اقبال ادارہ تحقیق و مکالمہ (آئی آر ڈی) اور سفارت خانہ انڈونیشیا کے اشتراک سے بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں بروزجمعرات ،مورخہ 29 جولائی 2021 "مدرسہ اصلاحات، انڈونیشیائی تجربہ” کے عنوان سے ایک روزہ سیمینار کا انعقاد عمل میں لایا گیا جس میں اسٹیٹ اسلامک یونیورسٹی، جکارتہ کے پروفیسر آصف سیف الدین جہر اور پروفیسر امین عبداللہ، اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز، الشریعہ اکیڈمی گوجرانوالہ کے صدر نشین ڈاکٹر عمار خان ناصر، اقبال ادارہ تحقیق و مکالمہ کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین ، جامعہ نعیمیہ لاہور کے مہتمم ڈاکٹر راغب حسین نعیمی، جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کے نائب مہتمم مولانا احمد یوسف بنوری، سابق سربراہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ڈاکٹر عامر طاسین اور بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے نائب صدر ڈاکٹر ایاز افسر نے شرکت کی جبکہ تقریب کے صدر بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی اور مہمان خصوصی پاکستان میں انڈونیشیائی سفیر محترم جناب آدم ملاورمن توگیو تھے۔ میزبانی کے فرائض المورد اسلام آباد کے ڈائریکٹر جناب وقاص احمد خان نے انجام دیے۔
شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے انڈونیشیائی سفیر آدم ملا ورمن نے کہا کہ مسلم، بالخصوص مدرسہ طلبہ کو جدید ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے آگاہی اور متعلقہ تعلیم وتربیت فراہم کرنا ضروری ہے، تاکہ وہ روایتی مذہبی علوم کے ساتھ ساتھ جدید عصری تقاضوں کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہوں اور موجودہ دور میں مسلمانوں کی بہتر رہنمائی کر سکیں۔ انہوں نے انڈونیشیائی مدارس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہاں فضلا نہ صرف اسلامی علوم بلکہ یورپ و امریکا کی سائنسی و سماجی علوم کی درسگاہوں میں بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں یا تدریسی و تحقیقی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے پاکستان میں بھی روایتی مذہبی علوم اور جدید سماجی و سائنسی علوم کے اشتراک و ادغام کی ضرورت پر زور دیا۔ڈاکٹر قبلہ ایاز نے اظہار خیال کے دوران پاکستان میں مدارس کے حوالے سے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کے دوران مستعمل اصطلاحات کو تبدیل کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسے الفاظ استعمال کرنے چاہییں جو فریقین کے لیے قابلِ قبول ہوں۔ مدارس اسلامی ادب اور روایات و ثقافت کے تحفظ اور آئندہ نسلوں تک منتقلی کے لیے وجود میں آئے تھے، اور وہ یہ کام بخوبی کررہے ہیں، لیکن پاکستان میں بیورو کریسی مدارس کے حالات اور اغراض و مقاصد سے آگاہ ہی نہیں ہے ، ایسے افراد کس طرح مدارس سے متعلقہ مسائل یا معاملات کو حل کر سکتے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ مسائل کے حل کے لیےمدارس میں نصاب سے زیادہ وہاں کے ماحول اور مباحث کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پروفیسر آصف الدین جہر نے انڈونیشیا میں اصلاحاتی پروگرام کی تاریخ اور اس کے پسِ منظر کے بارے میں گفتگو کی ، ان کا کہنا تھا کہ اصلاحات کا یہ عمل بتدریج ہوا ہے اور اس وقت انڈونیشیا میں مدارس کے طلبہ انہی اصلاحات کی بدولت دیگر جامعات سے فارغ التحصیل طلبہ کے برابر ملازمت و اعلیٰ تعلیم کے مواقع رکھتے ہیں اور وہ نہ صرف اسلامی علوم بلکہ دیگر سماجی و سائنسی علوم میں بھی اپنی صلاحیتوں کو منوا سکتے ہیں۔
پروفیسر امین عبداللہ نے انڈونیشیا میں اصلاحاتی عمل کے دوران آنے والی مشکلات کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ یہ آسان نہیں تھا، پہلے پہل اس پر کافی احتجاج بھی ہوا، لیکن ہماری حکومت نے اس پروگرام کی کامیابی کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کام حکومت تنِ تنہا نہیں کر سکتی تھی، اس کام میں” محمدیہ” اور "النہضہ” جیسی مذہبی سماجی تنظیموں، نجی تعلیمی اداروں اور مدارس نے بھی کافی کوششیں کیں۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی کام کرنے کی گنجائش ہے، ہمارے ہاں 82000 مدارس میں سے محض 4000 مدارس سرکاری ہیں، جبکہ باقی ماندہ ابھی نجی طور پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ 1970 میں ہونے والے ایک معاہدے کے تحت ہمارےہاں مدارس میں اس وقت 70 فیصد عصری علوم اور 30 فیصد مذہبی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔
