دھوپ کا شیشہ گلی میں کندھے سے کندھا ملائے مکانوں کی دیواریں چڑھتا، چوباروں کی کھڑکیاں پھلانگتا اور آرزو بھری چھتوں کی کائی زدہ منڈیروں سے گزرتا بستی کے عقب میں اترچکا تھا۔ اب شام ہو رہی تھی۔ حیرت بھری آنکھوں والے ننھے بچے، اوڑھنی سے بے نیاز بچیاں اور قد نکالتے لڑکے بالے ایک ایک کر کے گھروں کو پلٹ رہے تھے۔ تماشا گر نے گرد آلود کھلونے سمیٹے۔ کچی مٹی کے پیروں پر رکھے چوبی چوکھٹے پر منڈھا کھلاڑی اٹھاتے ہوئے لحظہ بھر کو رکا، ایک نظر ڈالی اور کچھ سوچتے ہوئے اسے بھی تھیلے میں رکھ لیا۔ ایک اور تماشا انجام کو پہنچا۔ بہروپ کے ہر کھیل کی مدت طے ہے۔ دوام صرف گیان کی آگ میں جل کر کندن ہوئے حرف حق کو ہے، دستور کی تپیسیا سے نکلے قافلے کو ہے۔
دن رات کی چکی میں پسے ان سادھارن انسانوں کے بے چہرہ ہجوم کو ہے جنہوں نے اپنی جانکاہ مشقت کے عوض زندگی سے وسائل پر ناجائز اجارہ اور خلق خدا پر حکم چلانے کا مجرمانہ اختیار نہیں مانگا، صرف انسانی مساوات، احترام، امکان کی جستجو اور نروان کی مسکان کا تقاضا کیا۔ درویش عمر خیام کو یاد کرنا چاہتا ہے۔ فارسی متن نقل کرنا کیا مشکل ہے مگر ہم نے فارسی کی میراث بے سوچے سمجھے ضائع کر دی۔ اب اس ملک میں فارسی جاننے والے کم ہیں اور انگریزی دان زیادہ۔ خیام کی رباعیات کا جو ترجمہ ایڈورڈ فٹزجیرلڈ نے کیا ہے، اصل متن کی تہہ داری میں دوسری زبان کے محاسن سمونے کی شاندار مثال سمجھا جاتا ہے۔ تو چلئے آج نیشا پور کے خیام کو انگریزی لبادے میں پڑھتے ہیں۔
پاکستان بنا تو بہت سے ایسے حوادث اور واقعات رونما ہوئے جن کا کسی سمجھوتے یا منصوبے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگست 46ء میں کلکتہ فسادات کے شعلے نواکھلی سے ہوتے ہوئے بہار تک جا پہنچے۔ مارچ 47ءمیں پنڈی سے بھڑکنے والی آگ پنجاب کو راکھ کرتی ہوئی دلی تک جا پہنچی۔ اتنے بڑے پیمانے پر آبادی کا تبادلہ کس نے سوچا تھا۔ کسے خیال تھا کہ تحریک پاکستان چلانے والے مسلم اقلیتی صوبے بھارت میں رہ جائیں گے اور پاکستان کے حصے میں سیاسی اور معاشی طور پر پسماندہ مسلم اکثریتی علاقے آئیں گے۔ پاکستان کے حصے میں برطانوی ہند کے 17 فیصد معاشی وسائل اور برٹش انڈین آرمی کا 33 فیصد حصہ آیا۔ کون نہیں جانتا کہ چند ہزار برطانوی باشندے مقامی گٹھ جوڑ کے بغیر چالیس کروڑ ہندوستانیوں پر حکومت نہیں کر سکتے تھے۔ مقامی فوج اور پولیس اس گٹھ جوڑ کا مسلح بازو تھے۔
استخلاص وطن کی جدوجہد سے لاتعلق سرکاری اہلکاروں نے نوآزاد ملک پر اجارے کی نالش کر دی۔ متروکہ املاک کی چھین جھپٹ سے شروع ہونے والی ہوائے حرص ملک کے مشرقی حصے کو اپنی کالونی سمجھ بیٹھی۔ انگریز حکمران کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر آزادی کا مقدمہ جیتنے والے نااہل اور بدعنوان قرار پائے۔ دفتری فائلوں پر قلم چلانے والے خود کو نئی مملکت کا مالک سمجھ بیٹھے۔ غالب سے ایک جملہ منسوب کیا جاتا ہے۔ ’کون …. آزاد ہوا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا، اب کالے کی قید میں ہوں‘۔ سات دہائیوں پر پھیلی ہماری تاریخ کالے خان کی قید کا روزنامچہ ہے۔
