شعبان المعظم کی پندرہویں شب کے بارے میں متعدد احادیث آئی ہیں، اُن میں سے چند یہ ہیں: رسول اللہﷺ نے فرمایا: (1) ”بے شک اللہ تعالیٰ شعبان کی درمیانی (پندرہویں) شب کو خاص توجہ فرماتا ہے اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ (مغفرت کے طلب گار) اپنے سب بندوں کو بخش دیتا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 1390)، (2) ”جب شعبان کی درمیانی شب ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی جانب (خصوصی) توجہ فرماتا ہے، پھر (مغفرت کے طلب گار) مومن کو بخش دیتا ہے اور (سرکشی میں مبتلا) کافروں کو مہلت دیتا ہے اور کینہ رکھنے والوں کو اُن کے کینے کے سبب چھوڑ دیتا ہے تاوقتیکہ وہ کینہ چھوڑ دیں (یعنی اپنے دلوں کو کینے سے پاک کر دیں)‘‘ (شعب الایمان: 3551)۔ مجرم کو ڈھیل دینا بھی ایک طرح کی سزا ہے تاکہ وہ سرکشی میں انتہا کو پہنچ کر شدید ترین عذاب کا سزاوار قرار پائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”ہم تو اُن کو صرف اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں تاکہ اُن کے گناہ بڑھتے چلے جائیں اور اُن کے لیے ذلّت آمیز عذاب ہے‘‘ (آل عمران: 178)۔
آپﷺ نے متعدد روایات میں فرمایا: ”اس عظیم رات کو قتلِ ناحق کرنے والا، ماں باپ کا نافرمان، سود خور، عادی شرابی، عادی زنا کار، قطع رحمی کرنے والے اور چغل خورکی بخشش نہیں ہو گی‘‘، یعنی ان کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والے شریعت میں بیان کی ہوئی قبولیتِ توبہ کی شرائط پوری کیے بغیر اﷲ تعالیٰ کی مغفرت اور معافی کے حق دار نہیں بن سکتے۔ (3) ”جب شعبان کی درمیانی شب آئے، تو رات کو نوافل پڑھو اور دن میں روزہ رکھو، کیوں کہ اللہ تعالیٰ (اس رات کو) غروبِ آفتاب ہی سے آسمانِ دنیا کی طرف نزولِ اِجلال فرماتا ہے (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے ) اور ارشاد فرماتا ہے: کیا ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ میں اسے بخش دوں، ہے کوئی رزق (کی کشادگی) کا طلب گار کہ میں اسے رزقِ (واسع) عطا کروں، ہے کوئی مبتلائے مصیبت کہ میں اس کی مصیبت کا درماں کروں، الغرض بندوں کی تمام حاجات کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فیضانِ رحمت طلوعِ فجر تک جاری رہتا ہے‘‘ (ابن ماجہ: 1388)۔
(4) حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کرتی ہیں: ”شعبان کی درمیانی شب رسول اللہﷺ میرے بستر سے (اٹھ کر) تشریف لے گئے، (آگے چل کر) فرماتی ہیں: میں نے گمان کیا کہ آپ کسی زوجۂ مطہرہ کے پاس گئے ہیں، میں گھر میں آپ کو تلاش کرنے لگی، تو میرے پائوں آپ کے مبارک قدموں پر پڑے، آپﷺ حالتِ سجدہ میں تھے، مجھے یاد ہے، آپﷺ فرما رہے تھے: (اے اللہ!) میرے جسم و جاں تیری بارگاہ میں سجدہ ریز ہیں، میرا دل تجھ پر ایمان لایا، میں تیری تمام نعمتوں کا اعتراف کرتا ہوں، (تعلیمِ امت کے لیے آ پﷺ نے فرمایا:) میں نے اپنے آپ پر زیادتی کی، سو تو مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے، میں تیری سزا سے بچ کر تیرے عفو و کرم کی پناہ میں، تیرے غضب سے بچ کر تیری رحمت کی پناہ میں، تیری ناراضی سے بچ کر تیری رضا کی پناہ میںاور تیری گرفت سے بچنے کے لیے تیری ہی پناہ میں آتا ہوں، (اے اللہ!) میں تیری حمد وثنا کا حق ادا نہیں کر سکا، تیری کامل ثنا وہی ہے جو تو نے خود اپنی ذات کی فرمائی (آگے چل کر فرمایا:) اے عائشہؓ! تمہیں معلوم ہے آج کی رات میں کیا کیا برکتیں ہیں؟ انہوں نے عرض کی: حضور! بتائیے، تو آپﷺ نے فرمایا: اس رات کو (آنے والے سال کے دوران) بنی آدم کے ہر پیدا ہونے والے بچے اورہر وفات پانے والے شخص کا نام لکھ دیا جاتا ہے، اس رات کو بندوں کے اعمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی میں اُن کا رزق نازل ہوتا ہے‘‘ (فضائل الاوقات: 26، الدر المنثور للسیوطی، جلد: 7، ص: 350 ملخصاً)۔
