شگفتہ گو شاعر، نذیر احمد شیخ کی ایک یاد گار نظم ہے۔ آندھی۔ کیا عمدہ منظر کشی ہے۔ کمال سلاست و روانی سے آندھی کا ایسا بھرپور نقشہ کھینچا ہے کہ پڑھنے والا خود کو بگولوں میں گھرا محسوس کرتا ہے اور اس کی آنکھوں میں ریت چبھنے لگتی ہے۔
کھڑکی کھڑکے، سر کی سرکے، پھڑکے روشن دان
ناکہ بندی کرتے کرتے، گھر سب ریگستان
جھاڑو، جھاڑن، موج منائیں ان کا اپنا راج
پیپا بیٹھا ڈھول بجائے، کتھک ناچے چھاج
اڑتی پھرتی جھاڑی پکڑے، لوگوں کی شلوار
جب تک وہ شلوار چھڑائیں رخصت ہو دستار
چھجے نے جب جھٹکا کھا کر دھڑ سے پھینکی اینٹ
مٹکے کا وہ جھٹکا دیکھا سر سے گزری چھینٹ
وزیراعظم عمران خان کا قصر حکمرانی بھی ایسی ہی منہ زور آندھی کی زد میں ہے۔ وہ ایک چیز سنبھالتے ہیں تو دوسری اڑان بھر کے کہیں چلی جاتی ہے۔ آندھی کی اس منہ زوری کا سب سے بڑا سانحہ یہ ہوا کہ انہیں پنجاب کے اس وزیر اعلیٰ کی قربانی دینا پڑی جس کی کارکردگی کو وہ ایک نظیر کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جس کے بارے میں انہوں نے ایک سے زیادہ بار اعلان کیا تھا کہ جب تک پی ٹی آئی کی حکومت ہے، بزدار ہی وزیراعلیٰ رہیں گے۔
مریم نواز نے اپنی تازہ تقریر میں ایک پرانی مگر بڑی ہی با معنی کہاوت کا ذکر کیا ہے کہ بندریا کے پاؤں جلتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کو پیروں تلے رکھ لیتی ہے۔ گویا بچے جلیں تو جلیں، پاؤں تو جلن سے راحت پائیں۔ مریم کے بقول خان صاحب کے پاؤں جلے تو انہوں نے عثمان بزدار کو پاؤں تلے رکھ لیا۔ خیر! یہ تو ایک سیاسی چٹکلا ہے لیکن اس سے اس عظیم صداقت کا بھی اظہار ہوتا ہے جسے مولانا ابوالکلام آزاد نے اس عظیم جملے میں سمو دیا تھا کہ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ ۔
کیا ستم ہے کہ اپنی ڈگمگاتی وزارت عظمیٰ بچانے کے لئے خان صاحب نے نہ صرف اپنی متاع عزیز کو کوڑے دان میں پھینک دیا بلکہ اپنے 183 ارکان صوبائی اسمبلی کو ایک طرف رکھتے ہوئے ایسے رکن کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا جس کی پارٹی اسمبلی کے دس ممبروں پر مشتمل ہے۔ اسے کہتے ہیں مصلحت کیشی، اصول کشی اور این آر او یہ ہے سیاست کا وہ حمام جس میں ”صادق اور امین“ ہونے کے باوجود خان صاحب بھی بے لباس کھڑے ہیں۔ اس کے باوجود وہ سیاست میں تبدیلی کی روشن علامت اور ارفع سیاسی اصولوں کا تابناک استعارہ ہیں۔
فارن فنڈنگ کے آٹھ سالہ کیس پر وہ آج بھی پہلو تہی اور گریز پائی کی ایک نئی کوشش میں اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں توشہ خانے کے بارے میں اٹھائے گئے ہر سوال کا جواب ایک ہی جملے میں آتا ہے کہ ”ایسا بتانا ریاست کے مفاد میں نہیں“ ۔ اس کے باوجود خان صاحب امر بالمعروف کے سب سے بڑے مبلغ ہیں اس کے باوصف وہ ریاست مدینہ کے پاکباز حکمران ہیں اور اس کے باوجود وہ پھیپھڑوں کی پوری طاقت بروئے کا ر لاتے ہوئے حضرت عمر فاروقؓ کی مثال دے سکتے ہیں کہ کس طرح خلیفہ وقت سے ان کے کرتے کے بارے میں سوال پوچھا گیا تھا۔ قول اور فعل میں ایسے بھیانک تضاد کے باوجود خان صاحب کی طرف انگلی اٹھانا، ارتداد کے زمرے میں آتا ہے اور ارتداد کی سزا بہت کڑی ہے۔
