عراق کے جنوبی شہروں میں اتوار کو ہزاروں افراد نے اپنے مطالبات کے حق میں احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔انھوں نے مرکزی شاہراہوں اور سرکاری عمارتوں کو بند کردیا ہے جبکہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے صدر برہم صالح کی دی گئی تیسری ڈیڈ لائن بھی گزر گئی ہے اور پارلیمان میں وزارتِ عظمیٰ کے لیے کسی نام پر اتفاق نہیں ہوسکا ہے۔
عراق کے جنوبی شہروں میں آج ایک مرتبہ پھر مظاہروں میں شدت دیکھنے میں آئی ہے۔جنوبی شہر دیوانیہ میں مظاہرین نے سرکاری عمارتوں کی جانب جانے والے راستوں کو بندکردیا ہے۔انھوں نے احتجاجی دھرنا دے رکھا ہے اور دھرنے کی جگہ یہ بینرآویزاں کیا ہے:’’ ملک زیرِ تعمیر ہے، تکلیف کے لیے معذرت خواہ ہیں۔‘‘
دیوانیہ اور جنوبی شہر بصرہ میں مظاہرین نے گذشتہ شب عام ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے جنوبی شہروں کو بغداد سے ملانے والی شاہراہوں کو ٹائر جلا کر بند کررکھا ہے۔کربلا اور نجف میں اسکولوں کے طلبہ بھی احتجاجی مظاہروں میں شریک ہیں۔انھوں نے اسکول بند کرکے احتجاجی تحریک کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا ہے۔
ناصریہ میں مظاہرین نے تمام پُلوں اور متعدد شاہراہوں کو بند کررکھا ہے جبکہ سرکاری عمارتیں پہلے ہی بند ہیں۔ناصریہ اور دوسرے جنوبی شہریوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اب صدر برہم صالح اور پارلیمان کے اسپیکر محمد الحلبوسی سے بھی مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے ہیں۔انھوں نے ان دونوں اعلیٰ عہدے داروں پر تاخیری حربے استعمال کرنے کا الزام عاید کیا ہے۔
صدر برہم صالح نے پارلیمان کو آج اتوار تک نئے وزیراعظم کے انتخاب کا وقت دیا تھا۔عراق کے نگران وزیراعظم عادل عبدالمہدی گذشتہ ماہ ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔صدر برہم صالح اس سے پہلے پارلیمان کو ان کی جگہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے دو مرتبہ ڈیڈ لائن دے چکے ہیں۔
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک ایران سابق وزیر قصئی السہیل کو وزیراعظم بنانا چاہتا ہے۔ وہ عادل عبدالمہدی کی مستعفی کابینہ میں وزیر تعلیم تھے لیکن مظاہرین نے دوٹوک انداز میں انھیں مسترد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ 2003ء میں سابق صدر صدام حسین کی معزولی کے بعد برسراقتدار رہنے والے سیاست دانوں میں سے کسی کو بھی وزیراعظم کے طور پر قبل نہیں کریں گے۔
عراق کے دارالحکومت بغداد اور جنوبی شہروں میں یکم اکتوبر سے حکومت مخالف پُرتشدد احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور جھڑپوں میں 460افراد ہلاک اور قریباً 25 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔عراقی سکیورٹی فورسز کے اہلکاراحتجاجی ریلیوں میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست گولیاں چلاتے ہیں جس سے اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ نامعلوم مسلح جتھوں نے بھی بغداد میں پُرامن مظاہرین پر حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