مولوی محمد سعید کا نام اس ملک کے صحافیوں کے لئے مرشد باصفات اور گفتہ شیریں مقال کی تاثیر رکھتا ہے۔ ڈان اور سول اینڈ ملٹری گزٹ جیسے اخبارات سے مدتوں وابستہ رہے۔ پاکستان ٹائمز کے مدیر کے منصب سے پیشہ ورانہ زندگی کا اختتام کیا۔ اس صحافی کی عظمت میں کیا کلام جسے خالد احمد جیسے نابغہ روزگار صاحب علم نے اپنا استاد تسلیم کیا۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد کے برسوں میں مولوی صاحب کی صحافت اپنے نصف النہار پر تھی۔ بدقسمتی سے یہ وہی برس تھے جب پاکستان کی نوزائیدہ مملکت سیاست، معاشرت اور صحافت میں انتشار اور ابتذال کی روایات قائم کر رہی تھی۔
مولوی صاحب نے کراچی میں الطاف حسین اور زیڈ اے سلہری کی صحافتی بلند پروازیوں کا براہ راست مشاہدہ کیا۔ لاہور میں میاں افتخار الدین اور حمید نظامی کے شخصی کیف و کم سے ایسے آگاہ تھے کہ باید و شاید۔ مولوی صاحب کی تصنیف ’آہنگ بازگشت‘ اردو کی بہترین خود نوشت سوانح میں شمار ہوتی ہے۔ مولوی صاحب کی رائے سے کہیں کہیں اختلاف ممکن ہے لیکن ان کی دل آویز نثر، مشاہدات کی اصابت اور محاکات کے محاسن سے انکار نہیں ہو سکتا۔ پاکستان پر 7 اکتوبر 1958ء کی افتاد اتری تو مولوی صاحب سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ڈپٹی ایڈیٹر تھے۔ ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے۔
اگلی صبح (8 اکتوبر) کو محکمہ اطلاعا ت کے ڈائریکٹر عبدالخالق قریشی کے کمرے میں مدیران لاہور کی کانفرنس تھی۔ میں بھی شریک ہوا۔ کانفرنس میں ہر شخص گو جمہوریت کی موت پر افسوس ظاہر کر رہا تھا لیکن حمید نظامی صحیح معنوں میں غم ناک دکھائی دیتے تھے۔ ایسا محسوس کر رہے تھے جیسے ملک پر کوئی آفت ٹوٹ پڑی ہو …. کانفرنس ختم ہوئی تو حمید نظامی، مظہر علی خان اور راقم الحروف باہر لان میں آکر کھڑے ہو گئے۔ میں نے کہا جس دور کی آج ابتدا ہوئی ہے اس میں نئے اخباروں کا پنپنا بے حد دشوار ہو گا۔ اخباروں پر یکسانیت کا جو خول مارشل لا چڑھائے گا اس میں ایک اخبار کو دوسرے سے جدا کرنا مشکل ہو جائے گا۔ میرے نزدیک صحافت پھولوں کی کیاری ہے ، گھاس کا تختہ نہیں۔‘
تختہ گل کی بوقلمونی اور گھاس کی یک رنگی میں یہ نکتہ آفرینی مولوی صاحب ہی کا حصہ تھا۔ زوال کا سفر شروع ہو جائے تو اس کا رخ پھیرنا مچھلی پکڑنے کی ڈور سے دس ہزار ٹن وزنی سمندری جہاز کی سمت بدلنے جیسا مشکل ہوتا ہے۔ چند ماہ بعد اپریل 1959ء میں آمریت نے پروگریسو پیپرز پر شب خون مارا۔ سول ملٹری گزٹ ایک ہچکی لے کر خاموش ہو گیا۔ چودھری ظہور الہٰی اور سیٹھ داﺅد جیسے افراد نیشنل پریس ٹرسٹ کے نام سے قائم ہونے والے سرکاری نقارخانے کے مالک ٹھہرے۔ اس پر بھی تحکمانہ اقتدار کی کماحقہ تسکین نہیں ہو ئی تو 1960ء میں پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کا شکنجہ تخلیق کیا گیا جس میں سال بہ سال زنجیر کی ایک کڑی بڑھائی گئی۔ یہ تو ہوا لیکن صحافت اپنے خمیر میں حرف مزاحمت ہے۔