مولانا عمار خان ناصر نے اپنی گفتگو میں نظریاتی و فکری ذہن سازی میں مدارس کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے مدارس میں داخلی اصلاحات اور حکومت کے ساتھ رجسٹریشن کے خلاف اہلِ مدارس کی مزاحمت سے متعلق بھی گفتگو کی، انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کو سیاسی عزائم کے ساتھ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی بجائے زمینی حقیقتوں کو سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے اہلِ مدارس سے تقاضہ کیا کہ وہ سماجی علوم کی اہمیت اور جدید سائنسی علوم کی افادیت کا ادراک کریں۔ ڈاکٹر عامر طاسین نے اپنی گفتگو میں کہا کہ عصری علوم کی قبولیت اور رجسٹریشن مدارس کے دو اہم مسائل ہیں، عصری علوم کی ضرورت کا اقرار مدارس بغیر کسی جبر یا ریاستی تقاضے کےکر چکے ہیں، رجسٹریشن کا مسئلہ بھی اب حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ مولانا ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کا کہنا تھا کہ مسئلہ رجسٹریشن یا عصری علوم کی قبولیت کا نہیں ہے بلکہ ان کی جزیات کےطے کرنے پر ہے، انہوں نے کہا کہ اس سارے اصلاحاتی عمل کا طریقہ کار طے کرنا چاہیے اور ابہامات کو رفع کرنا چاہیے۔ انہوں نے مدارس کے کردار، فرائض و حقوق کے تعین کے لیے قومی اسمبلی میں باقاعدہ بل لانے کی تجویز دی۔
مولانا احمد یوسف بنوری نے مدارس کی حمایت میں گفتگو کرتے ہوئے مدارس کی غرض و غایت اور ان کے مسلکی و فقہی پسِ منظر سے اٹوٹ رشتے کی پرزور وکالت کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ مدارس اسلامی تعلیمات، روایات و ثقافت ، اور برطانوی سامراج کے خلاف مزاحمت کی اپنی تابندہ روایت سے پیچھے ہٹ جائیں گے ، تو ایسا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مدارس میں اصلاحات کی ضرورت کیوں پیش آئی ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے، کیا یہ ایک سماجی تقاضہ ہے، یا پھر ایک سیاسی ضرورت تاکہ مخصوص حکومتی پالیسیوں اور اقدامات کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کو دبا دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عصری علوم کی افادیت و اہمیت سے آگاہ ہیں، تاہم مدارس سے متعلقہ مسائل کو سنجیدگی اور حسنِ نیت کے ساتھ حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر ایاز افسر نے گفتگو کے دوران اصطلاحات کی تبدیلی کا مطالبہ کیا اور داخلی اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی شعبہ یا ادارہ میں کسی بھی طرح کی اصلاح اندر سے ہونی چاہیے تاکہ وہ سب کے لیے قابلِ قبول ہو۔ ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اختتامی کلمات میں انڈونیشیا سمیت دیگر ممالک سے سیکھنے اور اصلاحات کے حوالےسے ان سے رابطہ رکھنے کی اہمیت و ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے اصرار کیا کہ اگر عصری و دینی علوم کا امتزاج و اشتراک عمل میں لایا جاتا ہے توہمیں ایک ایسی قیادت میسر آئے گی جو ایک طرف روشن مذہبی روایات کی پاس دار اور محافظ ہو گی تو دوسری جانب جدید عصری تقاضوں کو سمجھنے اور عصرِ حاضر میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی دوراندیشانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہو گی۔
ڈاکٹر حسن الامین نے اقبال ادارہ برائے تحقیق و مکالمہ کے ایک نئے پروگرام "مدراسٹی ڈسکورسز” کا اعلان کیا جس کے تحت پاکستانی مدارس و جامعات کے طلبہ کو اسلام اور دیگر مذاہب کی قدیم و جدید کلامی وفلسفیانہ مباحث سے روشناس کروایا جائے گا۔ ڈاکٹر حسن الامین نے پروگرام میں شریک تمام معزز مہمانوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