مسیحا کون ہوتا ہے؟ کیا اُس کے پاس جادو کی چھڑی ہوتی ہے کہ تنِ تنہا سب مسائل حل کر دیتا ہے؟مسیحا ایک مذہبی کردار ہے۔ یہ ایک ایسے نجات دہندہ کا تصور ہے جس کا تعلق الہامی سکیم سے ہے۔ خدا کا نمائندہ جو انسانوں کو اخروی کامیابی ہی کا پروانہ نہیں دیتا، دنیاوی غموں سے بھی نجات دلاتا ہے۔ یہودی روایت میں ہے کہ سیدنا دائودؑ کی نسل سے ایک آنے والا آئے گا جسے دنیا کا اقتدار ملے گا اور وہ بنی اسرائیل کے دکھوں کا مداوا کرتے ہوئے، اس عالمِ رنگ وبو پر، ان کی عالمگیر حکومت کو واقعہ بنا دے گا۔
کم و بیش دنیا کے ہر مذہب میں یہ تصور کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی نجات دہندہ کا یہ عقیدہ موجود ہے، اگرچہ ابنِ خلدون اور علامہ اقبال کا خیال ہے کہ یہ دوسری مذہبی روایات سے آیا ہے۔ مولانا مودودی بھی اس کی ایک تعبیر کرتے ہیں مگر اس کے بیان کا یہ محل نہیں۔ مذہبی لوگ عام طور پریہ مانتے ہیں کہ یہ نظام حیات اس وقت تک سمیٹا نہیں جائے گا، جب تک اس دنیا میں انصاف کا بول بالا نہ ہو اور خدا کا اقتدار، انسانوں کے معاشرے میں بھی اسی طرح قائم نہ ہو جائے جس طرح تکوینی طور پر پوری کائنات پر قائم ہے۔
مسیحا، مذہبی روایت میں ایک ایسی ہستی ہے جو انسان ہے مگر اسے خدا کی طرف سے مافوق الاسباب تائید سے نوازا جائے گا۔ اس کا انحصار عالمِ اسباب پر نہیں، الہامی نصرت پر ہو گا۔ اس روایت کے مطابق، جب اس کا ظہور ہو گا تو حق و باطل پوری طرح جدا ہو جائیں گے۔ تب انسانوں پر فرض ہو گا کہ وہ نیوٹرل نہ رہیں۔ اس پر ایمان لائیں اور اس کا ساتھ دیں۔ بصورتِ دیگر دنیا اور آخرت میں رسوائی ان کا مقدر ہو گی۔
مذہب نے لوگوں کو جھوٹے مسیحاؤں سے بھی خبردار کیا ہے جو اہلِ مذہب کے ان جذبات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، لوگوں کو دعوت دیں گے کہ ان پر ایمان لایا جائے۔ یوں ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالیں گے۔ مسلمانوں میں یہ خیال موجود ہے کہ قیامت سے پہلے ایک مسیحِ دجال (جھوٹا مسیح) بھی آئے گا جو مافوق العادت کام کرے گا اورلوگ اس کے دھوکے کا شکار ہوکر اسے مسیح مان لیں گے۔ اس کی نشانیاں بھی بتائی گئی ہیں تاکہ لوگ اس کے فتنے سے محفوظ رہ سکیں۔ ہماری روایت میں اس پر بہت بحث ہے کہ یہ دجال فرد ہو گا یا کوئی نظام؟انسانوں میں یہ تصور ایک خاص وجہ سے مقبول ہوا۔ انسان کو درپیش تمام مسائل کا حل، اس کی پہنچ سے دور ہے؛ تاہم وہ ایک ایسے معاشرے کا خواب دیکھتا رہا ہے جہاں اسے کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو۔ ہر طرف سکھ چین ہو اور انصاف کا بول بالا ہو۔ مذہب چونکہ ایک مابعدالطبیعیاتی تصور ہے، اس لیے مذہب میں اس کا ایک ایسا ہی حل تلاش کرلیا گیا۔ لوگوں کو اس تصور میں اپنے خواب کی تعبیر نظر آئی۔
مذہب کے مصدقہ متون کا اگرچہ اس پر اصرار رہا کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے۔ یہاں کسی ایسے سماج کا قیام ممکن نہیں جہاں مسائل نہ ہوں اور جہاں معاشرہ جنگ نظیر بن جائے۔ یہاں زلزلے آئیں گے۔ وبائیں پھوٹیں گی۔ حادثات ہوں گے۔ مسائل مسلسل انسان کا تعاقب کریں گے۔ یہاں تک کہ موت سے فرار کسی کو نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ آسانیاں بھی بہت ہوں گی۔ انسان کائنات کے مظاہر پر کمند ڈالے گا اور اس کے رازوں سے واقف ہوکر اپنے لیے زندگی کو سہل سے سہل تر بنا تا چلا جا ئے گا؛ تاہم ایسا کبھی نہیں ہوگا کہ انسان مسائل، غم اور حزن سے آزاد ہو جائے۔ یہ اس وقت ہوگا جب وہ اس امتحان میں کامیاب رہے گا۔ پھراس کیلئے ایک نئی دنیا بسائی جائے گی۔ یہ مگر اس دنیا میں نہیں ہونے والا۔ مذہبی لغت میں یہ دنیا جنت کہلاتی ہے۔ مذہب کی یہ تعلیم مگر اکثر لوگوں کی نظر سے اوجھل رہتی ہے۔
