کیا زمانہ آ گیا! انسانی زندگی کو مطلوب کے مطابق بہتر بنانے کے لیے ’’عقلِ سلیم‘‘ کے بعد اور ساتھ اشرف المخلوق حضرت انسان کے سب سے بڑے قدرتی وصف ’’ابلاغ‘‘ کا کردار عقل کے برابر آن کھڑا ہوا ہے۔اب بڑھتی تشویش و خطرات یہ پیدا ہو گئے کہ انسان کو عقل و ابلاغ کا یہ بیش بہا حاصل سنبھالنا محال ہو رہا ہے اور انسان اس عقل و ابلاغ سے ہی تہذیب یافتہ دنیا کو پھر سے ہلاکت و تباہی ، جنگ وجدل، ظلم وجبر، اتفاق و انتشار، تعصب و تنگ نظری کی دنیا بنانے پر تل گیا ہے ۔
پستی کی انتہا اور درجہ حاصل (اور اب کھوئی ہوئی ) ترقی و تہذیب کی کامیابی کامرانیوں سے کوئی کم نہیں، اس سے بڑھ کر ہی واضح ہو رہا ہے کہ اتنی ترقی و کمال کے بعد اور مسلسل جاری رہتے ہوئے اس کا رخ تبدیل کرکے احترامِ آدمیت کی رسوائی کی طرف موڑ دینا بذات خود ہیومن سولائزیشن کا قیامت خیز ڈیزاسٹر ہے جو ہم انسان عقل و ابلاغ کے استعمال سے مطلب و مرضی کے اہداف پر مکمل اور مسلسل انہماک کے ساتھ کرتے اپنی اپنی مذہبی، نسلی اور علاقائی اور قومی ’’برتری‘‘ پر نازاں ہیں ۔
اس سے بڑھ کر انسان کی گمراہی اور خسارہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ کچھ کے لیے اس دلچسپ اور فکرمندانہ اور کچھ کے لیے بور اور لاحاصل اظہارِ خیال کا مقصد مسلسل نئی بنتی و بگڑتی دنیا میں ابلاغ کی انسانی، عالمی اور قومی سے لیکر گھروں، محلے اور دفتروں ،بازاروں میں ہونے والے ابلاغ سے تشکیل پانے والے قومی ابلاغی دھارے کی موجود کیفیت حاصل و لاحاصل فوائد و خسارے کی طرف متوجہ کرانا اور ہوش دلانا ہے، جو بحیثیت عالمی معاشرہ کھوتا جا رہا ہے۔
اب تو آزاد اقوام کے اندر ہی آزادی اور عالمی امن سے زیادہ آزادی اور علاقوں میں تیسری جنگ عظیم کی باتیں ہو رہی ہیں۔عالمی سیاسی ابلاغ اور انٹرنیشنل میڈیا کی خبروں و تجزیوں میں ان کی فری کوئنسی بڑھتی جا رہی ہے گلوبل کمیونیکیشن فلو ہی نہیں امریکہ چین و روس ، پاکستان و بھارت عرب و ایران جیسے عالمی و علاقائی سیاست کے سرگرم ممالک کے عالمی سطح کا ابلاغ تو ایک طرف نیشن ٹو نیشن نیشنل کمیونیکیشن میں بڑا تلاطم پیدا ہو کر یہ پر خطر بنتا جا رہا ہے۔
آئیں! ہم اس مختلف سطح کے بگڑتے ابلاغی دھاروں کے تناظر میں اپنی تو نبیڑیں،ریاست کے کرتا دھرتوں اور پوری قوم کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ قیامِ پاکستان کے تین چار بنیادی محرکات میں سے ایک پوٹینشل مسلمانانِ ہند کا تشکیل دیا ابلاغی معاونت کا وہ نظام تھا جس نے تحریک کی پراثر معاونت کرنے مسلم صحافت، ادب و شاعری اور خطابت کی شکل میں حاصل ہدف میں تاریخ ساز کردار ادا کیا پھر پاکستان بننے میں شروع ہوئے سیاسی عمل میں جو بگاڑ آیا اور سازشی درباری خاندانی سیاست اور مارشل لائوں کا تادم سلسلہ شروع ہوا اس میں قومی سیاست کے تمام تر امراض کے باوجود پاکستانی مخصوص محدود میڈیا نے حکمرانوں کی مزاحمت اور مرضی کے خلاف حاصل شدہ آزادی و بیباکی سے جو پیشہ ورانہ کردار ادا کیا اس میں غیر آئینی اور بیمار حکومتوں کے غلبے کے باوجود سوسائٹی اور جزوی عملی سیاست کی حد تک جمہوریت کو کسی نہ کسی شکل میں اور کسی نہ کسی حد تک بچائے رکھا ۔
