چار دن گزرنے کے باوجود سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا کہ 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ خلاف آئین تھی یا ملک کا دستور انہیں یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ایوان کی اکثریت کی طرف سے پیش کردہ عدم اعتماد کی تحریک کو کسی ثبوت کے بغیر مسترد کر دیں۔ اور مخالف نقطہ نظر سنے بغیر اسمبلی کا اجلاس ملتوی کر دیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال روزانہ یہ اعلان کرتے ہیں کہ انہیں فیصلہ سنانے کی جلدی ہے لیکن اس خواہش پر عمل نہیں ہو پاتا۔ حکومت کے وکلا کی خواہش و کوشش ہے کہ کسی طرح عدالتی کارروائی کو طول دیا جائے تاکہ 3 اپریل کے غیر آئینی اقدام کو نظر انداز کر کے ملک میں نئے انتخاب کا ڈول ڈالا جائے اور عوام کی توجہ تحریک انصاف کی ناکام حکومت، ناقص کارکردگی اور غیر آئینی اقدامات سے ہٹائی جا سکے۔ اور ایک جعلی اور جھوٹے دعوے کی بنیاد پر عمران خان کے خلاف امریکی سازش کا فسانہ بیچ کر عوام کو ایک بار پھر اسی پارٹی کو اقتدار دینے پر آمادہ کیا جائے۔
بلاشبہ یہ عوام کا حق ہے کہ وہ ووٹ کے ذریعے اپنے نمائندے چنیں اور وہی ملک کے مستقبل کے بارے میں فیصلے کرنے کے مجاز ہوں۔ لیکن حکومت یا اسمبلی کے اعلیٰ عہدیدار اگر کسی جھوٹی سازش کے نام پر اسمبلی کی اکثریت کے فیصلوں کو مسترد کرتے ہیں تو اس سے جمہوری عمل بے معنی و بے مقصد ہو کر رہ جاتا ہے۔ غیر آئینی رولنگ کے ذریعے ایک آئینی و پارلیمانی طریقہ سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کر کے اچانک اسمبلی توڑ کر نئے انتخاب کروانے کا اعلان اس بنیاد کو تباہ کرنے کے مترادف ہے جس پر ملک کا پورا جمہوری نظام استوار ہے۔
اس پس منظر میں سپریم کورٹ کی طرف سے فوری اور جلد فیصلہ ملکی آئین کی بالادستی کے لئے اہم ہے۔ عدالت عظمی کے فاضل ججوں کو ثابت کرنا ہے کہ وہ ملکی آئین کی حفاظت کی اہمیت و نزاکت کو سمجھتے ہیں اور سیاسی نعروں اور دباؤ کی وجہ سے ایک بار پھر کسی نام نہاد ’نظریہ ضرورت‘ کے تحت آئین کی روح کو پامال کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔ اتوار کے روز قومی اسمبلی میں ہونے والی غیر معمولی کارروائی کے بعد چیف جسٹس نے چھٹی کے باوجود سوموٹو ایکشن لیتے ہوئے عدالت کے دروازے کھولے تھے اور ڈپٹی اسپیکر کی آئین شکنی کا نوٹس لیا تھا۔ اس کے بعد نامعلوم مصلحت کے باعث لارجر بنچ بنانے اور فریقین کی رائے سننے کے بعد کوئی حکم دینے کا اعلان ہوا۔ تاہم ابھی تک سپریم کورٹ کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔
اس دوران عوام کی تشویش و بے چینی میں اضافہ ہوا ہے۔ ملکی سیاست ہی نہیں بلکہ معیشت و سفارت بھی تعطل کا شکار ہے۔ پاکستان کو گویا ہوا میں معلق کر دیا گیا ہے جہاں نہ کوئی حکومت ہے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی کا وجود ہے۔ اپنے خلاف عدم اعتماد کی وجہ سے اسمبلی توڑنے کا مرتکب ہونے والا ایک شخص اب بھی عبوری وزیر اعظم کے منصب پر قابض ہے اور اس پوزیشن کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے کے درپے ہے۔ اس کی سب سے ابتر صورت حال اس وقت پنجاب میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جہاں اسمبلی کی عمارت کو سیل کرنے کے بعد اپوزیشن پارٹیوں نے ایک ہوٹل میں اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔
