امریکہ میں جارج ڈبلیو بش، بارک اوباما، ڈونلڈ ٹرمپ اور جوبائیڈن مختلف النوع سوالات کی زد میں ہیں۔ میڈیا امریکی صدور کی قبائیں نوچ رہا ہے۔ مغرب میں بھی تلخ وشیریں مباحثہ زوروں پر ہے۔ ہمارے ہاں کوئی نہیں جو ایک ڈکٹیٹر کی فدویانہ، بزدلانہ اور کنیزانہ خودسپردگی کے بارے میں کوئی معصوم سا سوال بھی پوچھے۔ ہماری قومی سلامتی کا راز یہی ہے کہ سوال مت پوچھو۔ ہم نے سقوط ڈھاکہ پر کسی کی بازپرس نہیں کی تو امریکی جنگ میں مشرف کے کردار پر کیاانگلی اٹھائیں؟
روس سے لڑنے والے مجاہدین یا امریکہ سے پنجہ آزمائی کرنے والے طالبان میں لاتعداد خامیاں ہوں گی۔ روشن خیال، ترقی پسند، جمہوریت پسند، حقوق نسواں کے نگہبان، انسانی حقوق کے علمبردار اور اخلاقیات کے پیغمبرانہ منصب پر فائز واعظین کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ سب دلیلیں، سب اعتراض سرآنکھوں پر لیکن تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی تو ہے۔ وہ تاریخ انسانی کے عظیم مزاحمت کار بھی توہیں۔ چالیس برس کے دوران طاقت کے زبردست عدم توازن کے باوجود دنیا کی دوسپر پاور سے لڑنے اور اپنی سرزمین کا کامیاب دفاع کرنے والے آشفتہ سروں کے لئے ہمارے پاس کوئی ایک بھی حرف ستائش کیوں نہیں؟ ان کے آباﺅ اجداد برطانوی راج سے لڑے۔ 1919 میں راولپنڈی معاہدہ کرکے انگریز ہمیشہ کے لئے تائب ہوگیا۔ 1988 میں جینیوا معاہدے کے ذریعے قبائے صدچاک کی بخیہ گری کا سامان کرتا روس دس سالہ ہزیمت کا پشتارہ اٹھائے رخصت ہوا۔ اور اب امریکہ اپنے اتحادیوں سمیت، بیس برس تک پہاڑوں سے سرپھوڑنے کے بعد دوہا معاہدہ کی سیاہ چادر میں شکست سے چور چہرہ چھپائے واپس چلا گیا۔ دنیا میں اتنی خونخوار سپر پاور کو نگوں سارکرنے والی اقوام کتنی ہیں؟ وہ ملا سہی، اجڈ سہی، گنوار سہی، سنگ دل سہی، انتہا پسند سہی، دہشت گرد سہی_ سب کچھ بجا _ لیکن وہ تاریخ عالم کے عظیم مزاحمت کار بھی تو ہیں۔ جابروں کے خلاف مزاحمتی شاعری کرنے، جانباز کرداروں کے قصیدے رقم کرنے، انقلابی ترانے لکھنے، مزاحمت کی داستانوں پر ڈرامے بنانے اور فلمیں تخلیق کرنے والے، آتش بجاں افغانیوں کو یہ اعزاز دینے کے لئے کیوں تیار نہیں؟ کیا صرف اس لئے کہ ان کے چہروں پر گھنی داڑھیاں اور ان کے سروں پر بھاری پگڑیاں ہیں؟ یا اس لئے کہ وہ لمبی عبائیں پہنتے اور کندھوں پر چادریں ڈالتے ہیں؟ یا اس لئے کہ وہ اللہ رسول اور جہاد کا نام لیتے ہوئے کسی احساس کم تری کا شکار نہیں ہوتے؟ بھلے ان کے چہروں، ان کی عباﺅں، ان کی قباﺅں اور ان کی دستاروں پر زمانے بھر کی سیاہیاں تھوپ دو لیکن انہیں نشہ قوت میں بدمست سپرپاور کی گردنیں مروڑنے والے مزاحمت کار تو تسلیم کرلو۔ گارڈین اگر افغانستان کو ”سلطنتوں کا قبرستان“ لکھ رہا ہے تو تمہارے قلم کی روشنائی کیوں خشک ہوگئی؟ تمہاری زبانوں میں کیوں لکنت آگئی ہے؟ راولپنڈی، جینیوا، دوہا تمہارے لئے استعارے کیوں نہیں بن رہے؟
گارڈین ہی کے مطابق طالبان نے امریکیوں سے کہا تھا _ ”گھڑیاں تمہاری کلائیوں پر بندھی ہیں، لیکن وقت ہماری مٹھی میں ہے۔“
وقت ہمیشہ انہی کی مٹھی میں ہوتا ہے جو آزادی اور صداقت کے لئے مرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔ یہی تڑپ ان کے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرتی ہے اور اپنے سے سوگنا بڑی طاقت سے لڑا دیتی ہے۔
11 سمتبر2001 کو نیویارک میں دومینار گرے تھے __ بیس برس بعد امریکہ کا مینار پندار بھی زمین بوس ہوگیا ہے۔