اس طویل حدیث سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سیدالمرسلینﷺ اللہ تعالیٰ کے حضور کس قدر عَجز و نیاز فرماتے تھے، آپﷺ کے دل پر اللہ تعالیٰ کی جلالت کا کتنا غلبہ تھا، آپ کس قدر انہماک سے عبادت کرتے تھے اور اتنی کثرتِ عبادت کے باوجود آپﷺ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے طلب گار رہتے تھے۔ آپﷺ امت کو تعلیم دینا چاہتے تھے کہ اللہ کا بندہ کثرتِ عبادت سے چاہے انتہائی بلندی پر پہنچ جائے، لیکن اُسے اپنی عبادت اور تقوے پر ناز نہیں کرنا چاہیے، بندہ عبادت کر کے اللہ پر کوئی احسان نہیں کرتا، یہ تو بندگی کا فریضہ ہے، ان عبادات کو شرفِ قبولیت عطا کرنا اور انعامات سے نوازنا اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم پر موقوف ہے، یعنی یہ بندے کا اللہ پر حق نہیں ہے۔ جو لوگ فرطِ عقیدت میں شانِ الوہیت اور مقامِ نبوت کا تقابل کرتے ہیں، انہیں بار بار نبی کریمﷺ کے تواضع اور عَجز و انکسار سے لبریز اِن مبارک کلمات کو پڑھتے رہنا چاہیے، یہ سب کچھ تعلیمِ امت کے لیے ہے۔
مسلمانوں میں شعبان کی پندرہویں شب کو اپنے مرحومین کی قبور پر جانے کی روایت ہے، یہ اچھی بات ہے، کیوں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ”میں نے (ابتدائے اسلام میں) تمہیں قبرستان جانے سے روکا تھا، سو اب تم جایا کرو، کیونکہ اس سے دنیا کی ناپائیداری کا احساس ہوتا ہے اور آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے‘‘ (ابن ماجہ: 1571)۔ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی یاد شریعت کا مطلوب ہے، پس جب قبرستان جائیں تو آخرت کا تصور ذہنوں میں تازہ کریں: یہ اہلِ قبور بھی کبھی بڑی شان و شوکت والے تھے، حسین وجمیل مکانات میں رہتے تھے، پُرتعیّش زندگی گزارتے تھے، اب چند فٹ کے گڑھے میں لیٹے ہوئے ہیں، دنیا کی ساری عشرتیں اور قرابت کے رشتے اسی دنیا میں رہ گئے۔
بعض لوگ زائرین کی سہولت کے لیے قبرستان کی صفائی کرتے ہیں، یہ بھی اچھی روایت ہے، کیوں کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کے ہٹا دینے کو رسول اللہﷺ نے ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ہے اور اگر کوئی سپرے بھی کر سکے تو اس کی وجہ سے حشرات الارض اور موذی جانوروں سے لوگ محفوظ رہیں گے، اب تو جدید دنیا بھی ماحولیاتی تطہیر کو بڑی اہمیت دے رہی ہے اور ماحولیاتی آلودگی ایک بڑاعالمی مسئلہ ہے۔ بعض لوگ زائرین کی سہولت کے لیے قبرستان میں روشنی کا انتظام کرتے ہیں، یہ اچھی بات ہے، لیکن اس کا شبِ برأت کے معمولات سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے کہ اسے محض اس رات کے لیے خاص سنت یا عبادت سمجھ کر کیا جائے، یہ انتظام مستقل اور ضرورت کی حد تک ہونا چاہیے، اس میں اِفراط درست نہیںہے۔ اہلِ قبورکو جو نور کام آتا ہے، وہ ایمان اور اعمالِ صالحہ کا نور ہے اوراہلِ قبور کو ایصالِ ثواب اور دعائے مغفرت کی ضرورت ہوتی ہے۔ شب برا ت کے موقع پر بعض بچے آتشیں کھلونوں سے کھیلتے ہیں، یہ ناجائز ہے اور کم از کم مکروہِ تحریمی ہے۔ ملکی قانون کی رو سے بھی آتشیں کھلونے بنانا، انہیں ذخیرہ کرنا اور بیچنا منع ہے اور مفادِ عامّہ کے قوانین کی پابندی شرعاً بھی مستحسن اور بعض صورتوں میں ضروری ہے۔
