برا نہ مانیں تو کہہ دوں کہ تضادستان کے جسدِ قومی میں کوئی ایسا نفسیاتی الجھائو موجود ہے جس کی وجہ سے سب سے اونچا چلانے والا، ڈینگیں مارنے والا اور حقیقت سے آنکھیں چرانے والا شیخ چلی ہماری ذاتوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ہمارے اندر بیٹھا یہ شیخ چلی ہمیں حقیقت کے قریب نہیں آنے دیتا نہ ہی یہ اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں۔
یہ شیخ چلی ہمیں اپنے انتہائی معمولی کاموں کو عالمی کارنامے بنا کر پیش کرنے کا محرک بنتا ہے۔ ہمارے اندر کا یہی شیخ چلی ہمیشہ دنیا کو کھلی نگاہوں سے دیکھنے میں رکاوٹ ہے۔
حالیہ دنوں میں ہمارے اندر کا شیخ چلی پھر سے جاگا ہوا ہے۔ برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے ون ہائیڈ پارک کے حوالے سے جو تصفیہ کیا اس کے نتیجے میں 190ملین پائونڈ یا 39ارب روپے کی خطیر رقم پاکستان کو ملے گی۔
ہمارا شیخ چلی حقیقت جاننے کے بجائے ہوا کے گھوڑے پر سوار ہے، کبھی اسے این آر او کی نئی شکل، کبھی ڈیل کا حصہ اور کبھی اسے کرپشن کے خاتمے کا بڑا بین الاقوامی کارنامہ قرار دے رہا ہے۔
اب وقت ہے کہ ان دعوئوں، کارناموں اور ڈینگوں کا نہ صرف جائزہ لیا جائے بلکہ اُن شیخ چلیوں کا بھی محاسبہ کیا جائے جو بےسروپا ڈینگیں مار کر ہمیں جھوٹی امیدوں، غلط خوابوں اور گمراہ کن تصورات کا اسیر بنا دیتے ہیں۔
اردو لغت بورڈ کی ڈکشنری کے مطابق شیخ چلی بہت چلانے والا وہ شخص ہوتا ہے جو شرارت کے کام کرے، یہ وہ احمق اور بےوقوف ہے جو ڈینگیں مارے۔
یہ حوالہ بھی دیا جاتا ہے کہ شیخ چلی دراصل قادری سلسلہ کے صوفی عبدالرزاق کی عرفیت تھی جو اپنی عقل و سخاوت کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان کا مزار تھانیسر میں آج بھی مرجع خلائق ہے۔
یہ روایت بھی موجود ہے کہ شیخ چلی دراصل مغلِ اعظم اکبر کے نو رتنوں میں سے تھا جس کا مزاج اور تلخ سچ اکبر کو پسند تھا۔
شیخ چلی کا جو تصور تضادستان میں ہے وہ ایسے شخص کا ہے جو زمین وآسمان کے قلابے ملائے، ڈینگیں مارے اور چلائے لیکن اس کی باتیں سچ نہ ہوں اور نہ حقیقت پر مبنی۔
افسوس یہ ہے کہ تضادستان کے باسیوں کے اندر جو شیخ چلی بیٹھا ہے وہ نہ تو اکبر اعظم کے نو رتنوں والا ہے اور نہ ہی تھانیسر میں مدفون قادری سلسلہ کا صوفی عبدالرزاق۔ ہمارا شیخ چلی احمق تو ہے ہی مگر قومی بگاڑ میں اس کا سب سے زیادہ کردار ہے کہ بعض اوقات یوں لگتا ہے کہ شیخ چلی نامی بھوت نے تضادستان کی روحوں کو قید کر رکھا ہے ،یوں لگتا ہے کہ یہ بھوت دانستہ طور پرسچ کو چھپاتا ہے۔
سب سے بڑا شیخ چلی تو وہ تھا جس نے خانِ اعظم کے کان میں پھونک ماری اور خانِ اعظم نے 4؍ستمبر 2014کو اسلام آباد دھرنے کے دوران سرِعام یہ اعلان کر دیا کہ پاکستانیوں کے 200ارب ڈالر سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں پڑے ہیں۔
وہ دن اور آج کا دن، ہمارے اندر کا شیخ چلی ان 200ارب ڈالر یعنی 3100ارب پاکستانی روپوں کے لئے مچل رہا ہے، کیونکہ صرف اگر یہی مل جائیں تو تضادستان کے سارے دلدّر دور ہو جائیں۔
نہ قرضوں کی ضرورت رہے اور نہ ٹیکسوں کی۔ خانِ اعظم کے پسندیدہ اور محبوب وزیر، مراد سعید کی 16؍مئی 2018کی وہ تقریر ہمارے کانوں میں آج بھی رس گھول رہی ہے جس میں اس عالمی ماہرِ معیشت اور نابغہ روزگار مراد سعید نے ڈینگ ماری تھی ’’جس دن عمران خان نے حلف لیا اس سے اگلے ہی دن 200ارب ڈالر جو پاکستانیوں کا باہر پڑا ہوا ہے وہ ساری رقم پاکستان لے آئے گا۔
