10 دسمبر کو عالمی یومِ حقوقِ انسانی کے موقع پر منعقدہ کانفرنس میں، جس کی صدارت آزاد جموں و کشمیر کے صدر محترم جناب بیرسٹر سلطان محمود چودھری صاحب نے کی، مجھے کشمیر کے متعلق اہم قانونی سوالات پر بحث کا موقع ملا۔
میں نے ابتدامیں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے توفیق بخشی کہ کشمیر کے متعلق قانونی سوالات پر تین پی ایچ ڈی مقالے میری نگرانی میں لکھے گئے، اور یہ شرف پاکستان میں شاید مجھے ہی حاصل ہے۔پہلا مقالہ جناب ڈاکٹر ادریس عباسی صاحب (سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر) نے لکھا، دوسرا جناب سردار وقار خان عارف (چیئرمین، شعبۂ قانون، کوٹلی یونیورسٹی) کا تھا، جبکہ تیسرا مقالہ ابھی جناب راجا سجاد خان (لبریشن سیل، حکومت آزاد کشمیر) نے پورا کیا ہے۔
کانفرنس میں اپنی گفتگو میں نے تین قانونی سوالات تک محدود رکھی:
پہلا سوال: کشمیر کے مسئلے کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان اور آزاد کشمیر میں نوجوان نسل کو بالخصوص اس بارے میں کئی غلط فہمیاں لاحق ہیں۔ ان کی بہ نسبت مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کو اس تنازعے کی قانونی بنیادوں کا زیادہ بہتر فہم حاصل ہے۔
قانونی تجزیے کےلیےدرج ذیل قانونی دستاویزات کا مطالعہ بہت ضروری ہے:
- 1928ء کا معاہدۂ پیرس، جس کی رو سے یہ اصول طے پایا کہ قبضے کے ذریعے کسی ریاست پر ملکیت حاصل نہیں ہوسکتی، اور جلد یا بدیر قابض طاقت کو مقبوضہ علاقہ خالی کرنا پڑتا ہے، خواہ قبضے کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں ہوئی ہو، یا ختم ہوگئی ہو؛
- 1945ء کا اقوامِ متحدہ کا منشور جس کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 4، میں نہ صرف طاقت کے استعمال بلکہ اس کی دھمکی کو بھی ناجائز قرار دیا گیا؛
- 1947ء کا قانونِ آزادیِ ہند جس میں انگریزوں کے انخلا کے بعد برصغیر کی مختلف سیاسی اکائیوں کے مستقبل کےلیے اصول طے پائے؛
- 1947ء کا سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ جس کی رو سے کشمیر کے مہاراجا نے پاکستان کے ساتھ طے کیا کہ حالات جوں کے توں رکھے جائیں گے؛
- 1947ء کی دستاویزِ الحاق، جس کی رو سے مبینہ طور پر مہاراجا نے بھارت کے کشمیر کا الحاق کیا؛ اور
- 1948ء کی قراردادیں جو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس موضوع پر منظور کیں۔
اس کے بعد میں نے عرض کیا کہ ان قانونی دستاویزات اور متعلقہ قانونی اصولوں کا تجزیہ کیا جائے، تو طے پاتا ہے کہ الحاق کی کوئی قانونی حیثیت نہیں تھی، کیونکہ اس وقت تک مہاراجا کشمیر پر اپنا کنٹرول کھو چکا تھا اور نیز یہ دستاویز (اگر مصدقہ ہےتو) جبر اور اکراہ کی حالت میں لکھی گئی۔ مزید یہ کہ جب بھارت خود معاملے کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں لے گیا اور وہاں سے استصوابِ راے کو تسلیم کرلیا، تو قانونی طور پر وہ الحاق کے دعوے سے دستبردار ہوا اور اس کے بعد الحاق کی دستاویز کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔
نتیجہ یہ ہے کہ قانونی طور پر ریاستِ جموں و کشمیر ایک مقبوضہ علاقہ ہے جس پر بھارت نے غاصبانہ قبضہ کیا اور جس کا کچھ حصہ آزاد کرالیا گیا ہے (آزاد جموں و کشمیر اور گلگت-بلتستان)۔ یہ prolonged occupation کی بدترین مثال ہے۔
- اس نتیجے پر مزید کچھ نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ اگر یہ قبضہ ہے، تو
- حالتِ جنگ برقرار ہے، خواہ فائربندی ہوئی ہواور خواہ مزید مزاحمت نہ ہورہی ہو؛