خان صاحب کا پریڈ گراؤنڈ جلسہ بھی کوئی جادو نہ جگا سکا۔ اس کی ذمہ داری بھی خان صاحب اور ان کی کم دانش سپاہ پر عائد ہوتی ہے۔ عوام، خاص طور پر فدائین کی توقعات کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا گیا۔ دس لاکھ حاضرین کا تعین بھی کر دیا گیا۔ کسی نادیدہ ”ٹرمپ کارڈ“ کا تجسس بھی ابھارا گیا۔ جلسہ تو ہو گیا۔ حاضری کو جانے دیجئے۔ خود سرکار کی ایجنسیاں اسے 25 سے 30 ہزار بتاتی ہیں۔ چلیں دس لاکھ مان لیتے ہیں۔ لیکن لوگ کوئی عزم نو لے کے نہ لوٹے۔ خان صاحب ایک ماہر اور مشاق مداری کی طرح، تھوڑے تھوڑے وقفے سے، اپنی پٹاری پر ہاتھ مارتے ہوئے کہتے رہے کہ وہ ایک ایسا شیش ناگ نکالنے والے ہیں جو ایک ہی پھنکار سے ان کے مخالفین کو بھسم کر ڈالے گا۔ کامل ایک گھنٹہ پچاس منٹ تک اشتیاق بڑھانے اور انتظار کی صلیب پر جھولا جھلانے کے بعد انہوں نے پٹاری سے جو کچھ نکالا وہ شیش ناگ تو کیا، کوئی جھاڑ جھنکاڑ والا معمولی سنپولیا بھی نہیں، بس ایک مریل سا برساتی کینچوا تھا جو رینگتا ہوا سٹیج سے نیچے گرا اور ایک نعرہ زن حسینہ کے قدموں تلے کچلا گیا۔
خان صاحب کی اہلیت و صلاحیت بارے گو نا گوں شکوک و شبہات کے باوصف، مجھے یقین ہے کہ ان کا پونے چار سالہ عہد اتنا بے برگ و بار، اس قدر بے آب و رنگ نہ ہوتا، اگر وہ اپنی ترجیحات کی درست درجہ بندی کر لیتے۔ اتنا تو کرتے کہ سیاسی حریفوں کے خلاف دل میں دہکتے آتش فشاں پر قابو پا لیتے، غربت، بے روزگاری، مہنگائی، زبوں حال معیشت، علاقائی مسائل، امن و امان، ابھرتی دہشت گردی، بڑھتی عالمی تنہائی اور پارلیمانی جمہوریت جیسے معاملات پر توجہ دیتے۔ ان ارفع اصولوں اور نظریات کی پاسداری کرتے جن کی بیس سال تک تبلیغ فرماتے رہے۔ لیکن کامل پونے چار برس تک وہ ایک بے ثمر دائرے میں گھومتے رہے۔ انہیں صرف ایک ہی فکر دامن گیر رہی کہ نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکیں کس طرح کسی جائیں؟ انہیں کس کولہو میں پیلا جائے کہ ان کی ہڈیاں بھی سرمہ ہو جائیں۔
”خود کاشتہ ریاست مدینہ“ کے خود تراشیدہ نظریہ احتساب کے مطابق انہوں نے نواز شریف اور ان کے ہر تعلق دار کو نمونہ عبرت بنانا، سب سے بڑا کار ثواب جانا۔ پونے چار برس ان کی بارگاہ ناز کی تمام سرکاری و غیر سرکاری مجلسیں، اسی سوال کے گرد گھومتی رہیں کہ شریفین اور ان کے متعلقین کا کچومر نکالنے کے لئے کیا کیا جائے؟ نیب، ایف۔ آئی۔ اے، اینٹی نارکوٹکس، اینٹی کرپشن، پولیس، انتظامیہ، غرض ہر چھوٹے بڑے ادارے یا محکمے کو اسی جہاد پر لگا دیا۔ اگر معاملہ ان اداروں اور محکموں کو سپرد کر کے خان صاحب یکسو ہو جاتے اور اپنی توجہ دیگر اہم قومی معاملات پر مرکوز کر دیتے تو بھی شاید بانجھ کشت ویراں کوئی پھل دے دیتی لیکن خان صاحب اپنی خوئے انتقام کی آسودگی کے لئے ادنیٰ درجے کی تفصیلات اور جزئیات کی نگرانی بھی خود کرنے لگے۔
