درج ذیل مضمون بیسویں صدی کے معروف مفکر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا تحریر کردہ ہے، جو 1963 میں مرکزی مجلس اقبال کے زیر اہتمام منعقدہ یوم اقبال کی تقریب میں پڑھا گیا۔
اقبال کے نزدیک حقیقت کی سب سے بنیادی خصوصیت اس کا مسلسل پھیلاؤ ہے۔ زندگی کا سب سے نمایاں پہلو اس کا لامتناہی طور پر بڑھنا، پھلنا اور پھولنا ہے یہ نمو کی دائمی حرکت مقصدیت سے خالی نہیں ہوتی بلکہ خود اس حرکت کے اندر مقصدیت جنم لیتی ہے۔ کہیں باہر سے اس حرکت پر چسپاں نہیں کی جاتی۔ آج ہم کو یہ دیکھنا ہے کہ زندگی کی یہ بنیادی حرکت ایک طرفہ نہیں بلکہ دو عناصر میں تصادم کا نتیجہ ہوتی ہے۔
یہ حرکت نمو ایسی آسانی سے آگے کی طرف نہیں بڑھ جاتی بلکہ ہر لمحہ اور ہر قدم پر اس کو معرکہ آزمائی کرنا پڑتی ہے۔ اس معرکہ آزمائی کی اصلی وجہ آج تک کوئی انسان نہ جان سکا اور غالباًنہ جان سکے گا۔ لیکن خود اس معرکے کے وجود کے متعلق کسی کو شبہ نہیں۔ اگر مفکروں میں اختلاف اور تفاوت رہا ہے تو وہ اس کار زار حیات کی نوعیت کے متعلق رہا ہے کسی نے کہا کہ یہ کارزار خیر و شر اور معرکہئ حق و باطل اگر نہ ہی ہوتا تو کیا بہتر تھا۔ کتنے آرام سے زندگی گزرتی۔ یہ فی نفسہ ایک بری چیز ہے۔ لہٰذا ہماری زندگی کا اولین مقصد خود اس معرکہ وجدال سے نجات حاصل کرنا ہے۔ مشرقیوں میں ، بالعموم بدھ مت کے پیرو اور مغربیوں میں رواقی مذہب کے فلسفی اس مسلک کے پیرو معلوم ہوتے ہیں۔ایک دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اس جدال سے مفر نہیں یہ ایک شر ہے لیکن ایک ضروری شر ہے۔ لہٰذا جب تک زندہ ہیں اس سے چھٹکارا نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ زندگی سے خلاصی حاصل کی جائے یا اگر ممکن ہو تو زندگی میں موت اختیار کی جائے۔ ہندوؤں کا ایک گروہ کثیر اور مغربیوں میں کئی مفکر اسی طرزِ فکر کے حامی نظر آتے ہیں۔عیسائیوں کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام کی(نعوذ باللہ) اصل تعلیم بھی یہی تھی، یعنی یہ کہ اس معرکہ حیات میں، اس کارزار خیر وشر میں اس بری دنیا کو چھوڑ کر ”آسمانی باپ” کی طرف جتنا جلدی رجوع کیا جائے اتنا بہتر ہے۔ اگر اس کارزار میں کوئی فتح مندی کی صورت ہو سکتی ہے تو وہ صرف خدا ہی کر سکتا ہے۔ انسان تو اس میں بالکل بے بس ہے۔
اس کے عین برخلاف اقبال کے نزدیک زندگی کی رَو کے پھیلاؤ کا سبب اسی مسلسل چیلنج اور معرکہ میں مضمر ہے جس کو اخلاقی سطح پر کارزار خیر و شر کہتے ہیں۔ بغیر اس مخالفت کے، بغیر اس تصادق کے، ذرہ بھر آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے تو اقبال زمانے کی ایسی تعریف کرتا ہے جس کی ہر آن نئی اور اس آن میں ہر شان نئی ہے۔ ہر لمحہ نئے نئے غیر متناہی امکانات ہمارے سامنے کھول دیتا ہے۔ اور ان امکانات میں سے ہم کسے اختیار کرتے ہیں اور بروئے کار لاتے ہیں یہ امتحان بھی ہمارے لیے ہر لمحہ نیا ہوتا ہے۔ اقبال نے زمانے پر اور اس کی قیمت پر بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس بارے میں اس کا شاہکار بالِ جبریل میں وہ مشہور نظم ہے جس کا نام مسجد قرطبہ ہے۔ اسے غور سے مطالعہ کرنا چاہیے۔
لیکن ان لامتناہی امکانات کی پیدائش اور بالخصوص ان کا بروئے کار آنا بغیر رزم خیر و شر کے ممکن نہیں اس کے بغیر زندگی گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ اقبال کہتا ہے:
میارا بزم برساحل کہ آنجا
نوائے زندگانی نرم خیز است
بدریا غلط و باموجش در آویز
حیات جاوداں اندرستیزاست
یہ اشعار ہمیں اساسی طور پر ایک بامقصد خطرہ مول لینا اور شَر کا سامنا کرنا سکھاتے ہیں۔ اس دلیل سے یہ ثابت ہوا کہ نیکی یا اچھائی اس رویے کا نام ہرگز ہرگز نہیں جس میں شَر کا مقابلہ کرنے سے پہلو تہی کی گئی ہو یا جس میں ایک نام نہاد نیکی کے نام پر زندگی کے مثبت امکانات کو یا ختم کر دیا جائے یا گھٹا کر رکھ دیا جائے۔ جو شخص یا قوم نیکی یا تقویٰ کا ایسا منفی تصور پیدا کرے وہ اقبال کے نزدیک خدا اور اس کی خالقیت کی شاید سب سے بڑی مجرم ہے۔ اور ہم ابھی دیکھیں گے کہ معاملے کی بعینہٖ یہی صورت قرآن کے نزدیک بھی ہے۔ جبریل و ابلیس کے مکالمہ میں ابلیس جبریل کو کہتا ہے:
