مولانا فضل الرحمن صاحب ایک زیرک اور جہاندیدہ سیاستدان ہیں اور پاکستان کی سیاست کی باریکیوں پر مولانا کی گہری نظر ہے۔ حالیہ دنوں میں جس طرح اپوزیشن کو جوڑ کر پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کی راہ مولانا نے ہموار کی ہے وہ بذات خود مولانا کی صلاحیتوں کو منہ بولتا ثبوت ہے۔ عمران خان کی فاشسٹ حکومت کے خلاف عوامی مزاحمت کا نقش اول اسلام آباد میں مولانا کا ایک تاریخی دھرنا تھا۔ اس وقت جب اپوزیشن اتحاد حکومت میں آ چکا ہے تو مولانا کو صدر پاکستان بنانے کے حوالے سے قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کو صدر پاکستان کیوں بننا چاہیے؟ اس بارے میں بہت سے دلائل دیے جا سکتے ہیں جن کی تفصیلات میں جانے کا یہ محل نہیں ہے۔ ہم پاکستان کی مذہبی سیاست سے وابستہ ہر شخص کی طرف سے یہ مقدمہ پیش کرنا چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان نام کی ریاست میں سیاسی اشرافیہ نے روز اول سے مذہبی شناخت کے حاملین افراد کو ایک خاص زاویہ فکر سے دیکھنے کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے اسے اب ختم ہونا چاہیئے۔ اگر یہ واقعی اسلامی جمہوریہ ہے تو یہاں کے اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کو داڑھی اور ٹوپی والے شخص کو ریاست کے سربراہ کے طور پر قبول کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیئے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ریاست کے ادارے اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز ہر قسم کے متنازعہ پروفائل کے حامل شخص کو بطور صدر پاکستان قبول کرنے کو تیار ہیں مگر جب بات مولانا فضل الرحمن کی طرح کی ایک دینی شناخت رکھنے والی شخصیت کی آتی ہے تو طرح طرح کے اعتراضات اور اشکالات کو ابھارا جاتا ہے۔
پاکستان کی تمام دینی و مذہبی جماعتوں کو اس معاملے پر یکجا ہو کر ایک پیج پر آنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف مولانا فضل الرحمن کی ذات کا معاملہ نہیں ہے۔ یہ برسوں سے جاری فکری اور ثقافتی کشمکش کا وہ مقام ہے جس نے اس بات کا تعین کرنا ہے کہ پاکستان میں مذہبی جماعتیں اور ان کے قائدین کس حد تک اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ملک کی اشرافیہ نے ہمیشہ یہاں اپنے مفادات کو مقدم رکھا ہے اور مذہبی طبقے سے قربانیاں ہی طلب کی ہیں۔ ملک کے تمام اہم اداروں میں تعینات افراد سے لے کر ملک بھر کی ایلیٹ بستیوں کی مہنگی و قیمتی پراپرٹیز تک فہرست بنا لیں تو اندازہ ہوگا کہ اس ملک کے وسائل سے مستفید ہونے والے لوگ دراصل کون ہیں؟ سول اور ملٹری اشرافیہ نے سیاستدانوں سے مل کر اب تک اس ریاست کے وسائل کو شیر مادر سمجھ کر ہضم کیا ہے۔ سب سے زیادہ قربانیاں دے کر میرٹ پر آنے کے باوجود مذہبی قیادتوں کو یہاں ہمیشہ ایک خاص حد تک فاصلے پر رکھا گیا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ ایک بار پھر یہی کام مولانا فضل الرحمن صاحب کے ساتھ بھی ہونے جا رہا ہے۔ مولانا تو کسی نہ کسی طرح اس مرحلے سے گزر جائیں گے مگر پاکستان کی مذہبی جماعتوں کو دوبارہ اس مقام پر پہنچنے میں کئی سالوں کو سفر طے کرنا پڑے گا۔ آج وقت ہے کہ اس بارے میں واضح موقف اختیار کر کے اپنا وزن مولانا کے پلڑے میں رکھا جائے۔