تحریک انصاف کی حمایت کے باوجود مولانا معاویہ اعظم کا نام فورتھ شیڈول میں رکھا گیا، ان کی شناختی دستاویزات معطل رہیں اور وہ اپنی تنخواہ اور مراعات سے بھی محروم رہے۔ اس کے باوجود دوستوں کو گلہ ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ الحاق کیوں ختم کیا۔ درج ذیل تحریر میں ایسے ہی مسائل کو موضوع بنایا گیاہے، نیک نیت جماعتی احباب کے لیے تحریر ملاحظہ ہو!
پاکستان میں انتخابات کا موسم ہو یا پارلیمانی اکھاڑ پچھاڑ کا، صوبہ پنجاب کا شہر جھنگ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ مقتدر قوتوں، صحافتی اداروں اور سماجی حلقوں کی نظر امیرِ عزیمت علامہ حق نواز جھنگوی شہید رحمہ اللہ کے شہر جھنگ اور ان کے حلقہ انتخاب پر ضرور رہتی ہے۔ مقتدر قوتیں طاقت کی بساط پر من مرضی کے مہرے سجانے اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے ایسا کرتی ہیں، صحافتی اداروں نے خبر دینی ہوتی ہے؛ جھوٹی یا سچی، جو بھی ان کو پسند ہو یا جو ان کے صحافتی سفر کے لیے سود مند ہو۔ سماجی سطح پر دو طرح کے لوگوں کی دل چسپی دکھائی دیتی ہے، ایک وہ جنہیں ان سے خدا واسطے کا بیر ہے یا نظریاتی و اعتقادی اختلاف، اور دوسرے وہ جنہوں نے سر اٹھا کر جینے کا پہلا سبق یہیں جھنگ کی دھرتی سے ہی سیکھا ہے۔
حالیہ سیاسی کشمکش میں جھنگ سے پاکستان راہِ حق پارٹی کے رکن پنجاب اسمبلی مولانا معاویہ اعظم طارق ایک بار پھر حسبِ معمول موضوعِ گفتگو ہیں۔ 2018 میں وزارتِ اعلیٰ کے چناؤ کے دوران انہوں نے جماعت کی مشاورت سے پاکستان تحریکِ انصاف کے عثمان بزدار کی حمایت کی اور حکومتی نشستوں کا حصہ بن گئے۔ حکومتی جماعت کے ساتھ الحاق کی وجہ خالصتاً نظریاتی تھی، اس میں کسی قسم کی سیاست یا ذاتی پسند نا پسند کا دخل نہیں تھا۔ جماعت کے پیشِ نظر دو چیزیں تھیں، ایک پاکستان کا اسلامی تشخص اور تحفظ ناموسِ صحابہ و اہلِ بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، جو عین جماعت کا منشور ہے اور دوسری علاقہ جھنگ کی تعمیر و ترقی، وہ وعدہ جو انتخابی مہم میں جھنگ واسیوں سے کیا گیا تھا۔ ان دونوں مقاصد کی آبیاری کے لیے جس قدر ممکن ہو سکا مولانا معاویہ اعظم نے کوشش کی اور اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں جانے دیا۔ حکومت کی جانب سے حمایت کا صلہ انہیں کس طرح دیا گیا، اس کا جواب احباب کو ان کے حالیہ فیصلہ سے مل گیا ہو گا جس میں انہوں نے عثمان بزدار کے استعفے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مقرر کردہ وزارتِ اعلیٰ کے امیدوار حمزہ شہباز کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اس پر کئی احباب پریشان ہیں، ان کا کہنا ہے کہ مولانا معاویہ اعظم نے قاتلوں سے ہاتھ ملا لیا ہے، کرپٹ لوگوں کی حکومت کا حصہ بننے جا رہے ہیں، مشن پر سودے بازی کر لی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ پاکستان راہِ حق پارٹی اور اہلِ سنت والجماعت کی قیادت کوئی بھی فیصلہ لیتے وقت ہمیشہ مشن اور کاز کو پیشِ نظر رکھتی ہے۔ یہ وضاحت ان کارکنان اور احباب کے لیے کافی ہے جو جماعت سے محبت کرتے ہیں، قیادت پر اعتماد رکھتے ہیں اور ہمہ دم مشن اور کاز کی کامیابی کے لیے دعا گو رہتے ہیں۔ رہا باقی دوستوں کا مسئلہ جنہوں نے عداوت و نفرت کو ہی اپنا طور بنا لیا ہے، وہ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جبرائیل کی گواہی بھی اب ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی، لہذا ان سے مخاطب ہونا بے سود ہے۔
پہلے ان نکات کی جانب آتے ہیں جن کی بنیاد پر تاریخ میں پہلی مرتبہ اہلسنت والجماعت کے کسی بھی رکن اسمبلی کی جانب سے پاکستان مسلم لیگ (ن) یا کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ تحریری معاہدہ کے تحت اپنی حمایت کا یقین دلایا گیا ہے۔ معاہدے میں پاکستان مسلم لیگ کی جانب سے یہ یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ تحفظِ بنیادِ اسلام بل پر پہلی فر صت میں دست خط کروا کر قانون کی شکل میں ڈھالا جائے گا۔ یہ بل مولانا معاویہ اعظم اور ان کے رفقا کی شبانہ روز کاوشوں سے پنجاب اسمبلی نے کثرتِ رائے سے منظور کر لیا تھا لیکن گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اپنی جماعت کے شیعہ اراکین کی ایما پر اس بل پر دستخط کرنے سے گریز کرتے رہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحفظِ ناموس صحابہ و اہلِ بیت قوانین میں مزید سختی اور متعلقہ سزاؤں کو مزید موثر بنانے کی بات کی گئی ہے، فورتھ شیڈول جیسے کالے قانون کی بھینٹ چڑھنے والے اور کئی کئی سالوں سے لا پتہ رہنے والے کارکنان کی رہائی اور ان کی بازیابی کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ سطحی اقدامات کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے، اوراس کے علاوہ ضلع جھنگ کو ڈویژن کا درجہ دینے کی شق بھی معاہدے میں شامل ہے۔
گذشتہ حکومت سے بھی انہی بنیادوں پر الحاق کیا گیا تھا لیکن بد قسمتی سے ان سب حوالوں سے کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے ساتھ ایران پرور ملاؤں اور مجلس وحدت المسلمین جیسی دہشت گرد تنظیم کا گٹھ جوڑ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، پی ٹی آئی کے دھرنوں کے دنوں سے لے کر آج تک یہ دہشت گرد تنظیم ہر موقع پر ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ اسی طرح زلفی بخاری اور چند دیگر اراکین و وزرا مسلسل ایران کے لیے لابنگ کرتے رہے اور ملک میں انہیں کی ناک تلے یمن، بحرین، شام اور دیگر عالمی محاذوں پر یہاں کے نوجوانوں کو شیعہ ملیشاؤں میں بھرتی کے لیے باہر بھیجا جاتا رہا ہے۔ یہ باتیں پہلے بھی جماعت کے پیشِ نظر تھیں لیکن خواہش یہ تھی کہ پنجاب میں جماعت جھنگ کی حد تک ہی سہی تعمیر وترقی کے لیے اور قومی سطح پر تحفظِ ناموسِ صحابہ و اہلِ بیت کے لیے حکومتی نشستوں کا حصہ رہےتاکہ کسی قسم کی رکاوٹ اور تنگی کا سامنا نہ رہے۔ لیکن افسوس ہے کہ گذشتہ حکومت اپنی باتوں پر قائم نہیں رہ سکی۔ لہٰذا ان سے علیحدگی کا فیصلہ کیوں کر نا پسندیدہ ہوسکتا ہے۔کرپشن کی بابت علیم خان اور جہاںگیر خان ترین کے بیانات کافی ہیں کہ گذشتہ حکومت اس ناسور کے خاتمے میں کس قدر سنجیدہ تھی۔
جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ساتھ الحاق پر اعتراضات کا تعلق ہے تو واقفانِ حال جانتے ہیں کہ جعلی پولیس مقابلوں اور جبری گمشدگیوں کے احکامات کہاں سے آتے ہیں۔ بلوچستان، گلگت بلتستان اور قبائلی اضلاع کے نوجوانوں اور مذہبی و سیاسی کارکنوں کے ساتھ جو قوتیں ظلم و جبر روا رکھتی ہیں، پنجاب کے راہ روانِ رہِ وفا کی قاتل اور مجرم بھی وہی ہیں۔ سیاسی جماعتوں یا سیاسی مقتدرہ کو بے اختیار کر کے مخصوص مفادات کے لیے ان کو بدنام کروانے کا حربہ کوئی نیا نہیں ہے۔ انہیں قوتوں نے مولانا محمد احمد لدھیانوی کا 2018 کا الیکشن سبو تاژ کیا، وعدہ خلافی اور سفاکانہ بے نیازی ان قوتوں کا طرہ امتیاز ہے، یہی قوتیں کارکنوں پر ظلم وجبر روا رکھتی ہیں، ان کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی کوششوں میں مگن رہتی ہیں اور پراپیگنڈہ کر کے کارکنان اور قیادت کے مابین خلیج کو بڑھاتی ہیں۔ انہیں قوتوں نے اپنے مفادات کو قومی مفادات کا چولہ پہنا کر مذہبی قیادت کا استحصال کیا ہے، یہی قوتیں ملک میں امن اور جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔
کارکنوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جماعت کی اصل دشمن اور قاتل سیاسی جماعتیں نہیں بلکہ وہ غیر سیاسی قوتیں ہیں، جو کسی طور ملک میں سیاسی استحکام گوارا نہیں کر سکتیں۔ چنانچہ اگر اس وقت مولانا معاویہ اعظم نے قائدین سے مشاورت کے بعد ایک سنجیدہ سیاسی جماعت سے الحاق کیا ہے تو وہ یقیناً تاریخ کی صحیح سمت پر ہیں ۔جہاں تک مشن پر سودے بازی کی بات ہے تو کوئی بھی ذی فہم اور سلیم العقل انسان معاہدے کی شقوں سے بہ خوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ مخالفین کے اعتراضات میں کوئی دم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی مفروضہ پر یقین کرنے کی بجائے قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے ان کے فیصلے کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ اس فیصلے کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