میں سماجی نفسیات اور منطق واستدلال کے اصولوں سے تھوڑی بہت دلچسپی کی وجہ سے غور کرتا رہتا ہوں کہ عمران خان اور پی ٹی آئی پر سیاسی تنقید کن بنیادوں پر کی جا رہی ہے اور وہ کیوں خان صاحب اور ان کے ہمدردوں اور سپورٹرز کو اپیل نہیں کرتی۔ اس تنقید کا غالباً سب سے نمایاں پہلو خان صاحب کے قول وفعل کا تضاد یا دوہرے اخلاقی یا سیاسی معیارات ہیں۔ یعنی وہ جن بنیادوں پر مخالفین پر تنقید کرتے ہیں، خود انھی کاموں کو اپنے لیے درست سمجھتے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ کئی ایسی چیزوں کا خود اعتراف بھی کرتے ہیں، جیسے مثلاً ارکان پارلیمنٹ کی وفاداریاں خریدنا یا سیاسی جوڑتوڑ یا اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں مداخلت وغیرہ کے سوالات ہیں۔
غور کرنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ تنقید دراصل خان صاحب اور ان کے حامیوں کے اصل بیانیے کو موضوع ہی نہیں بناتی۔ اگر اس پورے بیانیے کا گہری نظر سے جائزہ لیا جائے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ بنیادی طور پر متعارف سیاسی اخلاقیات یا جمہوری تصورات یا آئینی ضابطوں کی پابندی کی کہیں بھی کمٹمنٹ نہیں کرتا جن کو توڑنا یا ان کی خلاف ورزی کرنا ان کے نزدیک کوئی قابل اعتراض عمل ہو۔
عمران خان کا بیانیہ بنیادی طور پر ایک ’’اخلاقی’’ بیانیہ ہے جو سیاسی اصول وضوابط سے بالاتر ہے اور مروجہ سیاسی اصول اور نظام اس بیانیے کی تکمیل کے لیے محض ایک ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بیانیہ بالکل صاف اور واضح ہے اور یہ کہتا ہے کہ موجودہ سیاسی قوتیں اخلاقی طور پر اقتدار میں آنے کا حق نہیں رکھتیں اور انھوں نے طاقت کے زور پر معاشرے اور ریاستی نظم میں جو اثر ورسوخ پیدا کر رکھا ہے، ریاست کے تمام اداروں بشمول فوج اور عدلیہ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کو ختم کرنے میں عمران کی مدد کرے۔ اس اعلی تر مقصد کے لیے عمران خان کو الیکٹیبلز کو ساتھ ملانا پڑے یا کچھ کرپٹ عناصر کو دے دلا کر ان کی تائید حاصل کرنی پڑے تو یہ ایک عملی مجبوری اور ضرورت ہے۔
اس سادہ اور واضح بیانیے کو پیش نظر رکھا جائے تو بالکل سمجھ میں آ جاتا ہے کہ قول وفعل کے تضاد کی تنقید کیوں اس بیانیے میں کوئی بڑا ڈینٹ نہیں ڈالتی۔ اخلاقی وجمہوری اصولوں کی پاسداری یا پامالی اس بیانیے کا بنیادی استدلال ہے ہی نہیں۔ بنیادی استدلال ایماندار اور کرپٹ ہونا ہے۔ ایماندار سیاسی طاقت ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے تو چونکہ اس کا مقصد درست ہے، اس لیے اس اعتراض کا کوئی وزن نہیں۔ مخالف سیاسی طاقتوں کا بنیادی مقصد چونکہ غلط ہے، اس لیے یہ تمام طریقے اگر وہ استعمال کریں تو وہ قابل اعتراض ہیں۔ یہ موقف چاہے پی ٹی آئی کے حامی زبان سے واضح طور پر بیان کریں یا نہ کریں، ان کی ذہنی تفہیم بہرحال یہی ہے۔
اس لحاظ سے، میرے خیال میں پی ٹی آئی کے بیانیے پر اب تک کی غالب سیاسی تنقید ناکافی ہے۔ اس تنقید میں بنیادی نکتے کو موضوع نہ بنانے کا نقصان یہ ہے کہ فکری پولرائزیشن گہری ہوتی جا رہی ہے اور پی ٹی آئی کے لوگ سرے سے یہ سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ آخر پورا ریاستی سسٹم اور ملک کی بہت بڑی اکثریت کی نمائندگی کرنے والی سیاسی قوتیں ہاتھ دھو کر عمران خان کے پیچھے کیوں پڑ گئی ہیں۔ ان کے نزدیک اس کی ایک ہی تفہیم باقی بچتی ہے، یعنی حق کے مقابلے میں باطل کا مجتمع ہو جانا اور قومی آزادی کے سوال پر بیرونی طاقتوں کا مقامی میر جعفروں کی سرپرستی کرنا۔ یہ وہ بنیادی مسئلہ ہے جس کو سیاسی بحث ومباحثہ میں موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