سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کی رو سے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین کو کئی سالوں کی ملازمت کے بعد یا تو فارغ کیا جا رہا ہے یا پھر پرانی پوزیشن پر بھیجنے کے احکامات جاری ہو رہے ہیں۔ اس فیصلے کے بارے میں ہم ایک پوسٹ میں پہلے بھی لکھ چکے ہیں ۔ اس فیصلے کے اطلاق کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے اور مختلف محکموں نے اس بارے میں دفتری کاروائی شروع کر دی ہے ۔ یہ فیصلہ ‘جس کی رو سے ہزاروں ملازمین اور ان سے وابستہ لاکھوں لوگ متاثر ہوں گے’ ایک ایسے بنچ نے سنایا ہے جس میں حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جسٹس مشیر عالم بھی شامل تھے۔ اس بنچ نے جسٹس مشیر عالم کی قیادت میں پونے دو سال قبل اس کیس کی سماعت کی اور فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور جسٹس مشیر عالم کی ریٹائرمنٹ سے محض ایک دن قبل یہ فیصلہ سنا کر ہزاروں ملازمین کے لئے بے یقینی کی فضا پیدا کر دی۔
کہنے کو تو کہا جاتا ہے کہ انصاف ہونا ضروری ہے چاہیے اس سے آسمان ہی کیوں نہ گر پڑے مگر ایسا سچا اور کھرا انصاف وہاں ہو جہاں سارے دودھ کے دھلے ہوئے ہیں۔ 1996 میں جن سرکاری ملازمین کو اس وقت کی حکومت نے ملازمت دی اور جنہیں 1998 میں نکال دیا گیا اور بعد ازاں 2009-2010 میں باقاعدہ قانون سازی کے تحت ان ملازمین کو بحال کیا گیا انہیں 2021 میں ملازمت سے فارغ کرنا کسی طور پر درست قدم نہیں ہے۔ ہم قطعی طور پر یہ نہیں کہتے ہیں پیپلزپارٹی کی حکومت نے یہ ملازمتیں میرٹ پامال کر کے نہیں دیں تھیں۔ یقینا اس وقت بڑے پیمانے پر گڑبڑ کی گئی ہوگی مگر اس کی سزا ان وزراء اور بیوروکریسی کے افسران کو ملنی چاہیئے جو اس کے مرتکب ہوئے تھے۔ عام آدمی اور خاص کر غریب طبقہ تو روزگار کے حصول کے لئے دوڑ دھوپ کرتا ہی ہے۔ ان ملازمین کی اکثریت بہرحال پاکستان کے غریب افراد پر مشتمل تھی اور انہیں اس انداز میں ملازمت سے نکال دینا کسی طور پر منصفانہ قدم نہیں ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ لکھا ہے کہ اس دوران جو ملازمین ریٹائر ہو چکے ہیں یا وفات پا گئے ہیں ان پر اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔ کیا کسی نے یہ تعین کیا ہے کہ کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس سال یا آئندہ سال ریٹائر ہونے جا رہے تھے اور اب انہیں اس فیصلے کے تحت فارغ کر دیا جائے گا؟ یہ وہی عدالت ہے جو بحریہ ٹاؤن’ ون کانسٹی ٹیوشن پلازہ’ بنی گالا اراضی اور نہ جانے کتنے اور کیسز میں قانون کی صريحا خلاف ورزیوں کو برداشت کر کے زمینی حقائق کے مطابق فیصلے صادر کر چکی ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی نوعیت کے کتنے ہی کیسز میں یہی عدالت درمیانی راہ نکال چکی ہے۔ اس وقت فیصلے سے متاثر ملازمین بڑے بڑے نامی گرامی وکلاء کو پیسے جمع کر کے کروڑوں روپے فیس کی مد میں ادا کر رہے ہیں تاکہ نظرثانی کی درخواستیں جمع کروائی جا سکیں۔ کوئی ہے جو ان کی شنوائی کرے؟