تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم کی اوپیک پلس نے بدھ کے روز تیل کی یومیہ پیدا وار میں 20 لاکھ بیرل کمی کا اعلان کردیا ہے۔ آسٹریا کے شہر ویانا میں ہونے والی اوپیک پلس کی یہ میٹنگ صرف آدھ گھنٹہ جاری رہی تھی جس میں تیل کی پیدا وار میں کمی کا فیصلہ کیا گیا۔
اوپیک حکام کے مطابق حالیہ مہینوں میں عالمی کساد بازاری کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تیل کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے اس کی پیداوار میں کمی کی جائے۔ یاد رہے کہ 2020 کے بعد تیل کی یومیہ پیداوار میں یہ سب سے بڑی کٹوتی سامنے آئی ہے مگر آنے والے دنوں میں یہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گی۔
اوپیک پلس کے اس فیصلے کو صرف تیل کی قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کے تنا ظر میں نہیں دیکھا جاسکتا، اسے عالمی سیاسی تناظر میں دیکھنا ضرروی ہے کیونکہ اس فیصلے کی بنیادی وجہ عالمی سیاست ہے۔ ابھی تین ماہ پہلے کی بات ہے کہ امریکی صدر جوبائیڈن نے سعودی عرب کا دورہ کرکے سعودی قیادت کو تیل کی پیدا وار بڑھانے کی درخواست کی تھی جو گذشتہ دومہینوں میں بڑھتی نظر بھی آئی ہے مگر اوپیک پلس کے اس فیصلے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ سعودی قیادت نے امریکی صدر کی اس درخواست کو نظر انداز کردیا ہے۔ دوسری طرف روس یوکرائن جنگ میں بھی توانائی اور تیل کو ہی بڑا سبب قرار دیا جارہا ہے۔ اوپیک پلس کے اس فیصلے سے جہاں امریکہ ، سعودی سفارتکاری ناکام ہوتی نظر آرہی ہے، وہیں یہ بھی واضح ہورہا ہے کہ امریکہ کو خارجہ امور پر کیسی مشکلات کا سامنا ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے اوپیک پلس کے اس حالیہ فیصلے پر ایک تجزیہ شائع کیا ہے جس کے مطابق ویانا میں ہونے والے اس اجلاس میں سعودی عرب اور روس نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اوپیک پلس نے اس اجلاس میں ہونے والے فیصلوں سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس فیصلے سے امریکی سیاست ، امریکہ کی خارجہ اقتصادی پالیسی اور یوکرائن کی جنگ پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔ گذشتہ کئی مہینوں میں صدر جوبائیڈن تیل کی پیداوار بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں ہیں، چند روز قبل بھی انہوں نے اوپیک کے ایک فیصلے کو واپس کروانے کی سرتوڑ کوششیں کی تھیں مگر وہ ناکام رہے۔
سعودی عرب کی روس سے بڑھتی اس قربت کے حتمی نتائج کیا سامنے آتے ہیں؟ اس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ سعودی عرب خلیجی ممالک میں ہمیشہ ایک بڑی زور آور طاقت کے طور پر رہنے کا خواہش مند رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا ملک ایران ہے جس نے کبھی سعودی طاقت کو تسلیم نہیں کیا جبکہ روس کے ایران کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ ایران اوپیک کا ممبر ہے اور حال ہی میں ایران نے روس کو ڈرون فروخت کیے ہیں جو یوکرائن کی جنگ میں استعمال ہورہے ہیں۔
اوپیک کے تازہ ترین فیصلے سے روس، سعودی عرب سمیت ان تمام ممالک کو فائدہ پہنچے گا جو تیل پیدا کرتے ہیں جبکہ امریکہ کو سیاسی، اقتصادی اور خارجہ تینوں محاذوں پر اس فیصلے سے نقصان ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