ویب ڈیسک
تقریباً ایک دہائی پر محیط تناؤ کو ختم کرتے ہوئے ترکی کے صدر طیب اردوغان نے متحدہ عرب امارات پہنچے ہیں اور ماہرین کے مطابق اب وقت کے ساتھ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری آ رہی ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوغان نے متحدہ عرب امارات کے اپنے طے شدہ دورے سے قبل کہا تھا کہ امن کے اقدامات اور علاقائی تعاون کو آگے بڑھانے کا وقت آ گیا ہے۔صدر اردوغان کا اس تاریخی دورے پر ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زید النہیان نے استقبال کیا اور اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر اردوغان نے کہا کہ یہ دورہ ’متحدہ عرب امارات کے ساتھ اگلے پچاس برس کی دوستی اور بھائی چارے کی بنیاد رکھنے میں اہم ثابت ہو گا۔
خلیج ٹائمز کے مطابق صدر اردوغان نے اس بات پر زور دیا کہ ترکی اور اماراتی تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں اور ان کا دورۂ ابوظہبی دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور تعلقات میں مزید بہتری کا باعث بنے گا۔ترک خبر رساں ادارے انادولو کے مطابق اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان 13 معاہدے کیے گئے جن میں دفاع، تجارت، ماحولیاتی تبدیلی، صنعت اور میعشت سے متعلق اربوں ڈالر کے معاہدے شامل ہیں۔صدر اردوغان اس دورے کے دوسرے دن دبئی بھی جائیں گے جہاں وہ ایکسپو 2020 میں ترکی کے قومی دن کی تقریبات میں شرکت کریں گے۔صدر اردوغان کا میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ ’ہم اپنے برادر خلیجی ممالک میں سلامتی اور استحکام کو اپنے ملک کی سلامتی اور استحکام سے کسی صورت کم نہیں سمجھتے۔‘
ترک مصنف اور تجزیہ کار علی اوزترک نے صدر اردوغان کے متحدہ عرب امارات کے دورے کی حکمت عملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترکی نے اس دورے کے لیے اچھی تیاری کی ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اس کا ثبوت کچھ ہفتے قبل ترکی کے وزیر خارجہ کی دبئی کے حکمران شیخ محمد بن راشد المکتوم سے ہونے والی ملاقات اور ترکی کے سپیکر کا ایک بڑے اقتصادی وفد کی سربراہی میں خلیجی امارات پہنچنا ہے۔‘یاد رہے کہ صدر اردوغان اور ان کی اہلیہ متحدہ عرب امارات کے طے شدہ دورے سے صرف 10 دن قبل کورونا وائرس کا شکار ہو گئے تھے۔ تاہم انھوں نے ٹوئٹر کے ذریعے اپنی صحتیابی کی اطلاع دی اور اس دورے کے متعلق تمام خدشات کو دور کر دیا۔ترک ایوان صدر کے انفارمیشن آفس نے بتایا ہے کہ صدر اردوغان اور متحدہ عرب امارات کے شاہ محمد بن زاید کے درمیان اس دورے میں سرمایہ کاری، دفاع، ٹرانسپورٹ، صحت، زراعت، زمینی اور سمندری نقل و حمل کے شعبوں میں تعاون پر مفاہمت کی یادداشت کے 12 معاہدوں پر دستخط کیے جائیں گے۔
ترکی اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات ’عرب سپرنگ‘ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کی وجہ سے کشیدہ ہو گئے تھے۔ دونوں ممالک لیبیا کے تنازعے میں بھی مختلف فریقوں کا ساتھ دے رہے تھے۔ماضی میں انقرہ ایک سے زیادہ مرتبہ ابوظہبی پر کرد ملیشیا کی حمایت کا الزام بھی عائد کر چکا ہے۔ ترکی نے متحدہ عرب امارات پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ شمالی شام، یونان، قبرص اور اسرائیل کے ساتھ اتحاد بنا کر کرد ملیشیا کو پیسہ اور ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ترک مصنف اور سیاسی تجزیہ کار فراس ردوان اوغلو کا خیال ہے کہ ماضی کی یہ تمام باتیں ابوظہبی میں اردوغان اور محمد بن زاید کے درمیان ملاقات میں گفتگو کا موضوع رہیں گی۔کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اگر دونوں رہنما کسی معاہدے تک پہنچنا چاہتے ہیں تو اس کے اردگرد مشترکہ سیاسی بنیاد تلاش کرنا ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بنیاد بنے گا۔
