نیٹو کی تقریباً تمام افواج افغانستان سے دستبردار ہو چُکی ہیں۔ ترکی اس خلا کو پُر کرنا چاہتا ہے اور خود کو ایک نئی ’محافظ قوت‘ کے طور پر پیش کر رہا ہے لیکن ترکی کی سمت طالبان کی طرف سے خطرات کے واضح اشارے دیے جا رہے ہیں۔
اب جبکہ افغانستان سے تقریباً تمام مغربی فورسز کا انخلا مکمل ہو گیا ہے، کابل حکومت بہت حد تک تنہا نظر آ رہی ہے۔ خاص طور سے انتہا پسند طالبان فورسز سے نمٹنے کے مشکل کام میں ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ افغانستان کو غالباً ترکی کی عسکری امداد ملے گی۔
برسلز میں نیٹو کے سکریٹری جنرل ژینس اشٹولٹنبرگ نے موجودہ حالات میں ترکی کی اہمیت اور اس کے افغانستان میں ممکنہ ‘کلیدی کردار پر زور دیا تاہم ترک فوج کی افغانستان میں ممکنہ تعیناتی کے منصوبے کے بارے میں باضابطہ طور پر ابھی کچھ طے نہیں ہے حالانکہ اس بات کے امکانات موجود ہیں کہ واشنگٹن اور انقرہ کے مابین اس وقت پس پردہ بات چیت جاری ہے۔
طالبان ترک ‘قبضہ‘ برداشت نہیں کریں گے
محض مغربی اسٹیک ہولڈرز ہی افغانستان میں اس وقت اپنے مفادات کا دفاع نہیں کر رہے، ترکی بھی افغان سرزمین پر اپنے فوجی بوٹس کے ساتھ قدم جمانے کی سوچ رہا ہے۔ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد سے طالبان ایک کے بعد دوسرے علاقے پر قبضہ کرنے میں مصروف ہیں اور متعدد مقامات پر اپنی فتوحات کا اعلان کر چُکے ہیں۔ نیٹو حکام نے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں انقرہ کی مداخلت کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ ترکی بحیثیت ایک مسلم اکثریتی ملک ہندوکش میں ثالث کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
تاہم طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس نظریے کو سرے سے مسترد کر دیا۔ ان کا کہنا تھا، ”گیارہ ستمبر کے بعد افغانستان میں کسی بھی غیر ملکی فوج کی موجودگی کو قبضہ اور فوج کو قابض تصور کیا جائے گا۔‘‘ شاہین کے بقول،” تمام غیر ملکی فورسز، ٹھیکیداروں، مشیروں اور ٹرینرز کو افغانستان سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔‘‘
ماہرین کا فوجی آپریشن کے خلاف انتباہ
ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرنے والے ماہرين کا کہنا ہے کہ کابل میں ترک فوج کی تعیناتی انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔ انقرہ یونیورسٹی ميں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر الہان اُزگل ایک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گرچہ نیٹو کے تربیت یافتہ تین لاکھ افغان فوجی 60 ہزار طالبان جنگجوؤں سے لڑ رہے ہیں، اس کے باوجود طالبان عسکریت پسند زیادہ سے زیادہ علاقوں کو دوبارہ اپنے قبضے میں لینے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں۔” ابھی تک افغان شہروں کو دوبارہ قبضے میں لینے کا سلسلہ جاری ہے اور افغان فوج، جو محض کاغذ پر مضبوط نظر آتی ہے، میدان جنگ میں اپنی تعداد میں کوئی خاص کمی نہیں لا سکی ہے۔‘‘
بین الاقوامی تعلقات کے ماہر سیزن اونے کا بھی خیال ہے کہ طالبان کی فوجی پیش قدمی کو روکا نہیں جا سکتا۔ انہوں نے کہا ،” افغانستان میں طالبان کو غیر ملکی فوجیوں کوبرداشت کرنا چاہیے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں ترک حکومت کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔‘‘
مفاہمت کی کوشش ؟
جب سے انقرہ نے اپنی فضائی حدود کو بچانے کے لیے روسی ایس 400 دفاعی میزائل خرید نے کا فیصلہ کیا تب سے اس کے نیٹو کے بہت سے شراکت داروں کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ ترکی کی طرف سے سطح سے فضا کے لیے موبائل میزائل سسٹم کے حصول کے فیصلے کی وجہ سے واشنگٹن بلکہ دیگر نیٹو ممالک کے دارالحکومتوں میں بھی ہلچل پیدا ہوئی اور رکاوٹیں کھڑی کی گئیں یا مخالفت سامنے آئی۔ اس کے جواب میں امریکا نے ترکی کو نئے جیٹ طیاروں کی ترسیل روکتے ہوئے ، F-35 اسٹیلتھ لڑاکا جیٹ پروگرام سے باہر نکال دیا۔
الہان ازگل کا خیال ہے کہ انقرہ اب اپنے مغربی شراکت داروں کو راضی کرنے کی کوششوں میں افغانستان میں خطرناک مشن کی ذمہ داری لیتے ہوئے مغرب کو یہ پیغام بھیج رہا ہے کہ وہ سلامتی کے معاملات میں مزید تعاون کرنا چاہتا ہے۔ ازگل کا کہنا ہے،”ایردوآن یہ ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ اب مغرب کی طرف مُڑ رہے ہیں۔‘‘