- یہ بین الاقوامی تنازعہ ہے، نہ کہ بھارت کا اندرونی معاملہ؛
- بھارت کی حیثیت قابض طاقت کی ہے جو مقبوضہ علاقے کی آبادی کی ہیئت (demography) میں تبدیلی کا اختیار نہیں رکھتا؛
- مقبوضہ علاقے کے لوگوں سے قابض طاقت کی وفاداری کا حلف نہیں لیا جاسکتا۔
- مقبوضہ علاقے کے لوگوں کو قابض طاقت کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے کا حق ہے۔
دوسرا سوال: کیا یہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے؟
پچھلی بحث سے اس سوال کا جواب واضح ہے۔
اگر یہ قبضہ ہے، اور یقینا ہے، تو یہ بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ یہ بین الاقوامی مسلح تصادم ہے جس پر پورے کے پورے بین الاقوامی قانونِ جنگ یا قانونِ انسانیت (International Law of Armed Conflict or IHL)کا اطلاق ہوتا ہے۔
بعض لوگوں نے اسے بھارت کا اندرونی معاملہ قرار دینے کےلیے جو دلائل دیے ہیں، ان میں دو اہم دلائل کا تجزیہ ضروری ہے۔
پہلی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1957ء میں کشمیر میں (نام نہاد) انتخابات کے بعد وہاں کی اسمبلی نے بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا۔ تاہم ایک تو ان انتخابات اور ان کے نتیجے میں منتخب ہونے والی اسمبلی کی بین الاقوامی قانون کی رو سے کوئی حیثیت نہیں ہے، دوسرے، اس اسمبلی کی قرارداد کے بعد ایک دفعہ پھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھا اور وہاں سے قرارداد نمبر 122 منظور ہوئی جس کی رو سے طے پایا کہ یہ انتخابات اس استصوابِ راے کا متبادل نہیں جس کا فیصلہ 1948ء میں ہوا تھا۔ چنانچہ معاملہ جوں کا توں رہا۔
دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ 1972ء کے شملہ معاہدے نے کشمیر کو دوطرفہ تنازعے میں تبدیل کرلیا۔ یہ دعوی بھی قطعی بے بنیاد ہے۔ 1972ء میں جب یہ معاہدہ طے پارہا تھا، اس وقت پاکستان کی پوزیشن انتہائی کمزور تھی لیکن اس کے باوجود اس معاہدے میں صراحت کے ساتھ قرار پایا کہ فریقین کی قانونی تعبیرات پر اس معاہدے سے کچھ اثر نہیں پڑے گا اور یہ کہ کوئی فریق صورت حال میں یک طرفہ تبدیلی نہیں کرے گا۔ اس معاہدے کی اور بھی کئی باتیں اہم ہیں، جیسے بین الاقوامی سرحدات اور لائن آف کنٹرول کا الگ ذکر۔ بہرحال، یہ بات قطعی بے بنیاد ہے کہ اس معاہدے نے اقوامِ متحدہ کی قراردادیں غیر متعلق کردیں۔ یہ بھارت کا پروپیگنڈا ہے جسے ہمارے ہاں بعض لوگوں نے ناسمجھی میں (اور بعض نے ذاتی مفادات کی خاطر) فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
اس کے ساتھ اس دلیل کا بھی اضافہ کیجیے کہ کشمیر تو خیر مقبوضہ علاقہ ہے، اگر کوئی ریاست اپنے ہی علاقے میں اپنے ہی لوگوں کے خلاف اس طرح کے مظالم ڈھائے جیسے بھارت مسلسل کشمیر میں ڈھارہا ہے، تو معاصر بین الاقوامی قانون کی رو سے یہ اس ریاست کا اندرونی معاملہ نہیں رہتا بلکہ بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں بین الاقوامی قانون براے حقوقِ انسانی نے ریاست کے اقتدارِ اعلی (sovereignty) کا پرانا تصور تبدیل کرلیا ہے اور اب اسے "تحفظ کی ذمہ داری” (responsibility to protect)کا عنوان دیا جاتا ہے۔
نیز یہ امر بھی بین الاقوامی قانون کی رو سے مسلمہ ہے کہ اگر کسی ریاست کے اندرونی معاملات سے بین الاقوامی امن کو خطرہ ہو، تو وہ بین الاقوامی مسئلہ بن جاتا ہے۔ (دیکھیے، اقوامِ متحدہ کے منشور کی دفعہ 2، ذیلی دفعہ 7 اور دفعہ 39۔) اب یہ امر کس سے پوشید ہے کہ کشمیر دو نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان خطرناک جنگ کا سبب بن سکتا ہے، اور کئی دفعہ بن چکا ہے۔ اس لیے اسے کسی طور پر بھی بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں کہا جاسکتا۔