ایسا لگتا ہے کہ صدر اردوغان نے، جو اپنے ملک میں اقتصادی بحرانوں کا سامنا کر رہے ہیں اور یہ بحران اگلے برس ہونے والے انتخابات میں ان کے تیسری مرتبہ صدر بننے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، فیصلہ کیا ہے کہ خطے میں ترکی کے مخالفین کے ساتھ تنازعات کو ختم کر کے ایک نیا راستہ کھولا جائے۔وہ خطے کے ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون پر مبنی تعلقات قائم کرنے اور ترکی کو علاقائی مسائل میں ایک ضروری اور قابل قبول کھلاڑی کے طور پر تسلیم کروانے کے لیے کوشاں ہیں۔
چند ہفتے قبل، صدر اردوغان نے ترکمانستان میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اپنے ابوظہبی کے دورے کے بارے میں کہا تھا کہ ’میں جلد ہی ایک بڑے وفد کی سربراہی میں یو اے ای کا دورہ کروں گا جہاں ہم کچھ اہم اقدامات اٹھائیں گے۔یو اے ای نے 10 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ ایک اہم قدم اٹھایا ہے اور ہم اس پر عمل درآمد کر کے ایک مختلف مستقبل کی تعمیر کریں گے، اور اس سلسلے میں مثبت پیش رفت ہو گی۔‘اردوغان نے مصر اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’یو اے ای کے ساتھ جو بھی قدم اٹھایا گیا، ہم دوسروں کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔‘صدر اردوغان کے دفتر نے تصدیق کی تھی کہ اسرائیلی صدر رواں ماہ انقرہ کا دورہ کریں گے۔ صدر اردوغان رواں ماہ کے آخر میں سعودی عرب کا بھی دورہ کرنے والے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ابوظہبی سے ایک بڑی سفارتی تحریک شروع کریں گے اور اس میں دیگر ممالک بھی شامل ہو سکتے ہیں۔
اب جب متحدہ عرب امارات اور ترکی اپنے تنازعات کی تاریخ مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں تو میڈیا میں بیانات میں بھی نرمی آئی ہے اور ان خبروں کی ویب سائٹس سے بھی پابندی ختم کی جا رہی ہے جن پر پہلے رسائی ممنوع تھی۔متحدہ عرب امارات اور ترکی کے مرکزی بینکوں نے الگ الگ بیانات میں کہا ہے کہ انھوں نے تقریباً پانچ بلین ڈالر کا مشترکہ کرنسی ایکسچینج کا معاہدہ کیا ہے، جو انقرہ کو درپیش اقتصادی مشکلات میں مدد کا ایک ممکنہ ذریعہ فراہم کرے گا۔دونوں ممالک کے مرکزی بینکوں کے مطابق یہ معاہدہ تین سال تک جاری رہے گا تاہم اس میں توسیع کا امکان بھی ہے۔گذشتہ برس 25 نومبر کو، ابوظہبی پورٹس گروپ اور ترکی کے خود مختار دولت فنڈ نے سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے، بندرگاہوں کو ترقی دینے اور ترکی میں لاجسٹک سیکٹر میں سرمایہ کاری کے متعدد منصوبوں کے لیے مشترکہ کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے ایک سٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ابوظہبی سیکیورٹیز ایکسچینج نے استنبول سٹاک ایکسچینج کے ساتھ شراکت داری کا معاہدہ بھی کیا تھا جس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سٹریٹجک تعاون کو بڑھانا اور متحدہ عرب امارات اور ترکی میں مالیاتی خدمات کے شعبے کو ترقی دینا ہے۔
بہت سے لوگ توقع کرتے ہیں کہ اردوغان اور محمد بن زاید کی ملاقات کے دوران دفاعی صنعتوں کے شعبوں میں تعاون کے امور انتہائی اہمیت کی حامل ہوں گے۔ کیونکہ ترک میڈیا کے مطابق، ابوظہبی اس سلسلے میں انقرہ کے ساتھ اہم شراکت داری کرنا چاہتا ہے۔لیکن یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب یہ واضح نہیں ہے کہ ہر فریق دوسرے کو کیا سیاسی قیمت پیش کرے گا۔دونوں ممالک کے درمیان علاقائی مسائل کو لے کر بہت زیادہ اختلافات ہیں، چاہے وہ شام، لیبیا، یمن، ایران میں ہوں یا کہیں اور۔لیکن امن کے اقدامات، تعاون اور ایک ویژن کے بارے میں اردوغان کی گفتگو سے پتا چلتا ہے کہ یہ دورہ ایک مشترکہ اور مضبوط آغاز اور تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