عمران خان اور ان کا فسطائی ہائبرڈ دور حکومت بالآخر تمام ہوا۔ اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ جو اس کا سہارا بنے ہوئے تھے، نے آخرکار اسے اس کے اپنے پیدا کردہ مشکلات کے گرداب سے نکالنے سے انکار کر دیا۔ مزید یہ کہ حزب اختلاف، خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نون وحشیانہ جبر کے سامنے متحد رہی اور عمران خان کی تمام چال بازیوں کو ناکام بنا دیا۔ لیکن آخر میں یہ عمران خان ہیں جو اپنے بدترین دشمن ثابت ہوئے۔ اور یہ بات قابل غور ہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے بھی بہت سی جماعتوں کی طرح اسٹبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش پائی تھی۔ اسٹبلشمنٹ نے 2018 ء کے انتخابات میں ”الیکٹ ایبل“ کو اس کی صفوں میں شامل کرایا۔ آزاد اراکین اور چھوٹی جماعتوں کو اس کے ہم راہ کر کے اسے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا دیا۔ اس کا مطلب تھا کہ تحریک انصاف کی جوہری اور نظریاتی اساس کمزور تھی۔ یہ دباؤ کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ دو سال تک اپنے ہائبرڈ تجربے کو کامیاب بنانے کے لیے اسٹبلشمنٹ نے اسے گورننس سکھانے کی بہت کوشش کی لیکن جب مایوس ہو کر اس کی دست گیری سے پیچھے ہٹ گئی تو پھر یہ ہائبرڈ نظام مشکل حالات کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکتا تھا۔
اچھی کارکردگی دکھانے کی بجائے حزب اختلاف کا خاتمہ کرنے پر اپنی تمام تر توانائیاں جھونک دینا عمران خان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ جب معیشت زمین بوس ہوئی اور پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بدعنوانی نے سر اٹھایا تو پول بتدریج عمران کا گراف نیچے اور نواز شریف کا اوپر دکھانے لگے۔ 2021 ء کے وسط تک نوبت یہاں تک آ گئی کہ عوام اور حزب اختلاف کے اشتعال کا رخ اسٹبلشمنٹ کی طرف ہو گیا کیوں کہ اسی نے عمران خان کو قوم پر مسلط کیا تھا۔
بحرانی کیفیت اس وقت پیدا ہو گئی جب عمران خان نے اہم معاملات، جیسا کہ اقتصادیات، گورننس اور خارجہ پالیسی جیسے اہم امور پر اپنے محسنوں کی بات سننے سے انکار کر دیا۔ اس رویے نے انھیں قدم واپس کھینچتے ہوئے دیگر آپشن پر غور کرنے پر مجبور کر دیا۔ لیکن اس سے اعتماد کے شیشے میں صرف بال پڑا، اور معاملات قدرے خراب ہونے لگے۔ فیصلہ کن موڑ وہ تھا جب عمران خان نے اسٹبلشمنٹ کے داخلی امور میں مداخلت شروع کردی، خاص طور پر جب انہوں نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی توسیع دینا چاہی تا کہ وہ اپنی خفیہ ایجنسی کو استعمال کرتے ہوئے اس کا اقتدار مستحکم کر دیں۔ اس کے بدلے انہیں خلاف معمول آرمی چیف بنانے کا وعدہ کیا۔ اس چیز نے عمران خان کو سینئر جنرلوں کی حمایت سے محروم کر دیا۔ ان میں سے ہر کسی کی قانونی طور پر جائز خواہش تھی کہ وہ ملک کے سب سے طاقت ور عہدے پر فائز ہو۔ درحقیقت جنرل باجوہ کی قیادت میں جنرلوں کے اس گروہ نے اس وقت برہمی کا اظہار کیا جب عمران خان نے جنرل فیض حمید کی خدمات ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ آخر میں جنرلوں کی بات ہی مانی گئی۔ لیکن اس وقت تک تعلقات کا آئینہ انتہائی مکدر ہو چکا تھا۔ طرفین غصے سے کھول رہے تھے۔
حزب اختلاف نے نمودار ہونے والی اس سنگین خلیج کو دیکھتے ہوئے اپنے باہمی اختلافات بھلا دیے اور عمران خان کے خلاف ایک مشترکہ مقصد کے لیے اکٹھے ہو گئے۔ ”الیکٹ ایبل“ اور ”لوٹوں“ کو عمران خان نے بری طرح نظر انداز کیا تھا کیوں کہ وہ ان کی حمایت کو مفت ملی نعمت سمجھ بیٹھے تھے۔ یہ گروہ دراصل اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا اشارہ سمجھتے ہے۔ فوراً ہی اسٹبلشمنٹ کا برہم مزاج بھانپ گئے اور حزب اختلاف کے ساتھ راہ رسم بڑھانا شروع کردی۔ اور اس کے بعد ، جیسا کہ کہا جاتا ہے ، باقی تاریخ ہے۔ ہمیں رواں سال جنوری میں ہی عمران خان کے اختتام کے آثار دکھائی دینے لگے تھے اور ہماری پیش گوئی تھی کہ مارچ میں ان کی وکٹ گر جائے گی۔