’دو برس کی محنت ‘ کا اعتراف تو ہم تک پہنچ گیا لیکن یہ دو برس کی کہانی نہیں سات عشروں پر پھیلی حکایت ہے۔ نئے اشاروں کی روشنی میں فرض کر لیتے ہیں کہ ’بدل چکا ہے بہت اہل درد کا دستور‘۔ اگرچہ جالب نے خبردار کر رکھا ہے۔’چاک سینوں کے سلنے لگے، تم کہو….‘ عمران حکومت پر معاشی نااہلی اور بدعنوانی کی تہمت لگانا بے معنی ہے۔ عمران خان کی ناکامی کے حقیقی اجزا کچھ اور ہیں۔ جولائی 2018ء میں قائم ہونے والی حکومت کا خمیر ہماری تاریخ کے بدترین انتخابی جھرلو سے اٹھایا گیا۔ یہ بدعنوانی کمرہ عدالت سے شروع ہوئی، سینکڑوں امیدواروں کا براہ راست بازو مروڑتے ہوئے آر ٹی ایس کے عرق النسا میں مبتلا ہوئی اور جہانگیر ترین کے جہاز میں بیٹھ کر اسلام آباد پہنچی۔ عمران خان کو جمہوری نصب العین اور اقدار سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ ان کے اتالیق جمہوریت دشمنی میں سند کا درجہ رکھتے تھے۔
عمران خان خود پسندی کے جس درجے پر فائز ہیں انہیں ملکی دستور کی نزاکتوں کا کوئی علم ہے اور نہ وہ دستور میں دی گئی شہری آزادیوں کے بارے میں حساس ہیں۔ عمران خان فسطائی نہیں البتہ ان کے فرمودات میں فسطائیت کی آرزو ضرور دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ وفاقی اکائیوں کے باہم تعلق اور اختلافی سیاسی آوازوں سے جمہوری ربط کا ادراک نہیں رکھتے۔ وہ عقبی دروازے سے سیاست میں داخل ہوئے اور اپنے اقتدار کے دوران قومی اسمبلی میں بھی ہمیشہ عقبی دروازے ہی سے داخل ہوئے ہیں۔ جنرل حمید گل مرحوم خارجہ پالیسی میں انحراف پسندی اور گھات کے فلسفے پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے شاگرد رشید نے ایک ہی گیند سے چین اور امریکا سے تعلقات کی وکٹیں اڑا ڈالیں۔عمران خان کے طرز حکومت میں عوامی مفاد کو کیا جگہ ملتی ان کے دیوان خاص میں تو ارکان اسمبلی کو بھی گوش شنوائی نصیب نہیں ہو سکا۔
تحریک عدم اعتماد کا خالص دستوری معاملہ عمران خان کی افتاد طبع کے باعث ممکنہ پارلیمانی تبدیلی سے بڑھ کر پورے بندوبست کی بنیادیں کھود رہا ہے۔ جولائی 1943ء میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے پر مسولینی نے اٹلی کی پارلیمنٹ سے کہا تھا۔ You have provoked the crisis of the regime. عمران خان اس دھمکی کو سڑکوں پر لانے کا اعلان کر رہے ہیں۔ یہ خواب پورا نہیں ہو سکے گا۔ عمران حکومت کے جرس کارواں کا نالہ لمحہ بہ لمحہ بلند ہو رہا ہے۔ درویش نے استاد مکرم سے 2017ء کے موسم خزاں میں جمہوری قوتوں کی درماندگی پر اظہار افسوس کیا تھا۔ استاد محترم نے ہمیشہ کی طرح گہرے پانیوں کے مہربان لہجے میں کہا۔ ’ہم ہارے ہیں، قوم آگے بڑھ گئی ہے‘۔ پانچ برس بعد اب قوم کے ایک قدم آگے بڑھنے کی آہٹ صاف سنی جا سکتی ہے۔