What's Hot

    سعودی ایران معاہدے میں چین کیسے شامل ہوا

    مارچ 17, 2023

    ایران ، سعودی تعلقات کی بحالی اور پاکستان

    مارچ 10, 2023

    آخر آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ اتنی سختی کیوں کررہا ہے؟

    مارچ 7, 2023
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter Instagram
    afkar pak
    Home»افکار عالم»اگر کسی نے سعودی سلطنت کے وجود کو چیلنج کیا تو ہم سبھی جہاد اور شہادت کے لیے تیار ہیں ، سعودی شہزادے نے امریکہ کو خبردار کردیا
    افکار عالم

    اگر کسی نے سعودی سلطنت کے وجود کو چیلنج کیا تو ہم سبھی جہاد اور شہادت کے لیے تیار ہیں ، سعودی شہزادے نے امریکہ کو خبردار کردیا

    ویب ڈیسکBy ویب ڈیسکاکتوبر 17, 2022Updated:اکتوبر 17, 2022کوئی تبصرہ نہیں ہے۔7 Mins Read
    Share
    Facebook Twitter LinkedIn Pinterest Email

    سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کے چچا زاد بھائی سعود الشعلان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں وہ مغربی ممالک کے خلاف دھمکی آمیز انداز میں بیان دے رہے ہیں۔

    حال ہی میں تیل پیدا کرنے والے ممالک کی سعودی عرب کی سربراہی والی تنظیم اوپیک پلس کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے فیصلے پر امریکہ نے شدید ناراضی کا اظہار کیا تھا۔ امریکہ میں کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کو اس بارے میں معاف نہیں کیا جانا چاہیے اور یہ کہ اس کے خلاف سخت اقدامات کا وقت آ گیا ہے۔

    اسی کے رد عمل میں سعود الشعلان ویڈیو میں انگریزی اور فرینچ زبانوں میں مغرب کو دھمکی دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں ’کسی نے اس ملک (سعودی سلطنت) کے وجود کو چیلینج کیا تو ہم سبھی شہادت اور جہاد کے لیے تیار ہیں۔‘ سعود الشعلان کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے۔

    مڈل ایسٹ آئی سے سعودی عرب کے انسانی حقوق کے وکیل عبل اللہ العودہ نے کہا کہ سعود الشعلان قبائلی رہنما ہیں اور وہ سعودی عرب کے بانی عبد العزیز کے پوتے ہیں۔

    A video on social media shows a Saudi prince, Saud al-Shaalan, commenting on the West's backlash against the Opec+ output cut announced last week and what he described as a “challenge to the existence of the kingdom”. pic.twitter.com/l4H7EYTr60

    — Middle East Eye (@MiddleEastEye) October 16, 2022

    15 نومبر سے انڈونیشیا میں جی 20 ممالک کا اجلاس ہونے والا ہے۔ جی ٹونٹی میں دنیا کی بڑی معیشتوں والے ممالک شامل ہیں۔ اس اجلاس میں امریکی صدر جو بائیڈن اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان بھی شرکت کریں گے۔

    اتوار کو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے واضح کر دیا گیا کہ جی 20 اجلاس کے دوران صدر بائیڈن کا ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اوپیک پلس کا فیصلہ روس کے حق میں ہے۔ سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان تعلقات گزشتہ کچھ عرصے سے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں۔

    سعودی عرب کی سربراہی والی اوپیک یعنی تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم نے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کا فیصلہ کیا تھا۔ اس فیصلے سے امریکہ ناراض ہے۔ کیونکہ تیل میں کمی ہو گی تو قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔

    یوکرین پر روسی حملے کے سبب قیمتوں میں پہلے سے ہی اضافہ ہو چکا ہے۔ امریکہ نے سعودی عرب کو سمجھانے کی بھی کوشش کی تھی کہ وہ ایسا نہ کرے۔ یہاں تک صدر جو بائیڈن نے اس سال جولائی میں سعودی عرب کا دورہ بھی کیا تھا۔ لیکن دونوں ممالک کسی سمجھوتے تک پہنچنے میں ناکام رہے۔

    اوپیک کے فیصلے کو یوکرین کی جنگ کی روشنی میں دیکھا جا رہا ہے۔ روس بھی اوپیک پلس کا ایک ممبر ہے۔ امریکہ کو لگ رہا ہے کہ سعودی عرب نے دھوکہ دیا ہے۔ روس نے یورپ میں قدرتی گیس کی سپلائی بند کر دی ہے اور سرد موسم دستک دے چکا ہے۔ امریکہ سمجھتا تھا کہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دے گا۔ امریکہ نے متحدہ عرب امارات کے ذریعے بھی سعودی عرب کو راضی کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ تیل کی پیداوار میں کمی کے اپنے فیصلے پر عمل نہ کرے۔