عمران خان ایک سفارتی مراسلہ کو اس سازشی تھیوری کی بنیاد بناتے ہیں جو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید نے ایک امریکی عہدیدار سے ملنے کے بعد وزارت خارجہ روانہ کیا تھا۔ شروع میں اسے ایک غیر ملک کا دھمکی آمیز خط کہا گیا۔ پھر واضح ہوا کہ یہ سفارتی مراسلہ تھا تو کہا گیا کہ اس میں امریکی حکومت کی طرف سے عمران خان کی حکومت کے خلاف رویہ کا پتہ چلتا ہے۔ اور خود ہی یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ دراصل امریکہ نے اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد لانے کی سازش کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مراسلہ 7 مارچ کی ملاقات کے بعد روانہ ہوا اور 8 مارچ کو تحریک عدم اعتماد پیش کردی گئی۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی باتوں پر غور کیا جائے تو یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ گویا امریکی حکومت نے براہ راست اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ ملی بھگت سے اسلام آباد میں عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر نے 3 اپریل کو فواد چوہدری کی یہی بات درست مانتے ہوئے رولنگ دی کہ ایک غیر ملکی سازش کے تحت پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جس اپوزیشن کو بالواسطہ طور سے غدار اور امریکہ کا ایجنٹ قرار دیا گیا ہے ، اب عمران خان انہی اپوزیشن پارٹیوں کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ عدالت کے پیچھے منہ نہ چھپائیں بلکہ انتخاب میں ان کا مقابلہ کریں۔
یہ معاملہ البتہ اتنا آسان نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو یہ دیکھنا پڑے گا کہ جو خط 7 مارچ کو موصول ہوا اور جس میں حکومت وقت کے خلاف ایک ’سنگین سازش‘ کا انکشاف کیا گیا تھا، اسے سامنے لانے کے لئے 20 روز کیوں انتظار کیا گیا۔ عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے، اس وقت اس خط کا راز کھولا جب انہیں سو فیصد یقین ہو چکا تھا کہ قومی اسمبلی میں وہ اکثریت سے محروم ہوچکے ہیں۔ قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس سفارتی مراسلہ ملنے کے فوری بعد نہیں بلایا گیا اور نہ ہی یا اس معاملہ پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی گئی۔ البتہ جب غیرملکی سازش کے بے بنیاد دعوؤں پر نت نئے سوالات سامنے آنے لگے اور 3 اپریل کے قومی اسمبلی اجلاس میں عمران خان کی شکست یقینی دکھائی دینے لگی تو یک اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملہ کو رکھا گیا۔ اجلاس میں گو اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ امریکی وزارت خارجہ کے عہدیدار کی باتوں کے خلاف سفارتی طور سے احتجاج کیا جائے لیکن اجلاس میں فوجی قیادت نے حکومتی ارکان کے اس موقف کو تسلیم کرنے سے انکار کیا کہ امریکہ نے اپوزیشن کے ساتھ مل کر تحریک عدم اعتماد لانے کی سازش کی ہے۔
معمول کی سفارتی مواصلت کو ایک عالمی سازش قرار دے کر ملک میں ایک ہیجانی اور پریشان کن کیفیت پیدا کی گئی ہے۔ اب ایک طرف سیکورٹی ادارے سازشی نظریے کی تردید کر رہے ہیں تو دوسری طرف اپوزیشن اس خط کے مندرجات کے بارے میں سوال اٹھا رہی ہے۔ مریم نواز نے اسد مجید کے برسلز تبادلے کو بھی حکومتی کوششوں کا حصہ قرار دیا ہے تاکہ ان کے نام سے پھیلائی گئی جھوٹی باتوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائے اور سچائی عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ رہے۔
