آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن (او آئی سی) کے وزرائے خارجہ کا 48واں اجلاس آج اسلام آباد میں شروع ہوگیا ہے۔
گزشتہ ہفتے میں 57مسلم ممالک کی یہ عالمگیر تنظیم اقوام متحدہ سے ’انسداد اسلامو فوبیا‘ کو ایک سنجیدہ فوری توجہ طلب عالمی ایجنڈا اور امن عالم کا لازمہ تسلیم کرانے میں کامیاب ہوئی۔اب ایک ہفتے بعد ہی جنرل اسمبلی میں متذکرہ قرارداد کے محرک پاکستان کو معاون او آئی سی کی کانفرنس کی میزبانی کا اعزاز حاصل ہوا۔ 44رکن ممالک کے وزرائے خارجہ اور باقی ممالک کے اعلیٰ عہدے دار اسلام آباد میں پاکستان کے مہمان بنے ہیں۔
اگست 1969کو ایک آسٹریلوی عیسائی ڈینس مائیکل نے یروشلم میں مسجد اقصی میں موجود 800 سالہ قدیم منبر کو آگ لگا دی جس کی لپیٹ میں مسجد اقصیٰ کی چھت بھی آ گئی۔ اِس واقعہ کے بعد پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ اُس وقت کے مفتیٔ اعظم فلسطین امین الحسینی نے سخت احتجاج کیا اور پورے عالمِ اسلام کو اِس واقعہ پر مضبوط موقف اختیار کرنے کی دعوت دی۔مفتی اعظم فلسطین کی پکار پر سعودی عرب اور مراکش نے قائدانہ کردار ادا کیا، جن کی کوشش سے مراکش کے شہر رباط میں مسلم دنیا کے سربراہ اکٹھے ہوئے۔
25ستمبر 1969کو اسلامی سربراہی کانفرنس کی باقاعدہ بنیاد رکھی گئی۔ اس کے چھ ماہ بعد ایک مرتبہ پھر سعودی عرب آگے بڑھا اور اسلامی ممالک کے تمام وزراء خارجہ کا پہلا باقاعدہ اجلاس جدہ میں منعقدہ کیا۔1972میں او آئی سی کو باقاعدہ تنظیم کی شکل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہر سال منعقد ہوگا جبکہ سربراہی اجلاس ہر تین سال بعد منعقد ہوا کرے گا۔
او آئی سی کا مقصد:
او آئی سی کے چارٹر میں کہا گیا کہ،
اسلامی، اقتصادی اقدار کا تحفظ، آپس میں یکجہتی کا فروغ، سماجی، اقتصادی، ثقافتی، سائنسی اور سیاسی شعبوں میں تعاون کے فروغ، عالمی امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم خاص طور پر سائنس و ٹیکنالوجی کو فروغ دیا جائے گا۔
اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ:
اسلامی سربراہی کانفرنس کے سربراہی اجلاسوں کی تاریخ پر اگر نظر ڈالی جائے تو پاکستان میں منعقد ہونے والی سربراہی کانفرنس ابھی تک واحد کانفرنس ہے جس میں دنیا کے سب سے زیادہ ممالک نے شرکت کی۔
اس کانفرنس کو کامیاب کرنے میں بھی سعودی سربراہ شاہ فیصل نے بنیادی کردار ادا کیا تھا، یہی وہ کانفرنس تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو، شاہ فیصل، معمر قذافی اور یاسر عرفات عالمی لیڈر بن کر اُبھرے۔پاکستان میں ہونے والی سربراہی کانفرنس میں پہلی دفعہ فلسطین کو علیحدہ مملکت کا اسٹیٹس دیا گیا، بعد میں اسی بنیاد پر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے کا موقع ملا۔ 1974میں لاہور میں منعقد ہونے والی سربراہ کانفرنس میں مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی، فلسطین سے ہی یاسر عرفات، شاہ فیصل، یوگنڈا سے عیدی امین، تیونس سے بومدین، لیبیا سے کرنل قذافی، مصر سے انور سادات، شام سے حافظ الاسد، بنگلہ دیش سے شیخ مجیب الرحمان، ترکی سے فخری کورو سمیت تمام بڑے رہنما شریک تھے۔
اس تنظیم کے عروج کا یہ عالم تھا کہ 1980میں پاکستان کے صدر محمد ضیاء الحق نے امت مسلمہ کے متفقہ لیڈر کے طور پر اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ان کے خطاب سے قبل ریکارڈڈ تلاوت قرآن بھی چلائی گئی اور پھر زوال کا یہ عالم ہوا کہ ایران عراق جنگ کو بند کرانے میں ناکامی ہوئی، یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ فورم غیرموثر ہوتا چلا گیا۔کشمیر اور فلسطین کے مسائل جوں کے توں رہے۔ کویت پر صدام حسین کے حملے کا آبرو مندانہ حل نہ نکل سکا۔ او آئی سی کے ساتھ ایک دردناک حقیقت یہ بھی وابستہ ہے کہ اس کے عروج سے جڑے تمام کردار آہستہ آہستہ غیر طبعی موت مر گئے لیکن تاریخ میں آج بھی ان کا نام محفوظ ہے۔
سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لیے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔طالبان کے افغانستان میں برسر اقتدار آنے کے بعد ملک کی تشویشناک صورتحال اور سنگین انسانی بحران کے خدشے کے باعث پاکستان کی کوششوں سے سعودی عرب کی دعوت پر او آئی سی وزرائے خارجہ کا غیر معمولی اجلاس 19 دسمبر 2021 کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ہوا تھا اور اب تین ماہ کے قلیل عرصے میں یہ اجلاس دوبارہ پاکستان میں منعقد ہوا۔
آج سے شروع ہونے والی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس پاکستان کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔1974کی اسلامی سربراہی کانفرنس نے بھٹو کو عالمی لیڈر بنا دیا تھا اب دیکھتے ہیں کہ عمران خان اس کانفرنس سے کتنا فائدہ سمٹ سکیں گے۔ بعض حکومتی نا اہلیوں کے باعث پاکستان کا بین الاقوامی تشخص اچھا نہیں رہا۔ان حالات میں دنیا بھر کے اسلامی ممالک سے تعلق رکھنے والے وزرائے خارجہ کی پاکستان تشریف آوری پاکستان کے سافٹ امیج کو بہتر بنانے میں مدد دے گی۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے اس حوالے سے شاندار انتظامات کیے ہیں۔
او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے افتتاحی اور اختتامی سیشن اوپن ہوں گے، ورکنگ گروپس کے بند کمرہ اجلاس ہوں گے جس میں قراردادوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی پُرزور مذمت کی جائے گی۔ اجلاس میں افغانستان میں انسانی بحران کی صورتحال بھی زیر غور آئے گی۔
اجلاس میں کشمیر، فلسطین، اسلامو فوبیا، اُمّہ کے اتحاد سمیت 140 قراردادیں پیش ہونگی۔ یمن، سوڈان، لیبیا اور شام کی صورتحال بھی زیر بحث آئے گی۔ عالمی سطح پر دہشتگردی اور تنازعات کا حل کانفرنس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی وزرائے خارجہ اور مندوبین کے اعزاز میں عشائیہ دیں گے۔ او آئی سی وزرائے خارجہ اور دیگر کو 23 مارچ کی یوم پاکستان پریڈ بھی دکھائی جائے گی۔اختتام پر وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل او آئی سی حسین براہیم طحہ مشترکہ نیوز کانفرنس کریں گے۔