میری جرأت سے ہے مشت خاک میں ذوق نمو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے، میں کہ تو؟
لیکن شاید آپ اقبال کے جبریل وابلیس کوایک شاعراور سیکولر (Secular) مفکر کی پرواز خیال سمجھیں تو آئیے ذرا ایک لمحہ قرآن کے اوراق الٹ کے دیکھیں۔ یہ وحی آسمانی ہمیں اس مسئلہ کے متعلق کیا بتاتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ جب اللہ نے حضرت انسان کی تخلیق کا ارادہ کیا تو فرشتوں کا وفد خدا کے پاس گیا اور عرض کیا کہ اے رب! تو ایسی مخلوق پیدا کر رہا ہے جو زمین پر فساد مچائے گی۔ اور خونریزی کرے گی اور ہم تو تیری حمد کے گیت گاتے رہتے ہیں اور تیری تقدیس کرتے ہیں۔ یعنی تیرا ہر حکم بجا لاتے ہیں پھر اس مخلوق کے پیدا کرنے کا کیا مطلب ہے؟ قال انی اعلم مالا تعلمون۔ خدا نے فرمایا (میں وہ کچھ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔) ذرا غور فرمائیے۔ خد نے اس حقیقت سے انکار نہیں کیا کہ انسان سے غلطیاں سرزد ہوں گی۔ یہ نہیں کہا کہ انسان فرشتوں سے بھی بڑھ کر پاک ہے۔ بلکہ یہ بات بھی تو ہمیں قرآن نے ہی بتائی کہ جب سے انسان پیدا ہوا تب سے ہی شیطان بھی پیدا ہوا۔ انسان سے پہلے شیطان بھی تو نہ تھا۔ یعنی جو ہستی شیطان بنی وہ تخلیق آدم سے پہلے شیطان نہ تھی کچھ اور تھی تو پھر اس سارے ڈرامے کا راز کیا ہے؟ انسان کے پہلو بہ پہلو شیطان کا جنم لینا، فرشتوں کا دربار باری میں اس نئی مخلوق کی تجویز پر احتجاج کرنا، اللہ کا اس بات سے انکار نہ کرنا کہ انسان سے غلطیاں سرزد ہوں گی لیکن اپنے لامتناہی علم کی بنیاد پر اس احتجاج کو ٹھکرا دینا اور اس مخلوق کا معرض ِ وجود میں لے آنا ۔ ان سب کا آخر کیا مطلب ہے؟
اس سوال کا جواب آپ کو قرآن کی اس آیت میں ملے گا جس میں خدا فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی امانت زمینوں اور آسمانوں کو پیش کی لیکن انہوں نے اسے قبول کرنے کی جرأت نہ کی اور آخر انسان نے اسے قبول کر لیا۔ وہ امانت کیا ہے جس کی مناسب جگہ پیدا کرنے کے لیے جس کامناسب محل بنانے کے لیے پیکر انسانی کی تعمیر کی جا رہی ہے اور اپنے فرشتوں کے مشورہ کو رد کیا جا رہا ہے؟ وہ کیا ہو سکتا ہے سوائے اس قوت تخلیق کے جس کا اولین محل ذات باری ہے اور پھر اس کا براہِ راست خلیفہ حضرت انسان۔ اگر انسان اس فریضے کو انجام دیتا ہے اور صالح تخلیقی عمل کرتا ہے۔ یعنی دائمی اقدار کے لیے مادی علمی اور روحانی مواد فراوانی کے ساتھ پیدا کرتا ہے۔ تو ان لامتناہی امکانات کو بروئے کار لاسکے گا جو خدا نے بطور امانت اس میں ودیعت کیے ہیں۔ ایسا شخص خدا کا بندہ اور ایسی قوم(خیر امة اخرجت للناس)ہے خدانے زندگی کی رَو کے اس بے پناہ پھیلاؤ کے لیے سب سامان مہیا کر دیا ہے۔ انسان کی تخلیقی قوت۔ اس کے لامتناہی امکانات اس کا اختیار اور ان سب کی اوّلین شرط یعنی معرکہ خیر و شر۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا اقبال کا فلسفہ شر عین قرآنی نہیں؟ اگر آپ مجدد الف ثانی کے مکتوبات کا مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو وہاں بھی بالکل یہی نظریہ ملے گا اس سلسلہ میں یہ بات دل چسپی سے خالی نہیں کہ مجدد صاحب اور اقبال دونوں نے منصب نبوت اور بالخصوص رسالت مآب محمد رسول اللہ ﷺ کے اس دنیا کی طرف مثبت رویے کو انسانی ہدایت کے پروگرام میں بالکل مرکزی حیثیت دی ہے۔ اور رسول ِ کریمﷺ کی تعلیمات کو اس منفی نیکی اور تقویٰ سے بالکل اور قطعاً جدا کیا ہے جس کے نزدیک گناہ کے خوف کے تحت اور گناہ کے ظنی ارتکاب سے بچنے کے لیے مثبت انسانی ترقی کے امکانات کو ختم کرنا بہتر تصور کیا جاتا ہے۔ دراصل اس آخری موقف کا منطقی نتیجہ تو خود کشی ہونا چاہیے کیونکہ موت طاری کر کے تو انسان یقینی طور پر بدی کے مظنہ سے بچ سکتا ہے۔ لیکن یہ نظریہ اقبال اور قرآن دونوں کی ضد ہے۔
بشکریہ: فکر ونظر، 1:11، 1964