پاکستانی جامعات میں فیکلٹی کی ریگولر بنیادوں پر تعیناتی کے اس وقت دو مختلف ماڈلز کام کر رہے ہیں۔ پہلا اور قدیمی ماڈل بیسک پے اسکیل (بی پی ایس) پر تعیناتی کا ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی تشکیل سے قبل یہی ماڈل ریگولر فیکلٹی کی تعیناتی کے واحد نظام کے طور پر نافذ تھا۔ دوسرا ماڈل ٹینیور ٹریک سسٹم یا ٹی ٹی ایس کا ہے جسے مشرف دور میں ایچ ای سی کی تشکیل کے ساتھ ہی نافذ کیا گیا تھا۔ سردست ہم اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتے کہ ان دونوں متوازی نظاموں کو چلانے کے پیچھے کیا منطق کارفرما تھی اور جن وجوہات کی بنا پر ٹی ٹی ایس کا نظام متعارف کروایا گیا تھا، وہ کتنے حقیقی و مصنوعی عوامل پر مشتمل تھیں۔ اس وقت یہ دونوں دھارے پبلک سیکٹر جامعات میں ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔
جوں جوں ٹی ٹی ایس کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے اس سے بیسک پے اسکیل پر کام کرنے والے اساتذہ کے درمیان بے چینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ٹی ٹی ایس پر کام کرنے والے اساتذہ کو بھی اس سسٹم سے کافی شکایات رہی ہیں مگر ایک چیز جو اس سسٹم میں بڑی موثر رہی ہے اور وہ ہے ٹی ٹی ایس فیکلٹی کے پروموشن کا ایک مربوط اور واضح طریقہ کار۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ وہ اساتذہ جو اسسٹنٹ پروفیسرز کے طور پر جامعات میں ٹی ٹی ایس پر آئے تھے وہ بمشکل دس گیارہ سال کے عرصے میں فل پروفیسرز بن چکے ہیں۔ اس کے برعکس بیسک پے اسکیل پر کام کرنے والے اساتذہ کی اکثریت تمام تر شرائط پوری کرنے کے باوجود پروموشن یا اگلی سطح کی تعیناتی سے محروم ہے۔ ان اساتذہ کے لیے پروموشن پالیسی تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ انہیں ہر بار اگلے لیول پر ترقی پانے کے لئے نئے سرے سے جاب کے مشتہر ہونے، سکروٹنی کے پراسس، اوپن کمپیٹیشن اور سیلیکشن بورڈ کے مراحل وغیرہ سے گزرنا پڑتا ہے۔ ان اساتذہ کی ایک بڑی تعداد قواعد کے مطابق تعلیم’ تجربے اور تحقیق کی مطلوبہ شرائط پوری کرنے کے باوجود سالوں سے نئی اسامیوں کے مشتہر ہونے یا پھر سلیکشن بورڈز کے منعقد ہونے کی منتظر ہے۔
المیہ یہ ہے کہ اس دوران دیکھتے ہی دیکھتے کئی بیسک پے اسکیل اساتذہ سے جونئیر ٹی ٹی ایس فیکلٹی ممبران ترقی پا کر ایسوسی ایٹ پروفیسرز اور فل پروفیسرز بن چکے ہیں کہ اس سسٹم میں اسامیوں کے مشتہر ہونے کی کوئی قدغن نہیں ہے۔ جوں جوں ٹی ٹی ایس قدیم ہوتا جا رہا ہے اس سے بیسک پے اسکیل اساتذہ کی فرسٹریشن بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ٹی ٹی ایس فکلٹی ممبر اگر بنیادی شرائط پوری کرے تو اس کی پروموشن میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس بیسک پے اسکیل فیکلٹی ممبرز شرائط مکمل ہونے کے باوجود سلیکشن بورڈز سے محض اس وجہ سے منتخب نہیں ہو سکتے ہیں ایک ہی اسامی کے مقابلے میں کئی اہل امیدواران موجود ہوتے ہیں۔
بیسک پے اسکیل پر کام کرنے والی فیکلٹی کے لئے یہ مسئلہ بھی سر اٹھا رہا ہے کہ ٹی ٹی ایس کیڈر کے لئے الگ سے اکیڈیمک پوزیشنز کو مختص نہیں کیا گیا۔ اس کا نتیجہ اکثر جامعات میں یہ نکل رہا ہے کہ ٹی ٹی ایس فیکلٹی ممبرز تیزی سے پروموشن لیتے ہوئے سینئر پوزیشنز پر براجمان ہوجاتے ہیں اور بیسک پے اسکیل فیکلٹی کی تعیناتی کے لئے کوئی اسامی ہی دستیاب نہیں ہوتی۔
ٹی ٹی ایس کی اس پروموشن پالیسی کے میچور ہونے سے ایک اور مسئلہ یہ سامنے آ رہا ہے کہ بہت سے ڈیپارٹمنٹس میں بغیر کسی تناسب اور فارمولا کے بڑی تعداد میں فل پروفیسرز جمع ہونا شروع ہوگئے ہیں اور اگلے کئی سالوں تک ان اسامیوں کے خالی ہونے کی کوئی امید موجود نہیں ہے۔ اس طرح کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں جونئیر و سینئر فیکلٹی کے تناسب کا جو پیرامڈ (Pyramid) بننا چاہیئے وہ مکمل طور پر ڈسٹرب ہو رہا ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ پاکستان بھر کی جامعات کے بیسک پے اسکیل فیکلٹی ممبران نے مل کر اس بارے میں آواز اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ان اساتذہ کے نمائندوں کی مشاورت سے ایچ ای سی نے ایک ڈرافٹ پروموشن پالیسی بھی جامعات کو ارسال کی ہے تاکہ اس پر آنے والے فیڈ بیک کی روشنی میں ایک حتمی پالیسی بنائی جا سکے۔ امید ہے کہ اس بارے میں جلد از جلد مثبت پیش رفت ممکن ہو سکے گی اور اگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا تو استحصال اور امتیازی سلوک پر مشتمل اس دوغلی پالیسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہی آخری آپشن ہوگا۔
(نوٹ: اس پوسٹ میں سردست ان اساتذہ کے مسائل کے بارے میں بات نہیں کی گئی جو بی پی ایس پر سالہا سال سے کام کر رہے ہیں اور کسی وجہ سے وقتا فوقتا ایچ ای سی کی عائد کردہ شرائط میں سے ایک آدھ شرط پوری نہ کرنے کی وجہ سے کئی سالوں سے stuck ہیں۔ ان میں بعض بہت ہی قابل اساتذہ بھی شامل ہیں جن کی ٹیچنگ کا شہرہ ہے مگر کیرئیر کے ایڈوانس مراحل پر وہ پی ایچ ڈی یا ریسرچ آرٹیکلز کی مطلوبہ شرائط کو بوجوہ پورا نہیں کرسکے)