رپورٹ: سید مزمل حسین شاہ
جامعۂ محمّدی شریف ضلع چنیوٹ میں ،چنیوٹ شہر سے 30 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ اس کا سنگ بنیاد 1932 میں دارالعلوم دیوبند کے فاضل مولانا محمد ذاکرؒ نےرکھا تھا جن کےبعد ان کے صاحبزادے مولانا رحمت اللہ نے اسے آگے بڑھایا اور 1954 میں مرکزی مسجد تعمیر کروائی جو آج بھی اسی حالت میں قائم ہے ۔ اسی زمانے میں دارالعلوم بھی قائم کیا گیا جس کی تمام عمارات آج بھی اپنی اصلی حالت میں موجود ہیں ۔ یہ پاکستان کا بغیر چندہ کے چلنے والا ایک منفرد ادارہ ہے ، چندہ نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ جامعۂ محمدی شریف کی 1200 ایکڑ زرعی اراضی ہے جس کی آمدنی سے یہ ادارہ چلتا ہے۔ طالبات کا ایک ادارہ ، حفظِ قرآن کامدرسہ اور ایک یتیم خانہ بھی جامعۂ محمّدی شریف میں موجود ہیں۔ ان کے اخراجات جامعہ کے ذمہ ہیں ۔ مولانا رحمت اللہؒ کے علاوہ ان کے چچّا مولانا محمد نافعؒ (نامور مصنف) نے بھی ان کی بھرپور معاونت کی۔ مولانا رحمت اللہ ؒ کے فرزند صاحبزادہ قمر الحق جامعۂ محمّدی شریف کے موجودہ مہتمم ہیں ۔
جامعہ محمدی شریف میں حال ہی میں اقبال انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ برائے تحقیق و مکالمہ ، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے تعاون سے ایک سہ روزہ ورکشاب منعقد کی گئی ، ورکشاپ کا موضوع ” علوم اسلامیہ کی تعلیم اور جدید فکری مباحث "تھا۔ ملک کے نامور ماہرین تعلیم ، محققین اور مصنفین نے ورکشاپ کے مختلف اجلاسوں سے خطاب کیا۔ ورکشاپ میں فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے ممتاز مذہبی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے علاوہ جامعۂ محمدی شریف کے اساتذہ اور طلبہ نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔ ان مدارس میں دارالعلوم غوثیہ بھیرہ شریف ، ادارہ معین الاسلام بیربل شریف سرگودھا ، جامعۂ اسلامیہ ، چنیوٹ، جامعہ نور مصطفیٰ امین پور، جامعۂ سلفیہ فیصل آباد ، جامعۂ معظمیہ ، معظم آباد شریف، دارالعلوم ضیاء شمس الاسلام، سیال شریف جامعۂ امدادیہ فیصل آباد ، کلیۂ اہل بیتؐ عظام چنیوٹ جیسے ادارےشامل ہیں ۔
ورکشاپ کے پہلے دن کا آغاز ” کردار سازی کا نبوی (ﷺ) منہاج "کے موضوع پر ایک مذاکرہ سے ہوا۔ مولانا امجد اقبال، ناظم تعلیمات جامعۂ محمدی شریف نے صدارت کی جبکہ مہمان مقرر کے طور پر ڈاکٹر اکرام الحق یاسین سیکرٹری اسلامی نظریاتی کونسل نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر یاسین کا کہنا تھاکہ کردار سازی کے نبوی منہاج کی اساس لوگوں کے فطری رویوں کا لحاظ رکھتے ہوئے ان کی شان بڑھانا تھی۔ نبوی منہاج میں کسی کو نیچا دکھانا مطلوب نہ تھا بلکہ احترام انسانیت اس کا طرہ امتیاز تھا۔ جامعۂ محمدی شریف کے سربراہ صاحبزادہ قمر الحق نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں شرکاء کو خوش آمدید کہا ۔ انہوں نے اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ خصوصاً اس کے سربراہ ڈاکٹر حسن الامین کا بھی شکریہ ادا کیا۔