سماجی سیاسی اور اقتصادی ترقی میں اس کا کردار سوا ہے لیکن ہر دور میں حکمرانوں کےستم اور ’’مہربانیاں‘‘ میڈیا کا نصیب ہی رہیں نہ بھولا جائے کہ محدود سے آزاد اور سرکاری میڈیا نے جنگ ستمبر میں دفاع وطن کے محاذ پر بہادر افواج کے شانہ بشانہ قوم اور فوج کا مورال بلند رکھنے میں برابر کا کردار ادا کیا ۔2000سے تاحال گزشتہ دو عشروں میں پاکستان کے قومی میڈیا کا حجم تو ہماری ضرورت کی حد تک بڑھ گیا اس کا جاری مجموعی ایجنڈا قابل بحث و اصلاح ہے پروفیشنلزم اور گرومنگ کے حوالے سے جملہ مسائل بہت واضح ہیں لیکن عوامی بیداری ان کی ایمپاورمنٹ بڑھانے، گورننس پر نظر اور خامیوں کی جمہوریت کے تحفظ اور آمرانہ مزاجی کی نشاندہی اس کی خدمات قابل اطمینان حد تک جاری و ساری ہیں۔
بیمار سیاسی عمل کی اصلاح اور آئین و قانون شکنی کی بروقت نشاندہی کرپشن کے خلاف اس کا احتسابی سا انداز جسے روایتی سیاست میڈیا ٹرائل کہتے ہیں ، مقتدر حلقوں کی مداخلت کو آشکار کرنے میں مہارت اس کے پیشہ ورانہ کردار میں مثبت ہے۔ان دو عشروں میں حکومت میڈیا تعلقات نے اتارچڑھائو کے ساتھ اب بڑا خلا ہو چکا ہے ان ادوار کی چاروں حکومتوں نے میڈیا کو دبانے اور مرضی سے چلانے کے نئے نئے پریشر ٹولز استعمال کئے ۔اور اس کا گراف بڑھتا جا رہا ہے حتیٰ کہ دیوانی مقدمات بنا کر مالکان اور چیف ایڈیٹران اور سینئر صحافیوں کو کئی کئی ماہ کی اسیری میں لایا گیا موجودہ حکومت نے وہ حدیں عبور کیں جوپہلے کبھی نہ ہوئی تھیں ۔
اس پس منظر میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فوجداری طرز کے جو نئے میڈیالاز متعارف کرائے جا رہے ہیں اس میں صحافی تنظیموں، ماہرین اور ابلاغی اداروں کےساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوئی ۔رہا سوشل میڈیا یقیناً بے قابو ہوتا یہ نرالا میڈیا اپنی درست سمت کے تعین کے لیے قانون سازی سے لیکر اور بہت سے انتظامی علمی نوعیت کے اقدامات کا متقاضی ہے یہ سوشل میڈیا یقیناً پگڑی اچھال بنتا جا رہا ہے ضرورت ہے اسے سٹیزن جرنلزم کا صحت مند ذریعہ ابلاغ بنایا جائے۔
ایک بہت بڑا بگاڑ یہ ہے کہ اپوزیشن اور قانون ساز حکومت نے بے حد آلودہ سیاسی ابلاغ سے میڈیا سے تیار ہونے والے قومی ابلاغی دھارے کے غالب حصے کو سوال بنا دیا حکومت نے جس انداز میں اور جس تیزی سے میڈیا لاز متعارف کرائے ہیں وہ قانون سازی میں اس کی جلدبازی کا واضح عکاس ہے ۔میڈیا کو چاہئے کہ وہ ٹاک شوز میں میڈیا لاز میں تبدیلی اور نئے قوانین پر خود مکالمے کا انتظام کرے۔ حکومت نے اپنی محدود سمجھ اور ابلاغیات کے حوالے سے اپنی مکمل نااہلیت سے جو کرنا تھا کر دیا یہ تو حکومت کو جب پتا چلے گا جب کبھی وہ اپوزیشن بنے گی کہ وہ کیا کر بیٹھے۔