ایصالِ ثواب کے لیے غریبوں کو کھانا کھلانا اچھی بات ہے لیکن شبِ برات کے حوالے سے حلوہ پکانا اور بانٹنا ہمارے خطے کا ایک رواج ہے، یہ شریعت میں نہ منع ہے اور نہ لازم ہے۔ نوافل، تلاوتِ قرآنِ کریم، اَذکار و تسبیحات و درود شریف میں سے جس کی بھی توفیق و سعادت نصیب ہو، قابلِ تحسین ہے۔ میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ اِن مبارک راتوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق کی ارزانی ہو، تو ماضی کی قضا نمازیں پڑھنی چاہئیں۔ علامہ نظام الدین لکھتے ہیں: ”سنن مُؤَکَّدَہ کے سوا دیگر نوافل پڑھنے سے قضا نمازیں ادا کرنے میں مشغول رہنا اَولیٰ اور اہم ہے‘‘ (عالمگیری، جلد: 1، ص: 125)۔ امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ”شیطان کا بڑا دھوکا ہے کہ آدمی کو نیکی کے پردے میں ہلاک کرتا ہے، نادان سمجھتاہے نیک کام کر رہا ہوں اور نہ جانا کہ نفل بے فرض سراسر فریب ہے، اِس کے قبول کی امید تو مفقود اور اُس کے ترک کا عذاب گردن پر موجود۔ اے عزیز! فرض، خاص سلطانی قرض ہے اور نفل گویا تحفہ و نذرانہ۔ قرض نہ دیجیے اور بالائی بیکار تحفے بھیجئے، وہ قابلِ قبول ہوں گے؟ خصوصاً اس شہنشاہِ غنی کی بارگاہ میں جو تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ، جلد: 10، ص: 178)۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: ”اگر فرض چھوڑ کر سنت ونفل میں مشغول ہوگا، تو یہ قبول نہ ہوں گے اور خوار کیا جائے گا‘‘۔ شیخ عبدالحق محدّث دہلوی لکھتے ہیں: ”لازم اور ضروری چیز کا ترک اور جو ضروری نہیں اس کا اہتمام عقل و دانش کی رو سے غیر مفید ہے، کیونکہ عاقل کے نزدیک نفع کے حصول سے ضرر کا دور کرنا اہم ہے‘‘ (فُتُوْحُ الْغَیْب مع شرح عبدالحق دہلوی، ص: 273)۔
میں نے عام روش سے ہٹ کر یہ گزارشات اس لیے کی ہیں کہ دین میں ترجیحات اور اَحکامِ شریعت کی درجہ بندی کو بعض اوقات لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں اور ایک طرح سے یہ عملی تضاد کی صورت بن جاتی ہے۔ فرائضِ شرعی وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کو ہر مسلمان سے مطلوب ہیں، یہ شریعت کا لازمی مطالبہ ہے۔ نفلی عبادات شریعت کی نظر میں پسندیدہ ہیں اور قرآن و حدیث میں اُن کے بے شمار فضائل بھی آئے ہیں، لیکن نہ نفلی عبادات میں رغبت فرائض کے ترک کا سبب بننا چاہیے اور نہ انہیں فرائض کا متبادل سمجھنا چاہیے؛ البتہ انہیں فرائض کا تکملہ اور تتمّہ سمجھنا چاہیے۔
بعض مساجد میں لوگ باجماعت صلوٰۃ التسبیح کے نوافل پڑھتے ہیں، فقہائے کرام نے ان کے لیے تداعی کو مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اَولیٰ قرار دیا ہے اور بعض نے فرمایا کہ جو لوگ پڑھ رہے ہوں، اُن کو منع نہ کیا جائے۔ امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ”تراویح کے سوا دیگر نوافل میں امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہے ہی، چار کی نسبت کتب فقہیہ میں کراہت لکھتے ہیں، یعنی مکروہِ تنزیہی، جس کا حاصل خلافِ اَولیٰ ہے، نہ کہ گناہ و حرام (جیساکہ ہم نے اس کی تفصیل اپنے فتاویٰ میں دی ہے)۔ مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے، بہت اکابر دین سے نوافل کی جماعت کی تداعی ثابت ہے اور عوام فعلِ خیر سے منع نہ کیے جائیں، علمائے امت و حکمائے ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے، درمختار میں ”اَلْبَحْرُ الرَّائِقْ‘‘ کے حوالے سے لکھا: ”عوام کو تکبیرات اور نوافل سے کبھی بھی منع نہ کیا جائے، کیونکہ پہلے ہی نیکیوں میں اُن کی رغبت کم ہوتی ہے‘‘۔ حدیقۂ ندیّہ میں ہے: ”صلوٰۃ الرغائب کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا اور لیلۃ القدر کے موقع پر نماز وغیرہ بھی اسی قبیل سے ہیں، اگرچہ علماء نے ان کی جماعت کے بارے میں کراہت کی تصریح کی ہے، مگر عوام میں یہ فتویٰ نہ دیا جائے تاکہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہو، علماء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے اور متاخرین میں سے بعض نے اس کے جواز پر بھی لکھا ہے، عوام کو نماز کی طرف راغب رکھنا انہیں نفرت دلانے سے کہیں بہتر ہوتا ہے‘‘ (فتاویٰ رضویہ، ج: 7، ص: 465 تا 466)۔