مولانا رمضان قمری ، جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک لمبا عرصہ جامعۂ محمدی شریف میں بطور استاد گزارا، نے اپنے خطاب میں علوم اسلامیہ کی تعلیم و نشرو اشاعت کے سلسلہ میں صوفیائے کرام کے کردار پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ مشکل سے مشکل حالات میں صوفیائے کرام نے اسوۂ رسول اکرم ﷺ اور اہل بیت اطہار و صحابۂ کرام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے اپنے معاشروں کی رہنمائی کی۔ انہوں نے کہا کہ قدیم علما و صلحا کے ہاں وسعت نظر تھی جبکہ عصر حاضر میں بعض شعبدہ بازوں نے تصوّف اور صوفیائے کرام کو بدنام کر کے رکھ دیا ہے ۔
ڈاکٹڑ حسن الامین نے کہاکہ جامعہ محمدی شریف صوفیائے کرام اور علماء کی روایات کا امین ہے ۔ یہاں انہیں گام گام پر اس جامعہ کے بانیان کے سانسوں کی مہک محسوس ہوتی ہے ۔ انہوں نے اقبال ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی سرگرمیوں خصوصاً اسلام آباد سے باہر کی سرگرمیوں اور کتب کی مسلسل اشاعت پر بھی اظہار خیال کیا۔ ورکشاپ کے دوسرے دن کا آغاز اسلامی یونیورسٹی کے نائب صدر برائے تدریسی امور ڈاکٹر ایاز افسر کے "قرآن مجید کے اسلوب و بیانیہ ” کے موضوع پر تجزیاتی خطاب سے ہوا۔ انہوں نے کہا قرآن اور بائبل دونوں الہامی کتب ہیں تاہم موجودہ بائبل میں جو کچھ تحریف سے بچا ملتا ہے اس میں اور قرآن کے اظہار و تعبیر میں خاصا بڑا فرق ہے۔ بائبل کا پیغام ایک خاص خطے کے لوگوں کےلیے جبکہ قرآن کا پیغام آفاقی ہے۔ بائبل اطلاعاتی کتاب ہے جبکہ قرآن کتاب انقلاب ہے جس کا مقصد لوگوں کی زندگی میں تبدیلی لانا ہے ۔ علاوہ ازیں قرآن زبان و بیان کا ایک ابدی معجزہ بھی ہے جبکہ بائبل میں اس طرح کی کوئی بات اب نظر نہیں آتی۔
دوسرے اجلاس کا آغاز ممتاز محقق اور مدیر ماہنامہ ” الشریعہ ” گوجرانوالہ ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر کے ” علوم اسلامیہ کی تعلیم اور جدید فکری مباحث ” کے موضوع پر خطاب سے ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ خالق کائنات نے انسان کو عقل کی دولت سے نوازا ہے اور اسے غورو فکر اور فیصلے کرنے کی آزادی دی ہے لیکن اس کی حدود بھی متعین کر دی ہیں ۔جہاں عقل کی رسائی ختم ہو جاتی ہے وہاں سے وحی کا آغاز ہوتا ہے ۔ اس لیے کہ عقل انسانی کائنات کے تمام سوالات کا جواب نہیں دے سکتی۔ انہوں نےکہا کہ اس وقت دنیا لادینیت اور الحاد کے فتنہ سے دو چار ہے ۔ اس مصیبت سے لوگوں کو صرف اسلام ہی نکال سکتاہے جس کی بنیادی بات وحی سے استنباط ہے ۔
تیسرے اجلاس میں بھی مولانا ڈاکٹر محمد عمار خان ناصر نے خطاب کیا ۔ ان کے خطاب کا موضوع "تہذیب مغرب کا تنقیدی مطالعہ ” تھا۔ انہوں نے کہا کہ تہذیب مغرب بد قسمتی سے مذہبی نسبتوں سے بہت دور ہو چکی ہے ۔ وہاں اب مذہب یا تو فرد کا انفرادی معاملہ بن کر رہ گیا ہے ، یا بڑی تعداد میں لوگوں نے مذہب سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی ہے اور الحاد کی راہ اپنا لی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ لادینیت اور الحاد نے رفتہ رفتہ معاشروں پر پنچے گاڑے ہیں ۔ مولانا عمار ناصر کا مزید کہنا تھا کہ لادینیت مسلم دنیا میں بھی سر نکال رہی ہے ۔ تاہم یہ بات خوش آئند ہے کہ مسلم معاشروں میں لا دینیت کے علمبردار کھلم کھلا اپنے عقائد کا پرچار کرنے کی فی الحال ہمت نہں کرپا رہے۔ تاہم شدید خطرہ بدستور موجود ہے ۔
ورکشاب کے تیسرے دن کا آغاز نوجوان مصنف مولانا تہامی بشر علوی کے ” قرآن کا ادبی پہلو ” کے موضوع پر خطاب سے ہوا۔ انہوں نے کہا کہ قرآن وحی الہی ہونے کے باعث زبان و بیان کا ایک معجزہ بھی ہے جس کی دنیا کبھی نظیر نہیں لا سکی ۔ انہوں نے اس ضمن میں کئی قرآنی آیات سے بھی استنباطات پیش کیے۔
