانی پیدا کرنے سمیت دیگر بہت سے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر موئر ہیڈ ‘یو ایس فارم بل’ کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس پر دونوں جماعتیں ہر پانچ سال میں تقریبا ایک بار پھر بات چیت کرتی ہیں۔ ہر بار جب وہ بات چیت کے لیے بیٹھتے ہیں تو ‘ڈیموکریٹس شہریوں کے لیے فوڈ سپورٹ کی بات کرتے ہیں جبکہ ریپبلکن کسانوں کے لیے سپورٹ چاہتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح وہ ہمیشہ کسی نہ کسی معاہدے پر راضی ہوجاتے ہیں۔’ ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کا ‘متبادل کسی ایک کے حق میں ہے یا پھر وہ کچھ بھی منظور نہیں کرتے ہیں۔’
روزن بلم اور موئر ہیڈ لکھتے ہیں کہ شاید یہ بات سب سے اہم ہے کہ امریکہ کی دو اہم جماعتیں روایتی طور پر اپنے مخالفین کے قانونی جواز کو تسلیم کرتی ہیں۔ جبکہ تھائی لینڈ، ترکی اور جرمنی جیسی دوسری قوموں نے ان سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی ہے جو ان کی حکومتوں کی نظر میں جمہوریت کو بہت زیادہ غیر مستحکم کرنے والی ہیں ۔ امریکی پارٹیوں کے تعاون سے امریکی ووٹرز کو یہ یقین دہانی ہوتی ہے کہ وہ امن برقرار رکھنے میں مددگار ہیں کہ اگر آج وہ ہار گئے تو وہ کل جیت بھی سکتے ہیں۔ تاہم روزن بلم، موئرہیڈ اور دیگر کا کہنا ہے کہ یہ بنیادی اصول ٹوٹ رہے ہیں جبکہ پارٹی کے کچھ رہنما اپنے مخالفین پر غداری کا الزام بھی عائد کر رہے ہیں۔
روزن بلم کہتی ہیں: ‘اہم بات جو اب ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے درمیان اس بات پر واضح مباحثہ ہو رہا ہے اپوزیشن پارٹیاں ناجائز ہیں۔۔۔ ٹرمپ ڈیموکریٹس کو عوام کا دشمن اور ناجائز قرار دے رہے ہیں اور یہ کہتے رہے ہیں کہ انتخابات میں دھاندھلیاں ہوئی ہیں۔ یہ تشدد کا راستہ ہے کیونکہ کسی اور انتخاب سے اس کو درست کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔’
شاپیرو کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کی سیاسی جماعتوں نے کافی حد تک اہمیت اور اپنا اثر و رسوخ کھو دیا ہے۔ پھر بھی ان کا کہنا ہے کہ ان پر پابندی لگانے یا ان کی طاقت کو مزید کم کرنے کے بجائے ہمیں انھیں مضبوط بنانے اور زیادہ قابل اعتماد بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ اور ان کے ساتھی انتخابی مہم میں فنڈنگ میں اصلاح کی وکالت کرتے ہیں تاکہ امیدواروں کی وفاداریوں کے لیے جاری موجودہ انتشار انگیز بولی لگانے والی جنگوں کو ختم کیا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقصد کا حصول ابھی گریزاں ہے۔ انتہا پسندی میں اضافے سے نمٹنے کے لیے وہ اس بات پر بھی زور دیتے ہیں انتخابی حلقوں کی دوبارہ حدبندیوں کا کام من مانے ڈھنگ سے کسی کو سیاسی فائدہ پہنچانے والے حیلہ سازون کے بجائے بجائے کسی غیر جانبدار کمیشن کو دیا جائے۔
پرائمری میں بڑھتے ہوئے پولرائزیشن کے خطرے کو مزید کم کرنے کے لیے شاپیرو کی تجویز ہے کہ کہ اگر سابقہ انتخابات میں ٹرن آؤٹ 75 فیصد سے کم ہو تو پارٹی رہنماؤں کو امیدواروں کے انتخاب کی اجازت دی جانی چاہیے۔
