مسلم لیگ نون کی لیڈر مریم نواز صاحبہ گزشتہ ایک ہفتے سے خبروں میں ہیں۔ ان کے صاحبزادے جنید صفدر کی شادی کی تقریبات کی متعدد تصاویر مین اسٹریم میڈیا کو ارسال کرنے کے ساتھ ساتھ پورے اہتمام سے سوشل میڈیا پر بھی نشر کی جارہی ہیں۔ یوں تو کہنے کو یہ شریف خاندان کی ایک نجی تقریب ہے اور اس بارے میں مریم نواز صاحبہ کا ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا کہ میڈیا کو ان کی پرائیویسی کا خیال رکھنا چاہیئے مگر جس طرح اہتمام سے ان تصاویر کو اجاگر کیا گیا اس سے صاف واضح ہے کہ مریم نواز صاحبہ خود بھی اس تقریب کو ایک خاص زاویہ سے نجی نہیں رکھنا چاہتی تھیں۔ ہم اس تقریب اور اس سے جڑے معاملات پر کوئی تبصرہ نہ کرتے اگر معاملہ محض ایک شادی کی تقریب کا رہتا۔
بدقسمتی سے یہ معاملہ محض ایک شادی کی تقریب سے بڑھ کر خود نمائی، بے پردگی اور شرعی احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی شکل اختیار کر گیا ہے جس پر خاموش رہنا اس لحاظ سے بھی درست نہیں کہ اس سیاسی جماعت اور مریم نواز صاحبہ کے ساتھ دیندار مذہبی افراد اور تنظیمیں بھی کھڑی نظر آتی ہیں۔ ان افراد اور تنظیموں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ مسلم لیگ نون کو سیاسی میدان میں جس طرح نظریہ پاکستان اور اسلام کا خیرخواہ بتا کر حمایت کی جاتی ہے، اسی طرح اس جماعت کے قائدین کی دینی اقدار سے روگردانی پر سرزنش کرتے ہوئے ان حرکات سے بیزاری کا بروقت اظہار کیا جائے۔
مریم نواز صاحبہ اور کپٹن صفدر کے بیٹے کی شادی کی تقریبات کی تصاویر کو جس طرح وائرل کیا گیا وہ شرعی لحاظ سے تو قابل اعتراض ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ شریف خاندان کی روایات سے بھی مطابقت نہیں رکھتا۔ میاں نواز شریف نے اس سے قبل اقتدار میں ہوتے ہوئے بھی اپنی اولاد کی شادیاں کیں مگر کم از کم ہمارے علم کی حد تک ان تقریبات کو مکمل طور پر نجی رکھا گیا اور میڈیا پر خاندان کی خواتین کی تصاویر کو اس طرح نہیں مشتہر کیا گیا جس انداز میں تماشا اس بار لگایا گیا ہے۔
مریم نواز صاحبہ مسلم لیگ نون میں میاں نواز شریف کی جانشین سمجھی جاتی ہیں۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں میاں صاحب کی سیاسی وراثت کے ساتھ ساتھ ان کی شرافت اور حیا کی اقدار پر مبنی خاندانی روایات کو بھی آگے بڑھ کر اختیار کرنا چاہیئے۔ خود کو لبرل بنا کر پیش کرنا اور غیر ضروری نمود و نمائش جس میں محترمہ کی شخصیت کو اس انداز میں فوکس کیا جائے کہ وہ دلہا کی والدہ سے زیادہ ایک سیلیبرٹی آئیکن کے طور پر نمایاں ہوں کسی طور پر درست اور مناسب بات نہیں ہے۔ دینی لحاظ سے تو ان خرافات کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ مروجہ سماجی روایات میں بھی اس طرز عمل کو کسی طور پر باوقار قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مریم نواز صاحبہ کے قریبی حلقے انہیں مستقبل کی وزیراعظم کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جو سیاسی مذہبی قوتیں اس وقت مسلم لیگ نون کے ساتھ سولین بالادستی اور جمہوریت کی پاسداری کی جدوجہد کر رہی ہیں ان کے لئے ایک بڑی آزمائش آنے والے دنوں میں کھڑی ہونے جا رہی ہے۔ مریم نواز صاحبہ کا ڈسکورس اور عمل اپنی ساخت اور نوعیت میں مکمل طور پر ایک لبرل ڈسکورس کی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ دینداری اور دینی اقدار کے ساتھ وابستگی کی وہ روایت یہاں مفقود ہوتی جا رہی ہے جو شریف خاندان کا خاصہ سمجھی جاتی تھی۔ اس حوالے سے میاں نواز شریف صاحب اور ان کے ساتھ کھڑے دیگر راہنماؤں کو از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