متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ انور قرقاش نے سعودی عرب کے اس مؤقف کا اعادہ کیا ہے کہ ملائشیا سمٹ مسلم دنیا کو درپیش مسائل پر غور کے لیے ایک غلط فورم تھا۔
انور قرقاش ٹویٹر پر لکھتے ہیں:’’ کیا یہ اسلامی دنیا کے لیے ممکن ہے کہ وہ عربوں کی عدم موجودگی میں بلند ہوسکیں؟ اس کا واضح جواب ہے: نہیں، کیونکہ تقسیم ،علاحدگی اور تعصّبات کبھی حل ثابت ہوئے ہیں اور نہ ثابت ہوں گے۔‘‘
کوالالمپور کانفرنس میں شرکت کے لیے ملائشیا نے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے تمام ستاون ممالک کو دعوت نامے جاری کیے تھے لیکن ان میں سے صرف بیس کے لگ بھگ ممالک نے اپنے مندوبین شرکت کے لیے بھیجے تھے اور ان میں سے بھی چند ایک کے سربراہان ریاست وحکومت نے کانفرنس کو رونق بخشی ہے۔
ملائشیا کے دارالحکومت میں چار روز تک جاری رہنے والے مسلم اقوام کے اس سربراہ اجلاس میں پاکستان ،سعودی عرب ، مصر ، متحدہ عرب امارات اور انڈونیشیا نے شرکت نہیں کی ہے۔سفارت کاروں کے مطابق ان ممالک نے کوالالمپور سمٹ میں عدم شرکت کا فیصلہ علاقائی امور پر اختلافات کی بنا پر کیا تھا۔
کوالالمپور سمٹ میں ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد اور ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے کلیدی خطاب کیا ہے۔ایرانی صدر حسن روحانی اورامیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بھی تقریریں کی ہیں۔
اس اجلاس میں مسلم اُمہ کو درپیش مسائل و تنازعات بہ شمول مسئلہ کشمیر ،شام اور یمن میں جاری بحران ، میانمر میں روہنگیا مسلم اقلیت کے ساتھ ناروا سلوک اور چین کے صوبہ سنکیانگ میں یغور مسلمانوں کو تعذیری کیمپوں میں منتقل کرنے اور ان سے امتیازی سلوک پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔
سعودی عرب نے کوالالمپور سمٹ میں اپنے عدم شرکت کے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دنیا کے ایک ارب 75 کروڑ مسلمانوں کو درپیش مسائل پر تبادلہ خیال کے لیے ایک غلط فورم ہے۔ ایسے مسائل پر اسلامی تعاون تنظیم کے فورم ہی پر بات چیت کی جانا چاہیے۔
سعودی پریس ایجنسی کے مطابق شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے گذشتہ منگل کو ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد سے ٹیلی فون پر بات چیت کی تھی اور ان سے گفتگو میں مملکت کے اس موقف کا اعادہ کیا تھا کہ ایسے ایشوز پر صرف او آئی سی کے پلیٹ فارم ہی سے بات چیت کی جانا چاہیے کیونکہ او آئی سی نے اکثر مسلم ممالک کے اجتماعی مسائل امور پر اجتماعی آواز کے طور کام کیا ہے۔