لنڈیمور اور ان کے گروپ کا کہنا ہے کہ یہ خیالات موجودہ مسائل کے فوری حل کی ضرورت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ وہ لوگوں کو یہ تصور کرنے کی دعوت دے رہی ہیں کہ ایسے طریق کار کے بارے میں غور کریں جس سے سیاسی جماعتوں پر کم سے کم یا صفر انحصار ہو اور خاص طور پر مہنگے اور ممکنہ طور پر انتخابی مہموں کو خراب کرنے والی چیزون سے بچا جا سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک طریقہ تو یہ ہو سکتا ہے کہ شہریوں کے گروپس کا رینڈم تقرر کیا جائے جس طرح آج ججز کا انتخاب ہوتا ہے تاکہ وہ حکومت کی سربراہی کرے اور ایک مستقل ‘ایوان عوام’ ہو جس میں سے معینہ مدت کے لیے کسی کو ذمہ داری دی جائے اور یہ ذمہ داری تبدیل ہوتی رہے۔ روٹجرز یونیورسٹی کے فلسفی الیگزینڈر گوریرو نے سنہ 2019 کے اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ عوام کی اسمبلیان موجودہ امریکی کانگریس سے زیادہ عوام کی نمائندہ ہوگی۔ اپنے اس مضمون میں انھوں نے لاٹری کے ذریعہ نمائندوں کے انتخاب کی وکالت کی تھی۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ‘امریکی کانگریس میں خدمات انجام دینے والے 535 افراد میں سے 140 افراد کی مجموعی مالیت 20 لاکھ ڈالر سے زیادہ ہے۔ ان میں سے 78 فیصد مرد ہیں جبکہ 83 فیصد سفید فام ہیں، اور 50 فیصد سے زیادہ پہلے سے وکیل یا کاروباری افراد ہیں۔’
متعدد یورپی ممالک نے پارٹی کی بنیاد پر چلنے والی جمہوریت کے متبادل کو پہلے ہی آزمانے کی کوشش کی ہے۔ سنہ 2019-20 میں فرانس نے آب و ہوا سے متعلق ایک سٹیزنس کنونشن کا انعقاد کیا جس میں 150 افراد کو رینڈم طور پر منتخب کیا اور ان سے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے معاشرتی طور پر جائز طریقے وضع کرنے میں مدد کا مطالبہ کیا۔ دسمبر سنہ 2020 میں فرانسیسی صدر نے کنونشن کی ایک تجویز پر رائے شماری کرانے پر رضا مندی ظاہر کی جس میں آب و ہوا کے تحفظ کو قومی آئین میں شامل کرنے کی بات کہی گئی تھی۔
اور سنہ 2016 میں آئرش پارلیمنٹ نے 99 شہریوں سے اسقاط حمل پر آئینی پابندی سمیت ضدی کے مسئلے پر رائے مانگی۔ اسمبلی کی اکثریت نے یہ تجویز پیش کی کہ اس پابندی کو ختم کیا جانا چاہیے جس کے بعد قومی ریفرنڈم میں ان کی تجویز پر مہر تصدیق ہوئی اور قانون کو تبدیل کردیا گیا۔ یہ تمام چیزین سیاسی جماعتوں کی شمولیت کے بغیر ہی انجام پائے۔
لینڈمور کا کہنا ہے کہ ان کوششوں کے محدود اثرات کے باوجود آج عوام کی رائے کا رخ بدل رہا ہے۔ صرف پانچ سال پہلے لوگ پولیٹیکل سائنس کانفرنس میں ‘کھلی جمہوریت’ کے تصور کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ: ‘اب سے پانچ سال بعد میں اندازہ لگا سکتی ہوں کہ ہم مکمل طور پر مرکزی دھارے میں ہوں گے۔’
٭یہ مضمون پہلی بار نوئیبل میگزن میں شائع ہوا جسے کریئٹو کامن لائسنس کے تحت دوبارہ پیش کیا گیا ہے۔