فلاں کے خلاف اب تک مقدمہ کیوں نہیں بنا؟ فلاں کے خلاف اب تک ریفرنس کیوں دائر نہیں کیا گیا؟ فلاں کو ہتھکڑی کیوں نہیں ڈالی گئی؟ فلاں کے سیل میں اے۔ سی کیوں ہے؟ فلاں کے سیل سے پنکھا کیوں نہیں اتارا؟ فلاں کو گدے پر سونے کی اجازت کیوں دی؟ فلاں کے گھر سے کھانا کیوں آتا ہے؟ فلاں پیشی کے لئے لایا جاتا ہے تو کپڑے استری کیوں ہوتے ہیں؟ بیٹی کو باپ کے سیل کے قریب کیوں رکھا گیا؟ اس طرح کی بیسیوں الجھنیں خان صاحب کے اعصاب پر سوار رہیں۔ ملک کے گمبھیر مسائل بوسیدہ غیر مستعمل کپڑوں والی کوٹھڑی میں پھینک دیے گئے۔
تینتالیس ( 43 ) ماہ تک وہ اپنی کشت انتقام کو پانی لگاتے اور ڈھیروں کھاد ڈالتے رہے۔ اسی کو اپنی کامرانی کا معیار سمجھتے اور اسی کو اپنے جاگتے خوابوں کا حسن گردانتے رہے۔ عوام اور ملک کے مسائل کی کھیتی، پانی اور کھاد کو ترستی اور عدم توجہی کی کڑی دھوپ میں جلتی بلتی رہی۔ خان صاحب کی تمنائے بے تاب اور ان کے عہد بے توقیر کو اگر کسی شخصی علامت سے سمجھنا ہو تو اس کا نام ہے مرزا شہزاد اکبر۔ یہ اندازہ لگانا تو مشکل ہے کہ نواز شریف اور ان کے ہر تعلقدار کے خلاف غداری سے کرایہ داری تک ہر قانون کو حرکت میں لانے کی اس مشق رائیگاں پر کتنی توانائیاں صرف ہوئیں اور کتنا وقت لگا، البتہ موسم بدلا تو اس کا سراغ ضرور لگا یا جا سکے گا کہ عوام کے خون پسینے کی کتنی کمائی اس کار خیر پر لگائی گئی؟ اگر میرے رفقائے محترم، عطا الحق قاسمی اور پرویز رشید سے تنخواہیں واپس لی جا سکتی ہیں تو حلوائی کی دکان پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنے والے ان نیکو کاروں کی جیبیں بھی تو ٹٹولی جا سکتی ہیں۔
نواز شریف کے خلاف تینتالیس ماہی ریاستی جہاد کا نتیجہ صرف یہ نہیں نکلا کہ ملک داخلی طور پر تباہ اور خارجی طور پر تنہا ہو گیا۔ اس مشق بے ثمر کے بارے میں اب خان صاحب اور ان کے وزراء کا کہنا ہے کہ لندن میں بیٹھا ایک شخص عالمی طاقتوں سے مل کر حکومت کے خلاف سازشیں کر رہا ہے اگر تمہارے ہر تیر الزام اور سنگ دشنام کے بعد بھی لندن میں بیٹھا شخص اس قدر طاقتور ہے کہ تمہیں فون تک نہ کرنے والی عالمی طاقتیں اس کے اشاروں پہ ناچتی ہیں تو کیا قومی مفاد کا تقاضا نہیں کہ آپ رضا کارانہ طور پر ایک طرف ہو کر ملک کی باگ ڈور اسے سونپ دیں؟لیکن اپنے طور پر کون دستکش ہوتا ہے؟ سو آندھی زوروں پہ ہے۔ ناکہ بندیوں کے باوجود گھر ریگستان بنتا جا رہا ہے۔ جھاڑو، جھاڑن، سب اپنی اپنی راہ لے رہے ہیں۔ قیامت کا سماں ہے اور سورج افق مغرب سے آن لگا ہے۔