دنیا میں تیل پیدا کرنے والے سب سے بڑے ممالک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے درمیان تیل کی پیداوار کے کوٹے پر کشیدگی کے سبب ان کے درمیان مذاکرات میں رکاوٹ پیدا ہو گئی ہے۔
اس کا اثر تیل کی تمام بڑی منڈیوں پر پڑا جو مذاکرات رُکنے کی وجہ سے پریشان ہیں اور اس کی وجہ سے تیل کی قیمتیں چھ برسوں کی اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
پٹرولیم ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک پلس کو جس میں روس جیسے ممالک بھی شامل ہیں اپنے مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کرنا پڑے جس کے بعد اس گروپ کے اتحاد کے بارے میں خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔
یہ مسئلہ گزشتہ ہفتے اس وقت شروع ہوا جب متحدہ عرب امارات نے اوپیک پلس کے رہنماؤں سعودی عرب اور روس کی اس تجویز کو مسترد کر دیا جس میں دونوں ممالک نے کہا تھا کہ تیل کی پیداوار سے متعلق پابندی کو مزید آٹھ ماہ تک برقرار رکھا جانا چاہیے۔
لیکن متحدہ عرب امارات تیل کی پیداوار کی اپنی موجودہ ‘بیس لائن’ پر دوبارہ بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ متحدہ عرب امارات نے کہا ہے کہ اسے تھوڑا سا زیادہ تیل پیدا کرنے کی آزادی دی جانی چاہیے۔ سعودی عرب اور روس اس کے خلاف تھے۔
مذاکرات نے اس وقت ایک عجیب موڑ لیا جب متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے وزرائے توانائی جو ایک دوسرے کے قریب سمجھے جاتے ہیں نے اس معاملے پر اختلافات کے بارے میں کھل کر باتیں کرنا شروع کر دیں۔
واشنگٹن میں قائم سینٹر برائے اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز کے سینئر محقق بین کیہل کے مطابق ’یہ ٹکراؤ حیرت انگیز تھا تاہم شاید یہ تنازعہ ناگزیر تھا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ابوظہبی کا اوپیک کوٹہ اس کی تیل کی پیداواری صلاحیت کے عین مطابق نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات نے تیل کی پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے بہت زیادہ رقم خرچ کی ہے اور اب مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ متحدہ عرب امارات تیل کی پیداوار میں اضافے پر حمایت نہ ملنے سے مایوس ہے۔
کئی برسوں سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان شراکت نے عرب دنیا کی جغرافیائی سیاست کو ایک نئی شکل دی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور متحدہ عرب امارات کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید کے ذاتی تعلقات نے دونوں ممالک کے درمیان اس اتحاد کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
دونوں ولی عہد اپنے اپنے ممالک میں حقیقت پسند حکمرانوں کی حیثیت سے دیکھے جاتے ہیں اور دونوں ہی اپنے اپنے ملک کے لیے عزم اور بلند نظریہ رکھتے ہیں۔
کئی برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹِجک امور پر گہرا تعاون رہا۔ انھوں نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے 2015 میں ایک عرب فوجی اتحاد تشکیل دیا تھا اور 2017 میں قطر پر سفارتی، تجارتی اور سفری پابندی عائد کر دی تھیں۔
لیکن دو سال قبل اس وقت ان کے تعلقات میں کشیدگیاں ظاہر ہونے لگیں جب متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنی بیشتر فوج واپس بلا لی۔ سعودی عرب یو اے ای کے اس اقدام سے ناخوش تھا۔
جنوری میں متحدہ عرب امارات نے قطر پر پابندیاں ختم کرنے کے لیے سعودی زیر قیادت معاہدے پر بڑی بے دلی سے اتفاق کیا تھا۔ لیکن انھیں دوحہ پر اب بھی اعتماد نہیں ہے۔
اسی طرح گذشتہ سال اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے متحدہ عرب امارات کے فیصلے سے سعودی عرب خوش نہیں تھا۔
فروری میں دونوں ممالک کے درمیان دوریاں اس وقت اور بڑھتی نظر آئیں جب سعودی عرب نے کثیر القومی کمپنیوں سے 2024 تک اپنا صدر دفتر سعودی عرب منتقل کرنے کے لیے کہا اور یہ بھی کہ جو کمپنی ایسا نہیں کریں گی انھیں سرکاری ٹھیکے نہیں ملیں گے۔ اسے خلیجی ممالک میں تجارت کا مرکز سمجھے جانے والے دبئی پر براہ راست حملہ سمجھا گیا۔
اس وقت متحدہ عرب امارات نے اوپیک میں ایک ایسے معاہدے کی مخالفت کی تھی جس پر سعودی عرب آمادہ تھا۔ اس کی وجہ سے سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات کے لیے پروازیں معطل کر دی تھیں۔ اگرچہ پروازیں معطل کرنے کی وجہ کورونا وائرس کی وبا کو قرار دیا گیا تھا لیکن یہ فیصلہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب بہت سے لوگ چھٹیوں کے لیے دبئی کا رخ کرتے ہیں۔
سعودی عرب نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے ترجیحی ٹیرف معاہدے کے ذریعے اسرائیل سے تعلقات رکھنے والے فری زون یا دیگر خلیجی ممالک سے درآمدات روک دے گا۔ اس اقدام سے متحدہ عرب امارات کی معیشت کو دھچکا لگا کیونکہ وہاں کی پوری معیشت فری زون ماڈل کے گرد گھومتی ہے۔
اوپیک میں دونوں ممالک کا ٹکراؤ دونوں کے درمیان بڑھتی ہوئی معاشی دشمنی کو ظاہر کرتا ہے۔ دونوں ممالک پیٹرولیم مصنوعات کی برآمد پر انحصار کم کر کے اپنی معیشت کو متنوع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
محمد بن سلمان کی سربراہی میں سعودی عرب پہلے کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ معاشی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ اب وہ سیاحت ، فائنینشل سروسز اور ٹیکنالوجی جیسے شعبوں میں دوسرے خلیجی ممالک کے ساتھ مقابلہ کر رہا ہے۔
لندن کے چیٹم ہاؤس میں ایسوسی ایٹ فیلو نیل کیویئلیم کا کہنا ہے ’سعودی عرب خلیجی ممالک میں سب سے بڑا ملک ہے اور وہ اب جاگ رہا ہے اور یہ کسی حد تک متحدہ عرب امارات کے لیے باعث تشویش ہے۔ پندرہ سے 20 برسوں میں اگر سعودی عرب متحرک معیشت میں تبدیل ہو جاتا ہے تو یہ امارات کے معاشی ماڈل کے لیے خطرہ ہو گا۔‘
یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اوپیک کے ایک نئے معاہدے پر اتفاق کریں گے یا نہیں۔
لیکن شاہی خاندان کے نزدیکی سعودی تجزیہ کار علی شہابی کو نہیں لگتا کہ اس تنازعہ سے ان کے تعلقات زیادہ عرصے کے لیے متاثر ہوں گے حالانکہ متحدہ امارات کا سخت موقف سعودی عرب کے لیے ایک ‘دھچکے’ سے کم نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ‘ماضی میں دونوں ممالک کے درمیان اس سے بھی زیادہ بڑے اختلافات پائے گئے ہیں۔ امریکہ اور برطانیہ سمیت تمام ممالک کے تعلقات میں اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ لیکن اس رشتے کے بنیادی اصول اس اتحاد کو عارضی نقصان پہنچانے کے مقابلے میں بہت مضبوط ہیں۔