سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے چچا زاد بھائی سعود الشعلان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ مغربی ممالک کے خلاف دھمکی آمیز انداز میں بیان دے رہے ہیں۔
حال ہی میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی سعودی عرب کی سربراہی والی تنظیم اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے پر امریکہ نے شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ امریکہ میں کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو اس بارے میں معاف نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ کہ اس کے خلاف سخت اقدامات کا وقت آ گیا ہے۔
اسی کے رد عمل میں سعود الشعلان ویڈیو میں انگریزی اور فرینچ زبانوں میں مغرب کو دھمکی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’کسی نے اس ملک (سعودی سلطنت) کے وجود کو چیلینج کیا تو ہم سبھی شہادت اور جہاد کے لیے تیار ہیں۔‘ سعود الشعلان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔
مڈل ایسٹ آئی سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے وکیل عبل اللہ العودہ نے کہا کہ سعود الشعلان قبائلی رہنما ہیں اور وہ سعودی عرب کے بانی عبد العزیز کے پوتے ہیں۔
15 نومبر سے انڈونیشیا میں جی 20 ممالک کا اجلاس ہونے والا ہے۔ جی ٹونٹی میں دنیا کی بڑی معیشتوں والے ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی شرکت کریں گے۔
اتوار کو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے واضح کر دیا گیا کہ جی 20 اجلاس کے دوران صدر بائیڈن کا ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اوپیک پلس کا فیصلہ روس کے حق میں ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔
سعودی عرب کی سربراہی والی اوپیک یعنی تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم نے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے سے امریکہ ناراض ہے۔ کیونکہ تیل میں کمی ہو گی تو قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
یوکرین پر روسی حملے کے سبب قیمتوں میں پہلے سے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کو سمجھانے کی بھی کوشش کی تھی کہ وہ ایسا نہ کرے۔ یہاں تک صدر جو بائیڈن نے اس سال جولائی میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ لیکن دونوں ممالک کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔
اوپیک کے فیصلے کو یوکرین کی جنگ کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔ روس بھی اوپیک پلس کا ایک ممبر ہے۔ امریکہ کو لگ رہا ہے کہ سعودی عرب نے دھوکہ دیا ہے۔ روس نے یورپ میں قدرتی گیس کی سپلائی بند کر دی ہے اور سرد موسم دستک دے چکا ہے۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دے گا۔ امریکہ نے متحدہ عرب امارات کے ذریعے بھی سعودی عرب کو راضی کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ تیل کی پیداوار میں کمی کے اپنے فیصلے پر عمل نہ کرے۔
مریکہ سمجھتا ہے کہ سعودی عرب روس کا ساتھ دے رہا ہے۔ تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے سے بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس سے روسی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپی ممالک روس کے خلاف یوکرین پر حملے کے معاملے میں مزید سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں تاکہ اس کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے۔
امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما پہلے سے ہی سعودی عرب کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ سنہ 2019 میں جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کو الگ تھلک کرنے کی بات کہی تھی۔ اور اب امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک سیاست دان سعودی عرب کو سبق سکھانے کی بات کر رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ایک رائے یہ بھی قائم ہو رہی ہے کہ سعودی عرب ریپبلیکن پارٹی کی مدد کر رہا ہے۔ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی سیاست میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرس نے ایم ایس این بی سی کے مقبول صحافی مہدی حسن کو دیے ایک انٹرویو میں سعودی عرب پر نکتہ چینی کی۔
برنی سینڈرس نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب خواتین کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ شہریوں کو ٹارچر کرتا ہے اور اب یوکرین جنگ میں بھی روس کی طرف داری کر رہا ہے۔ اب ہمیں سعودی عرب سے افواج کو واپس بلا لینا چاہیے۔ انہیں ہتھیار دینا بند کر دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی تیل کی قیمتیں بڑھانے جیسی من مانی کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔‘
برنی سینڈرس نے کہا ’تیل اور گیس کی صنعتیں خوب منافع کما رہی ہیں۔ فارما اور فوڈ انڈسٹری کا بھی یہی حال ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں کے بے حساب لالچ کی وجہ سے مہنگائی ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے اور عام لوگ اس سے پریشان ہیں۔‘
سعودی عرب کا موقف مختلف ہے۔ سعودی کا باضابطہ طور پر کہنا ہے کہ یہ اس کا ایک معاشی فیصلہ ہے۔ حالانکہ ماہرین کے خیال میں یہ سعودی عرب کا سفارتی فیصلہ ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد امریکہ کے خلاف نہیں ہے لیکن روس کو اس سے فائدہ ہو گا۔ سعودی عرب دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنی معیشت کے تیل کی برآمد پر انحصار کو کم کرے۔
واشنگٹن میں واقع عرب گلف سٹیٹس انسٹیٹیوٹ میں سینیئر ریزیڈنٹ سکالر حسین ایبش نے لکھا ہے ’سعودی عرب یوکرین کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ایشیا اور افریقہ کے ممالک روس اور یوکرین میں کسی کی حمایت کر رہے ہیں نہ مخالفت۔ لیکن امریکی سیاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کو لگ رہا ہے کہ آنے والے وسط مدتی انتخابات میں سعودی عرب کے اس رخ سے ریپبلیکن پارٹی کو فائدہ ہو گا۔‘
دونوں ممالک میں اعتماد کی کمی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکہ کو امید تھی کہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں پر قابو پانے میں اس کی مدد کرے گا۔ دوسری جانب سعودی عرب امریکہ سے فوجی امداد چاہتا ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ امریکہ کا دھیان اب یورپ اور چین کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔
حسین ایبش نے لکھا ’سعودی عرب اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ سعودی عرب کو جو سکیورٹی چاہیے وہ اسے صرف امریکہ ہی دے سکتا ہے۔ دوسری جانب خلیج فارس میں امریکہ کا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے سعودی عرب ایک واحد پارٹنر ہے۔ اوپیک پلس کا اگلا اجلاس چار دسمبر کو ہے اور سعودی کے پاس موقع ہے کہ وہ قیمتوں کے بارے میں متوازن فیصلہ کرے۔‘
وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’جولائی میں بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے ولی عہد محمد بن سلمان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ ولی عہد نے اپنے مشیروں سے کہا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے بہت قربانی دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ یمن میں جنگ کے بارے میں بائیڈن حکومت کی سوچ سعودی عرب سے مختلف ہے۔ جب جولائی میں بائیڈن سعودی عرب گئے تھے تو ولی عہد نے ہر روز پانچ لاکھ بیرل مزید تیل پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن ایک دن بعد ہی پانچ لاکھ بیرل اضافے کو گھٹا کر روزانہ ایک لاکھ بیرل تک اضافے کی حد مقرر کر دی گئی تھی۔
وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق کویت، بحرین اور عراق تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کے حامی نہیں تھے۔ ان کی دلیل تھی کہ ایسا کرنے سے کساد بازاری پیدا ہوگی اور تیل کی کھپت بھی متاثر ہوگی۔ لیکن آخر کار سبھی نے اوپیک پلس کے فیصلے کا ساتھ دیا۔ روس نے سعودی عرب کی حمایت کی اور کہا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ صحیح ہے۔
امریکی رکن کانگریس سعودی عرب کو ہتھیار دینے کے خلاف بل لانے پر غور کر رہے ہیں۔
چند امریکی رکن کانگریس سعودی عرب سے امریکی افواج کو واپس بلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کے رہنما ایک بل کی حمایت کر رہے ہیں، جس کے تحت اوپیک پلس ممالک کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کو غیر قانونی قرار دیا جا سکے۔ صدر بائیڈن نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