اللہ تبارک وتعالیٰ زمان و مکان کے خالق ہیں۔ مختلف اوقات اور ایام کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دیگر مقامات اور اوقات کے مقابلے میں ممتاز کیا ہے۔ سرزمینِ مکہ اور مدینہ طیبہ کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کی تمام بستیوں پر فوقیت دی ہے۔ بیت اللہ شریف دنیا کی سب سے افضل مسجد ہے۔ اس کے بعد مسجد نبوی شریف کی عظمت کا مقابلہ دنیا کی کوئی مسجد نہیں کر سکتی۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے ایام کو دیگر ایام کے مقابلے میں ممتاز ٹھہرایا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185میں اس امر کا اعلان فر مایا کہ : ”رمضان کا مہینہ وہ ہے‘ نازل کیا گیا ہے جس میں قرآن (جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور (حق وباطل کے درمیان) فرق کرنے کے‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ماہ ِ رمضان میں قرآنِ مجید کا نزول فرمایا۔ ہمیں علم ہے کہ قرآنِ مجید حضرت رسول اللہﷺ کے قلبِ اطہر پر 23 برس تک نازل ہوتا رہا۔ اس آیتِ مبارکہ کی اصل تفسیر یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو رمضان المبارک کی ایک طاق رات میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پہ نازل فرما دیا‘ جہاں سے یہ بتدریج رسول اللہﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل ہوتا رہا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس رات میں قرآنِ مجید نازل فرمایا‘ اس کی عظمت اور اہمیت کو سورۃ القدر میں کچھ یوں بیان فرمایا ہے: ”بے شک ہم نے نازل کیا ہے اس (قرآن) کو شب قدر میں۔ اور آپ کیا جانیں کیا ہے شب قدر۔ شب قدر (کی عبادت) بہتر ہے ہزار مہینے (کی عبادات) سے۔ اترتے ہیں فرشتے اور روح الامین (جبریل علیہ السلام) اس میں اپنے رب کے حکم سے ہر کام سے۔ سلامتی (ہی سلامتی) ہے وہ (رات) فجر (کے) طلوع ہونے تک‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو بدرجہ وحی حضرت رسول اللہﷺ کے قلبِ اطہر پر نازل فرمایا اور اس وحی کے مختلف طریقۂ ہائے کارکو سورہ شوریٰ کی آیت نمبر51 میں کچھ یوں بیان فرمایا: ”اور کسی بشر کے لیے (ممکن) نہیں ہے کہ اللہ اس سے کلام کرے مگر وحی (الہام) کے ذریعے یا پردے کے پیچھے سے یا (یہ کہ) وہ کوئی رسول (فرشتہ) بھیجے تو وہ وحی پہنچاتا ہے اس کے حکم سے جو وہ (اللہ) چاہتا ہے‘‘۔ نزولِ قرآن کی وجہ سے رمضان المبارک کے مہینے کو خصوصی اہمیت اور فضیلت حاصل ہوئی اور اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185میں اس امر کا اعلان فرمایا : ”پس جو موجود ہو (گھر میں) تم میں سے کوئی (اس ) مہینے میں‘ تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے اس (مہینے) کے ‘‘۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ہر مسلمان پر رمضان المبارک کے روزے رکھنا فرض ہے۔ ہاں! اگر کوئی مریض یا مسافر ہو تواللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کو اجازت دی ہے کہ وہ بعد ازاں ان روزوں کو مکمل کر سکتا ہے‘ جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرے دوسرے دنوں میں‘‘۔
روزے کی غرض وغایت کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بڑے احسن اور خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو‘ فرض کیے گئے ہیں تم پر روزے جیسا کہ فرض کیے گئے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے (تھے) تاکہ تم بچ جاؤ (گناہوں سے)۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رمضان المبارک کے روزوں کو رکھنے کا مقصد درحقیقت انسانوں میں تقویٰ پیدا کرنا ہے۔ تقویٰ درحقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈرتے ہوئے گناہوں سے اجتناب کا نام ہے۔ جب انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے حلال چیزوں سے چند گھنٹے کے لیے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اندر یہ صلاحیت اور استعداد پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تابعداری کا خوگر ہو جاتا ہے اور اس کے حکم پر جو چیزیں مستقل طور پر حرام ہیں‘ ان سے اجتناب کے قابل بن جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں تقویٰ کے مختلف فوائد بیان فرمائے ہیں۔
(الف)مصیبتوں سے رہائی: اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر 2میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور جو اللہ سے ڈرتا ہے (تو) وہ بنا دیتا ہے اس کے لیے (مشکلات سے) نکلنے کا کوئی راستہ‘‘۔
(ب)وافر رزق: سورہ طلاق ہی کی آیت نمبر 3 میں یہ بات بھی ارشاد ہوئی : ”اور وہ رزق دیتا ہے اُسے (وہاں سے) جہاں سے وہ گمان (بھی) نہیں کرتا‘‘۔(ج)معاملات میں آسانی: اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ طلاق کی آیت نمبر4 میں ارشاد فرماتے ہیں: ” اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ کردے گا اُس کے لیے (ہر) کام میں آسانی‘‘۔(د)گناہوں کی معافی: اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ کی برکت سے سابقہ گناہوں کو بھی معاف فرما دیتے ہیں جیسا کہ سورہ طلاق کی آیت نمبر5 میں ارشاد ہوا: ”اور جو اللہ سے ڈرے گا (تو) وہ دور کر دے گا اُس سے اُس کی برائیاں اور وہ زیادہ دے گا اُس (کی نیکیوں)کا اجر‘‘۔