میرے ملک کے اوپر قرضہ 100ارب ڈالر، وہ پہلے دن دنیا کے منہ پر دے مارے گا اور باقی 100ارب آپ کے اوپر لگائے گا‘‘۔ مراد سعید کی یہ شیخی ہمارے اندر کے شیخ چلیوں کو اس قدر بھائی کہ آج تک ہمیں دن رات اسی 200ارب ڈالر کے سنہرے خواب نظر آ رہے ہیں۔ پھر احتساب کے ایک شیخ چلی نے ڈاکٹر عاصم حسین پر 462ارب روپے کی کرپشن کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا۔
27؍ اگست 2015کو گرفتار ہونے والے ڈاکٹر عاصم پر چار سال گزرنےکے باوجود ابھی تک اس 462ارب روپے کی کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا۔
دوسری طرف ہمارا حال یہ ہے کہ دلوں کے اندر بیٹھا شیخ چلی اس دن سے بلیوں اچھل رہا ہے اور ارب ارب کے نعرے لگا رہا ہے۔ آصف زرداری کے معاملے میں بھی کہا گیا کہ اس کے بارے میں بےنامی اکائونٹس، منی لانڈرنگ اور کرپشن کے ناقابلِ تردید ثبوت مل گئے۔
شیخ چلیانہ الزام کے بعدسے آصف زرداری گرفتار ہے اور ہمارے اندر بیٹھا شیخ چلی روزانہ ہمیں یقین دلاتا ہے کہ زرداری نے جو لاکھوں اربوں ڈالر لوٹے تھے وہ عوام کو ملنے ہی والے ہیں۔
تازہ ترین شیخ چلیانہ لہر 39ارب روپے کے حوالے سے چلی ہے جو واقعی آ رہا ہے مگرسوال یہ ہے کہ مراد سعید، احتسابی ادارے اور وہ افراد جو اربوں ڈالر لوٹانے کی ڈینگیں مارتے تھے اب ان سے پوچھا جائے کہ انہوں نے تضادستان کے باسیوں کی نفسیات کو کیوں ان جھوٹی ڈینگوں، طفل تسلیوں اور احمقانہ خوش خوابیوں کا عادی بنا دیا۔
اور تو اور ہمارا شیخ چلی پن دیکھیں۔ ہم ہیں پدی مگر ہمارا دعویٰ ’’دیو‘‘ ہونے کا ہے ہمارا حال یہ ہے کہ یہاں معیشت کی وجہ سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں مگر ہم مصر ہیں کہ ہم ایران اور سعودی عرب میں صلح کرائیں گے،اور تو اور ہم امریکہ اور ایران کے درمیان بھی معاملہ طےکرا دیں گے۔
یہ بھی تو ہمارا شیخ چلی ہی تھا جس نے ہمیں یقین دلا رکھا ہے کہ یہ ہم ہی تھے جنہوں نے روس کو افغانستان میں شکست دے کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ، یہ بھی ہم ہیں جو یہ سوچ رکھتے ہیں کہ ہم نے امریکہ کو طالبان کے ذریعے افغانستان میں دھول چٹا رکھی ہے۔
ہمارے اندر کا شیخ چلی ہمیں جب یہ کہتا ہے کہ یہاں کے پائلٹ دنیا بھر سے اچھے، یہاں کے ذہن دنیا کے بہترین ذہن، یہاں کے قدرتی وسائل دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔
یہی اندر کا شیخ چلی ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ہمارے سمندر تیل سے بھرے ہیں البتہ عالمی سازشوں کی وجہ سے ہم تیل نہیں نکال سکےاور یہ بھی کہ بلوچستان کی کانیں سونے سے بھری ہیں بس ایماندار کمپنی ملنے کی بات ہے ملک سونا اگلنے لگے گا۔
200ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئےہیں ،یہ دراصل شیخ چلی کی بڑ تھی جس کا آج تک کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر کے شیخ چلی کی باتیں سننا بند کریں اور جو شیخ چلی ڈینگیں مار کر اور جھوٹ سنا کر ہمیں بے وقوف بناتے ہیں، ان کا محاسبہ کریں۔
اگر واقعی ہم بحیثیت قوم کسی نفسیاتی الجھائو کی وجہ سے شیخ چلی کے ہمزاد بن چکے ہیں تو پھر ہمیں بحیثیت مجموعی اپنے رویے پر غور کر کے شیخ چلی کے اس کلون سے چھٹکارا پانا ہو گا وگرنہ ہم آج کے گلوبل ویلج کے کارآمد شہری بننے کے بجائے شیخ چلی کی طرح دنیا کا مذاق بنے رہیں گے۔