امریکی دھمکی، تحریک عدم اعتماد کے لئے غیر ملکی سازش اور اپوزیشن لیڈروں کی ملک دشمنی کے مرکب سے بنایا گیا جذباتی ماحول اس وقت عمران خان کی سیاسی حکمت عملی ہے۔ ان کے وکیل سپریم کورٹ میں سیاسی منظر نامہ کی یک طرفہ کہانی سنا کر ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعظم کی طرف آئین کی سنگین خلاف ورزی کو درست ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے جج اگر اس جھانسے میں آ گئے یا کسی وسیع تر قومی مفاد میں ایک بار پھر نظریہ ضرورت کے نام پر کوئی درمیانی راستہ نکالنے کی کوشش کی گئی تو اس سے عدالت عظمی کا وقار مجروح ہو گا۔ ماضی میں ایسے متعدد فیصلے موجود ہیں جن میں آئین کی خلاف ورزی سے چشم پوشی کرنے کی کوشش کی گئی اور ملک مسلسل ایک سیاسی بے یقینی اور انحطاط کا شکار رہا۔
خوش قسمتی سے ملکی مسلح افواج اس وقت سیاسی عمل میں عدم مداخلت کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ عدالت عظمی پر ملکی فوج کا دباؤ بھی نہیں ہے جو ماضی میں فوجی بغاوتوں کیے بعد پی سی او نامی حکم ناموں کے ذریعے پیدا کیا جاتا رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے فلور پر آئین شکنی کا ایک واضح وقوعہ ہوا ہے، اسے پارلیمنٹ کی کارروائی میں عدم مداخلت کی شق 69 کی آڑ میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ اب قومی اسمبلی توڑی جا چکی ہے اور صدر مملکت نے نئے انتخابات کا حکم دے دیا ہے، اس لئے بہتر ہو گا کہ انتخاب سے مسئلہ حل کر لیا جائے۔ آئین و قانون پر رائے دہی نہیں ہو سکتی۔ اس کے حکم کو عدالت کو پرکھنا ہو گا اور اپنی دو ٹوک رائے دینا ہو گی۔ اگر اس بار بھی ملک میں کی گئی آئین شکنی سے گریز کیا گیا تو ایسے کسی فیصلے کو بھی ماضی میں کیے گئے فیصلوں کی طرح قبولیت حاصل نہیں ہوگی۔ اور ملک میں آئینی حکمرانی کے تصور کو شدید نقصان پہنچے گا۔
پنجاب میں اکثریت سے محروم ہونے کے بعد وزیر اعلیٰ کے انتخاب میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور اپنے ہی گورنر کو آئین کے برعکس حکم صادر نہ کرنے پر برطرف کر کے ایک زیادہ وفادار شخص کو گورنر لگا یا گیا ہے تاکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں آئین کے برعکس من مانی کی جائے۔ یہ معاملہ بھی آج سپریم کورٹ میں اٹھایا گیا تھا لیکن چیف جسٹس نے اس موقع پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا۔ قومی اسمبلی کے بعد پنجاب اسمبلی میں زور زبردستی کے طریقوں کو پیش نظر رکھا جائے تو تحریک انصاف اس وقت مکمل سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ قومی و پنجاب اسمبلی میں اسے اکثریت کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ وہ اس شرمندگی سے بچنے کے لئے اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات میں پناہ لینا چاہتی ہے۔ 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کی آئینی حیثیت کا تعین ہی یہ طے کرے گا کہ عدالتیں کس حد تک ملک میں ایک سیاسی پارٹی کو طاقت کے زور پر من مانی کرنے اور آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے کی اجازت دیتی ہے۔
قومی میڈیا کے متوازن سوشل میڈیا اس بے یقینی پر نت نئی خبریں اور اطلاعات سامنے لا رہا ہے۔ ان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کے بارے میں بھی متعدد معلومات شامل ہیں۔ متوازی میڈیا پر پھیلنے والی ہر خبر کو افواہ یا جھوٹ قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے ہر ’خبر رساں‘ کا پیچھا کر کے اسے اپنی معلومات واپس لینے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اگر کھلم کھلا آئین شکنی کے ایک واقعہ کی روک تھام کا حوصلہ کر لے تو ساری افواہیں اور ’فیک نیوز‘ دم توڑ جائیں گی۔ تاہم کسی بھی وجہ سے آئین شکنی کے ساتھ ’گزارا‘ کرنے کا راستہ نکالا گیا تو ملک میں قانون و آئین کے ساتھ کھلواڑ کا راستہ کھل جائے گا۔ ایسے کسی نظام میں نہ تو عوامی حاکمیت کا خواب پورا ہو گا اور نہ ہی ملکی عدلیہ کا وقار اور اعتبار بحال ہو سکے گا۔