مسیحا کا یہ تصور اپنے اندر بڑی کشش رکھتا ہے۔ غیر مذہبی معاشروں نے اس تصور کو ‘سپرمین‘ جیسے عنوان کے ساتھ قبول کر لیا۔ یہ فرد ہو سکتا ہے اور کوئی نسل بھی۔ ہٹلر نے جرمن قوم کے بارے میں یہی تصور دیا کہ وہ دیگر اقوام سے برتر ایک قوم ہے اور وہی سزاوار ہے کہ اسے دنیا کا اقتدار ملے۔ ہٹلر تو خاص الخواص ہے، لہٰذا دنیا کی حکومت اس کا استحقاق ہے۔ انسانی تاریخ میں سکندر اور تیمور جیسے لوگ اسی طرح پیدا ہوئے۔
قدیم دور میں ایسے لوگوں کے بارے میں دیومالائی داستانیں پھیلائی جاتی تھیں جو سینہ بہ سینہ سفرکرتی تھیں۔ آج کے دور میں یہ کام میڈیا سے لیا جاتا ہے۔ جدید انسان جو مذہب پر ایمان نہیں رکھتا، وہ مسیحا کا ایک جھوٹا پیکر تراشتا اور پھر ذرائع ابلاغ کی مدد سے اسے سچ ثابت کرتا ہے۔ لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال بٹھاتا ہے کہ یہی وہ نجات دہندہ ہے جو انسانوں کو دکھوں سے نجات دلا کر ان کے معاشرے کو جنت بنا دے گا۔ ہٹلر نے پروپیگنڈے کو باقاعدہ سائنس بنا دیااور اس کے وزیر گوئبلز کو اس باب میں امام مان لیا گیا۔
مذہبی معاشروں میں لوگ اگرچہ زبان سے اقرار نہیں کرتے کہ ان کے موجودہ راہنما وہ نہیں جن کا وعدہ کیا گیا ہے مگر وہ غیر شعوری طور پر جھوٹے مسیحا کو سچا مان کر ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ ان کے گوئبلز اس مہارت سے مذہبی تعلیمات اور روایات کو ان پر منطبق کرتے ہیں کہ وہ غیر اعلانیہ طور پران پر ایمان لے آتے ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ ایسے راہنماؤں کو خطاؤں سے پاک سمجھتے ہوئے یہ گمان کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ پر معجزوں کا ظہور ممکن ہے اور ان کے پاس وہ نسخہ موجود ہے جو انسانی معاشرے کے تمام مسائل حل کر سکتا ہے۔ اس کے مخالفین کے بارے میں ان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ سراپا شر ہیں اور اس کیلئے یہ دلیل کافی ہے کہ وہ مسیحا کے مخالف ہیں۔
جو معاشرے عقلی اور سائنسی بنیاد پر سوچتے ہیں، وہ مسیحا کے اس تصور سے نجات پا چکے۔ جرمن قوم نے مان لیاکہ وہ ایک جھوٹے مسیحا پر ایمان لے آئے تھے۔ انہوں نے اعلانیہ اس کے کاموں سے اعلانِ برات کیا اور ان لوگوں سے معافی مانگی جواس کے ظلم کا شکار ہوئے۔ ایسے معاشروں میں یہ جان لیا گیا ہے کہ کوئی فردِ واحد اس پر قادر نہیں کہ انسانی سماج کو تمام مسائل سے نجات دلا سکے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اجتماعی دانش کی بنیاد پر ایک نظام وجود میں آئے۔ ایسا نظام جو معجزوں کے بجائے سماجی مسائل کا عقلی حل پیش کرے۔
جدید انسان صحیح حل تک پہنچ چکا۔ جن معاشروں میں اجتماعی دانش بروئے کار آتی ہے، جسے جمہوریت کہتے ہیں، وہاں ایک ایسا نظام قائم ہے جو انسانی مسائل کا دوسرے نظاموں کے مقابلے میں بہتر حل پیش کر رہا ہے۔ یہ نظام ایسا نہیں جس میں کوئی کمزوری نہ ہو‘ اس لیے کہ دنیا میں ایسا نظام ممکن نہیں۔ اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر ٹرمپ جیسے لوگ کبھی کبھی نقب لگانے میں کامیاب رہتے ہیں مگر یہ نظام اپنے اندر یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ انہیں اگل دے اور اجتماعی دانش کی طرف لوٹ جائے۔جہاں عقل کی حکمرانی نہیں، وہاں آج بھی لوگ مسیحا کا انتظار کرتے ہیں۔ حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر اسے معاشروں میں پڑھے لکھے بھی کسی مسیحِ دجال پر ایمان لانے پر آمادہ رہتے ہوں۔ جہاں تعلیم عقل کا استعمال نہ سکھائے، وہاں یہ نتیجہ غیر متوقع نہیں۔