؎. زنجیر جنوں کڑی نہ پڑیو
دیوانے کا پاﺅں درمیاں ہے‘۔
صدیق سالک سے گواہی لیں تو مشرقی پاکستان میں مانک میاں کا اخبار’ اتفاق‘ اور انگریزی اخبار The People یحییٰ آمریت کی نظر میں ہدف کا درجہ رکھتے تھے۔The People کا دفتر تو 25 مارچ 1971ء کی رات جل کر راکھ ہو گیا لیکن اس کی اصل چنگاریاں مغربی پاکستان کی صحافت پر پڑیں۔ 17دسمبر 71ء کے روزنامہ ڈان کی شہ سرخی یحییٰ خان کا اعلان تھا War Till Victory اور اسی صفحے پر بائیں ہاتھ ایک دو کالمی خبر اعلان ندامت دے رہی تھی ۔Fighting Ends In East Wing ۔
بھٹو صاحب آزادی صحافت کی بات کرتے تھے لیکن ان کے ساڑھے پانچ برس صحافی کے لیے ہتھکڑی اور قلم کے لیے قدغن کا پیغام لائے۔ اس ’جمہوری روایت‘ کو ضیاالحق کے سیکرٹری اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمن نے اچک لیا۔ یہ تابع صحافت اور مزاحم قلم میں کشمکش تھی۔ قید ، کوڑوں اور عقوبت کی آزمائش جھیلنے والے مٹھی بھر سرپھروں کی بدولت آزاد صحافت کی روح سلامت رہی لیکن جسد صحافت میں سرطان نے ڈیرہ ڈال لیا۔
ء کی دہائی میں صحافت دور فاصلاتی حکمرانی کا بہترین آلہ کار ثابت ہوئی۔ سرپھرا قلم ملفوف اصطلاحات اور محتاط بیان کی دلدل میں الجھ گیا۔ ’باوثوق ذرائع‘ سے خبر دینے والے صحافی ’نامعلوم ذرائع‘ سے دولت بناتے رہے۔ جعلی خبروں اور گمراہ کن تجزیوں نے ایک پوری نسل کا سیاسی شعور مسخ کر ڈالا۔ کارگل کی جنگ میں جہاں ایک طرف مقامی صحافت کی منہدم ساکھ کے بین الاقوامی عواقب سامنے آئے تو دوسری طرف برقیاتی ٹیکنالوجی سے نوشتہ و گفتہ صحافت میں نئے در کھلے۔ عدلیہ کی تحریک نئی صحافت کی طاقت کا کھلا اظہار تھی۔ چنانچہ صحافت کے پر کاٹنے کا فیصلہ ہوا۔ اردو کا کثیر الاشاعت اخبار اور انگریزی کا باوقار روزنامہ نشان زد ہدف ٹھہرے۔
مئی 2011 کو سلیم شہزاد کا قتل اور 19 اپریل 2014ء کو حامد میر پر قاتلانہ حملہ ابتدائی اشارے تھے کہ صحافت جسد اجتماعی کا قابل قبول حصہ نہیں رہی۔ ایک صاحب حکم نے کہا تھا کہ صحافت کو ریاست سے زیادہ طاقتور ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ریاست سے مراد غالباً ان کی اپنی ذات مبارکہ تھی اور وہ یہ بھول رہے تھے کہ صحافت دستوری اداروں کے بالمقابل قوم کی آواز ہے۔ آزاد صحافت کا مقصدریاست سے طاقتور ہونا نہیں بلکہ قوم کو ریاست پر بالادستی دلانا ہے۔ جولائی 2018ء کے بعد صحافت پر ایک اور آزمائش اتری ۔ گھاس کے خودکاشتہ تختے پر بھی خاک اڑنے لگی۔ صحافتی ادارے بند ہوئے۔ صحافی بیروزگار ہوئے اور خبر ایک ضلع جگت بن کر رہ گئی۔ اب سنا ہے کہ طوفان کی رات میں بچھڑنے والے کچھ صحافی اپنے ٹھکانوں پر پلٹ رہے ہیں لیکن دھوپ کا وہ ٹکڑا کہیں نظر نہیں آتا جس کی تپش سے دل حرارت پاتے تھے اور دماغ روشن ہوتے تھے۔ عالی جی نے کیا اچھا کہا تھا۔’
؎. چڑھی ندی اور اتر گئی، پر گھر ہو گئے ویران‘۔