(ہ)خیروبرکات کے دروازوں کا کھل جانا: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف میں ان مغضوب اقوام کا ذکر کیا جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنیں۔ قومِ نوح پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے سیلاب آیا، قوم عاد پر آندھی کا عذاب اترا، قوم ثمود اور قوم مدین کے لوگ چنگھاڑ کا نشانہ بنے، قوم سدوم پر آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ اعراف کی آیت نمبر 96میں ا س حقیقت کو بیان فرماتے ہیں : ” اور اگر واقعی (ان) بستیوں (کے رہنے ) والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے (تو) ضرور ہم کھول دیتے اُن پر برکتیں آسمان سے اور زمین سے‘‘۔
(و)حق وباطل میں امتیاز کی صلاحیت: اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ انفال کی آیت نمبر 29 میں اس حقیقت کا ذکر فرماتے ہیں : ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اگر تم ڈرو اللہ سے (تو) وہ بنا دے گا تمہارے لیے (حق وباطل میں) فرق کرنے کی (کسوٹی)‘‘۔
(ط)عزت کا حصول : تقویٰ کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو معزز اور مکرم ٹھہرا دیتے ہیں۔ سورہ حجرات کی آیت نمبر 13 میں ارشاد ہوا: ”اور ہم نے بنا دیا تمہیں قومیں اور قبیلے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘ بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا (وہ ہے جو) تم میں سے زیادہ تقویٰ والا ہے‘‘۔ رمضان المبارک میں جہاں روزے رکھے جاتے ہیں‘ وہیں دیگر بہت سے نیک کام بھی کیے جاتے ہیں جن میں سے چند اہم کام درج ذیل ہیں:
1 : قیام اللیل کا اہتمام: رمضان المبارک میں تقریباً دنیائے اسلام کی تمام مساجد میں نمازِ تراویح کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا :جو کوئی رمضان میں (راتوں کو) ایمان اور ثواب کے لیے عبادت کرے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔2۔ تلاوتِ قرآنِ مجید: رمضان میں جہاں قیام اللیل کا اہتمام کیا جاتا ہے‘ وہیں حفاظ اور قاری بکثرت قرآنِ مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور عام مسلمان بھی تلاوتِ قرآنِ مجید بڑے ذوق وشوق سے کرتے اور قرآنِ مجید کے حقوق کو ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں:
(1)قرآن مجید پر ایمان لایا جائے (2)اس کی تلاوت کی جائے (3)اس کے مفہوم کو سمجھا جائے(4)اس پر عمل کیا جائے (5)اس کا ابلاغ کیا جائے (6 )اس کے قیام (نفاذ)کی کوشش کی جائے۔
3۔ دعا : اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں روزوں کا ذکر کیا‘ وہیں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 اس بات کا بھی ذکر کیا : ”اور جب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں‘ میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ مجھے پکارے‘‘۔
4۔صدقات اور انفاق فی سبیل للہ: رمضان المبارک میں بکثرت انفاق فی سبیل للہ کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے اور مسلمانوں کی بڑی تعداد زکوٰۃ کو اسی ماہِ مبارک میں ادا کرتی ہے۔ انفاق فی سبیل للہ کے بہت سے فوائد قرآنِ مجید میں مذکور ہیں جن میں سے ایک بڑا فائدہ خوف اور غم سے نجات ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 274 میںارشاد فرماتے ہیں: ”وہ لوگ جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن کو، چھپا کر اور عِلانیہ طور پر تو ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس اور ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے‘‘
۔5۔اعتکاف: رمضان المبارک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اعتکاف بھی کرتی ہے۔ جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور قرب حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور انسان اپنی تخلیق کے مقصد کو صحیح طور پر خلوت میں سمجھنے کی پوزیشن میں آ جاتا ہے۔ دنیا کے جھمیلوں سے بچ کر اعتکاف کرنا یقینا سعادت کی بات ہے۔
6۔ لیلۃ القدر کی جستجو: رمضانِ المبارک میں لیلۃ القدر کی عبادت کرنے کی کوشش کرنا بھی انتہائی سعادت کی بات ہے۔ بہت سے لوگ رمضان المبارک کے مہینے میں شب زندہ داری کا اہتمام کرتے اور لیلۃ القدر کی جستجو کرتے ہیں۔ جس نے لیلۃ القدر کی عبادات کو پا لیا اس کے نامۂ اعمال میں ہزار مہینے کی عبادت کو رکھ دیا جائے گا۔ رمضان المبارک کا مہینہ یقینا ان لوگوں کے لیے باعثِ سعادت ہے جو اس کے ہر ہر لمحے کو صحیح طور پر استعمال کرتے ہیں اور وہ لوگ بدنصیب ہیں جو رمضان المبارک کے ماہِ مبارک کو ضائع کر بیٹھتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں اس ماہِ مبارک کی پُرسعادت گھڑیوں سے استفادہ کرنے کی توفیق دے، آمین !