سلیم احمد حیات تھے تو اردو دنیا میں ان کا سکہ چلتا تھا۔ شعر، تنقید اور سرکاری نشریات غرض کسی گھر بند نہیں تھے۔ اس پہ طرۂ یہ کہ فکری طور پر غالب ریاستی بیانیے کے دو ٹوک حامی تھے۔ فن اور اقتدار میں اساسی کشمکش پائی جاتی ہے۔ فن انسان کے ارتفاع کی جہد ہے اور اقتدار شرف انسانی پرجبر کی پاڑ لگانے کی صنعت ہے۔ اورنگ زیب مغل سلطنت کے عروج کا نشان نہیں، دارا شکوہ اور سرمد کاشانی کے خون ناحق سے مغل سلطنت کے زوال کا پیش لفظ ہے۔ فرخ سیر کا کہیں نشان نہیں اور جعفر زٹلی کی موت بھی زندہ لفظ کا استعارہ ہے۔
خلق خدا نے کبھی اقتدار کو الفت کے قابل نہیں سمجھا، تخلیقی دماغ ہی کو محبت کی سبز شاخ عطا کی۔ سلیم احمد کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔ ہنر کی پختگی اور جذبے کی سچائی میں کلام نہیں تھا لیکن تاریخ کے غبار میں اوجھل ہو گئے۔ کیسا کیسا بولتا ہوا مصرع محمود اعظم فاروقی کی مشاورت میں دفن ہو گیا۔’دلوں میں درد بھرتا آنکھ میں گوہر بناتا ہوں، جنہیں مائیں پہنتی ہیں میں وہ زیور بناتا ہوں‘۔’جا کے پھر لوٹ جو آئے وہ زمانہ کیسا‘۔ ’مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا‘۔ آتے جاتے موسموں سے لیکن ڈرتے رہنا چاہیے۔ دراصل ہندوستانی مسلمان کے ساتھ یہ واردات گزری کہ دلی کے مفروضہ سقوط کے سوگ میں جدیدیت سے عداوت پال لی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد مغرب میں جدیدیت کا ردعمل سامنے آیا تو ہمیں گمان گزرا کہ اسطور، داستان اور سائنسی قطعیت سے گریز کے رجحانات شاید مشرق کے احیا کا پیش خیمہ ہیں۔ ایسا نہیں تھا۔
مابعد جدیدیت کی دنیا اسی علمی اور سیاسی اقلیم سے تعلق رکھتی تھی جس نے جدیدیت کے جملہ زاویے برت رکھے تھے۔ ان دنوں ہمارے کچھ اساتذہ ادب کی مابعد نوآبادیاتی تفہیم پر لہلوٹ ہو رہے ہیں۔ اصحاب فکر کو پابند نے تو نہیں کیا جا سکتا لیکن سوال بہرصورت موجود ہے کہ کیا ہمارا ملک نوآبادیاتی عہد سے باہر نکل آیا ہے؟ یہ سوال بنیادی طور پہ سیاسی ہے لیکن جو آنکھ شعر کے قطرے میں سیاست کا دجلہ نہیں دیکھ سکتی، اس کی بصیرت پر سوال تو اٹھے گا۔ اس اختلاف نما رائے سے ایک قدیم لوک داستان کا سرا نکل آیا ہے۔
خوابیدہ شہزادی کی کہانی کے ابتدائی خدوخال چودھویں صدی کے مغربی ادب میں بھی ملتے ہیں۔ سترہویں صدی میں اطالوی ادیب جامبا تستا باسیلے (Giambattista Basile) نے اس اساطیری کہانی کو پھیلا کر بیان کیا۔ بدقسمت شہزادی، کینہ صفت چڑیل اور سوئے ہوئے محل میں یونانی المیے کے بے خبر بادشاہ کا کردار بھی شامل کیا۔ ایک حاسد ملکہ اور جاہ پسند مصاحب اس تمثیل میں داخل کیے۔ یوں ایک سیدھی سادی حکایت میں سو طرح کے زاویے پیدا ہو گئے۔ باسیلے نے Sleeping Beauty کو Sun, Moon and Talia کا عنوان بخشا۔ آپ چاہیں تو Talia کو اطالیہ کی تحریف بھی سمجھ سکتے ہیں۔ انتظار حسین فرماتے تھے کہ ’ہم نے تو داستانوں کو سیدھی سادی کہانی کے طور پر پڑھنا سیکھا تھا۔