اختتامی اجلاس کے مہمان خصوصی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ریکٹر ڈاکٹر محمد معصوم یٰسین زئی تھے۔ اس موقع پر مشیر تعلیمات وفاقی حکومت محمد رفیق طاہر ، ڈاکٹر سعد اللہ ، ڈاکٹر فرقان عباس، تہامی بشر علوی اور سید مزمل حسین نے بھی اظہار خیال کیا۔
ڈاکٹر معصوم یا سین زئی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا معاشرہ سیرت النبی ﷺ سے دور چلا گیا ہے اسی وجہ سے ہم اپنی قدرو قیمت کھو چکے ہین ۔ ہم اختلاف و انتشار سے اسی لیے دو چار ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے تاہم انہوں نے جامعۂ محمدی شریف اور اس کے بانیان مولانا محمد ذاکر اور مولانا رحمت اللہ کی مساعی کو سراہا اور جامعۂ محمدی اور اسلامی یونیورسٹی کے درمیان مشترکہ طور پر مزید سرگرمیوں کا بھی اعلان کیا۔ اس موقع پر دونوں اداروں کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت پر بھی دستخط کیے گیے ۔
جامعہ محمدی شریف کے قدیم طالب علم اور اردو دائرہ معارف اسلامیہ جامعۂ پنجاب کے سابق مدیر ڈاکٹر حافظ محمد سعداللہ کی صدارتی ایوارڈ یافتہ کتاب "خدا اور محبوب خدا” کی تقریب رونمائی بھی جامعہ محمدی شریف اور اقبال انسٹی ٹیوٹ کے مشترکہ ورکشاب کے آخری روز منعقد ہوئی ۔ اس موقع پر پنجاب یونیورسٹی کے ممتاز محقق ڈاکٹر فرقان عباس نے کتاب کے اسلوب بیان اور فنی محاسن پر روشی ڈالی۔
کتاب چھ(6) ابواب پر مشتمل ہے ۔ باب اول میں ” منصب رسالت ونبوت کی عظمت و انفرادیت ، باب دوم میں ” اللہ و رسول اللہ ﷺ کی یکجائی ، باب سوم میں ‘ حضور ﷺ کے ساتھ معاملہ – اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ” ، باب چہارم میں حضور ﷺ کا فعل۔ اللہ کافعل ” ، باب پنجم میں ” دفاعِ رسول اللہ ﷺ کے ربانی مناظر و نظائر ” اور ” باب ششم میں ” بارگاہ الہی میں حضور ختمی مرتبت ﷺ کی بندگی کا کمال” کے موضوعات پر اظہار خیال کیا گیا ہے ۔ یہ کتاب تحقیقی انداز میں لکھی گئی ہے ۔ 640 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 600 روپے ہے اور اسے دارالکتاب لاہور نے شائع کیا ہے۔
ورکشاپ کے ایک سیشن میں زیر تبصرہ آنے والی کتاب “Qur’anic and Biblical narrative discusses” ڈاکٹر ایاز افسر کے ڈاکٹریٹ کے مقالہ پر مشتمل ہے ۔ یہ کتاب بھی چھ ابواب پر مشتمل ہے ۔ ان ابواب میں قرآن اور بائبل کا کئی علمی نظریات کی روشنی میں موازنہ کیا گیا ہے ۔ متعدد مستشرقین اور اہل علم کی آراء کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ بڑے سے بڑا نقاد بھی قرآن کی حقانیت کو جھٹلا نہیں سکا۔ یہ کتاب 276 صفحات پر مشتمل ہے اور اس کی قیمت 500 روپے ہے ۔ کتاب ادارہ تحقیقات اسلامی فیصل مسجد نے شائع کی ہے ۔
جامعہ محمدی شریف میں ورکشاپ کے دوسرے دن نماز عشاء کے بعد ایک رنگا رنگ محفل مشاعرہ بھی منعقد کی گئی جس میں فیصل آباد اور سرگودھا ڈویژن کے نامور پنجابی اور اردو شعراء نے شرکت کی ۔ مشاعرہ کی نظامت ڈاکٹر ظفر اقبال جبہ نے کی جبکہ صدارت صاحبزادہ قمر الحق نے کی۔ مشاعرے میں جن شعراء نے سخن آزمائی کی ان میں الیاس گوندل ، حافظ محمد بخش، غلام شبیر انجم ، تہامی بشر علوی ، مختار بلوچ ، خالد اقبال خالد، غلام عباس ناسک کلیار ، عاقب سیالوی اور مہر الطاف بھروانہ شامل ہیں ۔ شعراء نے حمد، نعت ، منقبت، غزل سمیت کئی اصناف میں اپنی تخلیقات پیش کیں۔