بدقسمتی سے عمران خان کا خود پر نرگسی یقین کہ وہ مجسم اچھائی اور حزب اختلاف مجسم برائی ہے، جمہوری تکثیریت اور قانون کی حکمرانی سے متصادم ہے۔ جب انھوں نے ہر اصول اور آئین کے ہر ضابطے اور قانونی طریق کار کو بے باکی سے پامال کرنا شروع کر دیا تو وہ سول سوسائٹی کی حمایت سے محروم ہو گئے اور اسٹبلشمنٹ اور عدلیہ کے سہارے بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ آخری کوشش کے طور پر عمران خان نے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سنگین غلطی کی۔ وہ دراصل ایوان کو خاکستر کرنے پر تلے ہوئے تھے کہ اگر اقتدار ان کے پاس نہیں ہے تو کوئی بھی حکومت نہ بنا سکے۔
گزشتہ دس دنوں نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ دس اپریل کو نصف شب کے آخری دو منٹوں میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پڑا۔ یہ دن ”یوم دستور“ کہلاتا ہے۔ لیکن اس رات آخری دو گھنٹوں کے دوران پیش آنے والے واقعات ہماری تاریخ کے چوتھے مارشل لا کی صورت دھارتے دکھائی دے رہے تھے۔ عمران خان نے سپریم کورٹ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا اور اپنی کابینہ اور سپیکر قومی اسمبلی کو اپنی بغاوت کا ساتھ دینے پر مجبور کیا۔ لیکن جب انھوں نے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ کو عہدے سے ہٹا کر جنرل فیض حمید کو ان کی جگہ آرمی چیف نامزد کرنے کا فیصلہ کیا تو کچھ وزرا نے قدم پیچھے ہٹا لیا۔ آخر میں ڈی جی آئی ایس آئی اور ٹرپل ون ( 111 ) بریگیڈ کے کمانڈر سے گفتگو نے ان کی طبیعت صاف کر دی اور یوں عدم اعتماد کا ووٹ پڑا۔ لیکن اس سے پہلے عمران خان نے اپنے بچاؤ کی کوشش میں سپیکر قومی اسمبلی، اسد قیصر اور ان کے ڈپٹی کو چلتی بس سے نیچے دھکا دے دیا تھا۔ اب وہ دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر گیارہ اپریل کو شہباز شریف وزیر اعظم بنے تو تحریک انصاف کے تمام اراکین قومی اسمبلی اجتماعی استعفے دے دیں گے۔
شہباز شریف نے قومی مفاد میں عمران خان کی طرف صلح کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ یقین دلایا ہے کہ کوئی انتقامی کارروائی نہیں ہوگی۔ لیکن عمران خان کا کہنا ہے کہ وہ نئی حکومت کو کسی طور چلنے نہیں دیں گے، چاہے اس کی وجہ سے پیدا ہونے والے عدم استحکام کی ملک اور اس کی معیشت کو کتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔ اس کا مطلب ہے کہ پھر عمران خان کے مخالفین بھی انھیں کیچڑ میں گھسیٹنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
نئی حکومت اپنے اہداف طے کرچکی ہے۔ انتخابی قوانین کی اصلاح کرنی ہے تاکہ آزاد اور منصفانہ انتخابات ہو سکیں۔ نیب قوانین میں ترمیم کرتے ہوئے احتساب کے عمل کو شفاف بنانا ہے۔ لیکن سب سے اہم، عوام کو مہنگائی سے ریلیف اور قرض فراہم کرنے والے اداروں کے مطالبات کے درمیان بجٹ کا توازن قائم کرنے کے لیے الفاظ کو عملی شکل دینی ہے۔ گویا اب کمر کسنے کا وقت آن پہنچا۔ لیکن مسئلہ ہی یہ ہے کہ اپوزیشن کو حکومت میں لانے کے لیے جن شراکت داروں نے اپنا کندھا فراہم کیا ہے۔ اب وہ اپنا حصہ چاہیں گے۔ ان کی خواہشات مختلف سمتوں سے حکومت کی دامن گیر ہوں گی۔ اگر شہباز شریف اگلے انتخابات سے پہلے اس مسئلے کو نہ سنبھال سکے تو عمران خان پلٹ کر وار کریں گے اور حکومت کے لیے نت نئی مشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔
اس لیے جن کا خیال ہے کہ وہ طویل تناؤ کے بعد اب سکون کا سانس لے لیں گے، ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ جمہوریت کے درپے مشکلات اور مصائب ابھی کہیں نہیں گئے۔