بیسویں صدی میں گوپی چند نارنگ اور سہیل احمد خان جیسے پڑھے لکھے نقادوں نے بتایا کہ ان داستانوں میں سیاسی اشارے بھی پوشیدہ ہوتے ہیں‘۔ انتظار صاحب کا جملہ چاروں کھونٹ کی خبر لاتا تھا۔ کوئی اِس سے پوچھے کہ آخری آدمی، کایا کلپ، کٹا ہوا ڈبہ اور شہر افسوس جیسے افسانے کیا سیاسی اشاروں سے خالی ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انتظار حسین گیانی استاد کی طرح قاری کا امتحان لیتے تھے۔ چراغ حسن حسرت نوواردان ادب کا امتحان طلسم ہوشربا سے لیا کرتے تھے۔ انتظار حسین نے خود اپنے عہد کی طلسم ہوشربا تخلیق کی۔ داستان کی بنیادی خوبی یہی ہے کہ اس کا لفظ پرانا نہیں ہوتا اور بدلتے ہوئے عہد کے ساتھ نئے معنی پیدا کرتا ہے۔
آج کا پاکستان ایک سویا ہوا محل ہے۔ بظاہر ہر چیز وہیں رکھی ہے جہاں قوم کے آفاق پر جادو کی چھڑی گھمائے جانے سے پہلے رکھی تھی۔ سچ مگر یہ ہے کہ جون ایلیا کا شعرہمارے سوئے ہوئے محل کو بے مثل خوبی سے بیان کرتا ہے۔ ’نظر پہ بار ہو جاتے ہیں منظر / جہاں رہیو وہاں اکثر نہ رہیو‘۔ بائیس کرو ڑ عوام کی علامت شہزادی نامعلوم کس کونے میں سو رہی ہے۔ باسیلے سے پہلے لکھنے والوں کی حکایت کا نیک دل شہزادہ بہت دفعہ ہمارے دروازے پر آیا۔ کبھی باغ کے اندر قتل ہوا، کبھی پھانسی کی شاخ گرہ گیر میں جھول گیا۔ کبھی اسے جلاوطن کیا گیا تو کبھی با غ کے دروازے پر بارود سے دھواں کر دیا گیا۔ لہو کے نشان دھو دیے گئے مگر خلقت جانتی ہے کہ ہمارا سویا ہوا محل اب ایک بے نور پرانا مندر بن چکا ہے۔
نیز یہ کہ پس پردہ کوئی ساحر ہے جس نے آفاق پر سحر کا دام پھیلا رکھا ہے۔ یہ جو وقفے وقفے سے خاموش پانیوں پر لہریں مچل اٹھتی ہیں، یہ جادو ٹوٹنے کی آس کے نشان ہیں۔ ہمیں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ محل میں شاہی جوڑے کی سحر سازیاں کس مرحلے میں ہیں۔ البتہ یہ معلوم ہے کہ غلام دوڑتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر۔ ہم پر یہ مرحلہ ایک سے زیادہ بار گزرا ہے اور ہمارے خواب اس تسلسل سے جھوٹے پڑے ہیں کہ ہمیں اب یہ خبر بھی نہیں رہی کہ سویا ہوا محل جاگے گا تو یہاں آسکروائلڈ کے رحم دل شہزادے کی رونمائی ہو گی یا تلوار علم کیے ہوئے نادر شاہ نمودار ہو گا۔
جادوئی داستان کے یہ مناظر ہمارے اختیار سے باہر ہیں لیکن ہمارے دلوں کی محضر پر چند نکات کندہ ہیں۔ ہمیں محل کے بندوبست پہ اختیار چاہیے۔ ہمیں علم میں اپنا حصہ چاہیے۔ ہمارے ہاتھوں میں ہنر موجود ہے۔ ہمیں مٹی، لکڑی اور پتھر سے تخلیق کا موقع ملنا چاہیے اور یہ کہ قوموں کی برادری میں ہمارے سوئے ہوئے محل کو مرد بیمار کہہ کے یاد نہ کیا جائے۔ ہماری نیند طویل ضرور ہوئی ہے لیکن ’سو کے ہی نہ اٹھیں‘، ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