تیسرا سوال: ہمیں کون سے قانونی راستے دستیاب ہیں؟
سب سے پہلے تو ہمیں اپنے بنیادی تصور کو درست کرنا ہوگا۔ یہ مسئلہ صرف پاکستان اور بھارت کا نہیں، بلکہ اس میں اصل فریق کی حیثیت کشمیریوں کو حاصل ہے جنھیں پاکستان ایک غاصب ریاست کے قبضے سے آزادی حاصل کرنے میں مدد فراہم کررہا ہے۔ اس زاویے سے آزاد جموں و کشمیر کےلیے آزادی کے بیس کیمپ اور اس کی حکومت کو "جلاوطن حکومت” کی حیثیت تسلیم کرنی ہوگی۔ یہ بالکل اسی طرح کا معاملہ ہوجائے گا جیسے دوسری جنگِ عظیم میں جرمنی نے فرانس پر قبضہ کیا، تو اس کی جلاوطن حکومت قائم کی گئی اور برطانیہ وغیرہ نے اس کی مدد کی اور آہستہ آہستہ فرانس کو جرمنی کے قبضے سے چھڑایا گیا۔ بین الاقوامی فورمز پر آزاد کشمیر کی حکومت کو اسی طرح آگے رکھ کر پاکستان اس کے پشتیبان کا کردار ادا کرے، تو یہ معاملہ زیادہ مؤثر طریقے سے دنیا کے سامنے اٹھایا جاسکتا ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ صرف کشمیریوں کا مسئلہ ہے اور پاکستان کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں پہلے ہی مختلف مواقع پر تفصیل سے واضح کرچکا ہوں کہ کشمیر پاکستان کےلیے کیسی اہمیت رکھتا ہے اور کشمیر کے بغیر پاکستان کو کیسے بقا اور وجود کا سوال لاحق ہوجاتا ہے۔
باقی رہا قانونی راستوں کا سوال، تو بہت سے امکانات موجود ہیں۔ سوال امکانات کا نہیں، عزم اور منصوبہ بندی کا ہے۔
اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں نہ سہی، لیکن جنرل اسمبلی میں کشمیر کا مسئلہ اٹھایا جاسکتا ہے جہاں ویٹو کی رکاوٹ بھی حائل نہیں ہے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر دباؤ بڑھانے میں مدد ملے گی۔
حقوقِ انسانی کی پامالی کے پہلو سے تو بہت بات ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے لیکن جیسا کہ تفصیل سے واضح کیا گیا، یہ صرف حقوقِ انسانی کی پامالی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ پامالی مقبوضہ علاقے میں قابض طاقت کی جانب سے ہورہی ہے، اس لیے یہ جنگی جرائم بھی ہیں۔ اس پہلوکو خصوصا دنیا کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
ان جنگی جرائم کو کئی فورمز پر اٹھایا جاسکتا ہے جن میں ایک فورم بین الاقوامی فوجداری عدالت کا بھی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان اور بھارت میں کسی نے اس عدالت کے منشور کی توثیق نہیں کی ہےاور یہ بھی صحیح ہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس معاملے کو اس عدالت کی طرف بھیج دے گی، لیکن اس عدالت میں مقدمہ شروع کرنے کا ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ اس عدالت کے پراسیکیوٹر کے پاس اگر ثبوتوں اور شواہد سمیت وافر مقدار میں جنگی جرائم کی شکایات جمع ہوجائیں، تو اس پر لازم ہے کہ وہ ان کا جائزہ لے اور اگر وہ مطمئن ہو کہ بظاہر مقدمہ بنتا ہے، تو وہ عدالت میں مقدمہ شروع کرانے کی کارروائی کرسکتا ہے۔ اگر اپنی مصلحتوں کی بنا پر پاکستان کی حکومت اس پہلو سے کام نہ کرے، تو یہ کام عام افراد بھی کرسکتے ہیں اور بالخصوص دنیا کے مختلف ممالک میں موجود کشمیری (diaspora) اس میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کی جامعات، بالخصوص ان کے شعبہ ہاے قانون، کشمیر کے مسئلے کے قانونی پہلووں پر تحقیق میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