    مریکہ سمجھتا ہے کہ سعودی عرب روس کا ساتھ دے رہا ہے۔ تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے سے بین الاقوامی بازار میں تیل کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس سے روسی معیشت کو فائدہ ہو گا۔ دوسری جانب امریکہ اور یورپی ممالک روس کے خلاف یوکرین پر حملے کے معاملے میں مزید سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں تاکہ اس کی معیشت کو کمزور کیا جا سکے۔

    امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما پہلے سے ہی سعودی عرب کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہیں۔ سنہ 2019 میں جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران سعودی عرب کو الگ تھلک کرنے کی بات کہی تھی۔ اور اب امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹک سیاست دان سعودی عرب کو سبق سکھانے کی بات کر رہے ہیں۔

    ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے بہت اچھے تعلقات تھے۔ بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’ڈیموکریٹک پارٹی کے اندر ایک رائے یہ بھی قائم ہو رہی ہے کہ سعودی عرب ریپبلیکن پارٹی کی مدد کر رہا ہے۔ ٹرمپ ایک بار پھر امریکی سیاست میں آنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

    ڈیموکریٹک پارٹی کے سینیٹر برنی سینڈرس نے ایم ایس این بی سی کے مقبول صحافی مہدی حسن کو دیے ایک انٹرویو میں سعودی عرب پر نکتہ چینی کی۔

    برنی سینڈرس نے کہا ہے کہ ’سعودی عرب خواتین کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا برتاؤ کرتا ہے۔ شہریوں کو ٹارچر کرتا ہے اور اب یوکرین جنگ میں بھی روس کی طرف داری کر رہا ہے۔ اب ہمیں سعودی عرب سے افواج کو واپس بلا لینا چاہیے۔ انہیں ہتھیار دینا بند کر دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی تیل کی قیمتیں بڑھانے جیسی من مانی کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔‘

    برنی سینڈرس نے کہا ’تیل اور گیس کی صنعتیں خوب منافع کما رہی ہیں۔ فارما اور فوڈ انڈسٹری کا بھی یہی حال ہے۔ کارپوریٹ گھرانوں کے بے حساب لالچ کی وجہ سے مہنگائی ساتویں آسمان کو چھو رہی ہے اور عام لوگ اس سے پریشان ہیں۔‘

    سعودی عرب کا موقف مختلف ہے۔ سعودی کا باضابطہ طور پر کہنا ہے کہ یہ اس کا ایک معاشی فیصلہ ہے۔ حالانکہ ماہرین کے خیال میں یہ سعودی عرب کا سفارتی فیصلہ ہے۔

    کہا جا رہا ہے کہ اس فیصلے کا مقصد امریکہ کے خلاف نہیں ہے لیکن روس کو اس سے فائدہ ہو گا۔ سعودی عرب دہائیوں سے کوشش کر رہا ہے کہ وہ اپنی معیشت کے تیل کی برآمد پر انحصار کو کم کرے۔

    واشنگٹن میں واقع عرب گلف سٹیٹس انسٹیٹیوٹ میں سینیئر ریزیڈنٹ سکالر حسین ایبش نے لکھا ہے ’سعودی عرب یوکرین کے بارے میں نہیں سوچ رہا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ایشیا اور افریقہ کے ممالک روس اور یوکرین میں کسی کی حمایت کر رہے ہیں نہ مخالفت۔ لیکن امریکی سیاست میں ڈیموکریٹک پارٹی کو لگ رہا ہے کہ آنے والے وسط مدتی انتخابات میں سعودی عرب کے اس رخ سے ریپبلیکن پارٹی کو فائدہ ہو گا۔‘

    دونوں ممالک میں اعتماد کی کمی واضح دیکھی جا سکتی ہے۔ امریکہ کو امید تھی کہ سعودی عرب تیل کی قیمتوں پر قابو پانے میں اس کی مدد کرے گا۔ دوسری جانب سعودی عرب امریکہ سے فوجی امداد چاہتا ہے لیکن اسے لگتا ہے کہ امریکہ کا دھیان اب یورپ اور چین کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔

    حسین ایبش نے لکھا ’سعودی عرب اور امریکہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں۔ سعودی عرب کو جو سکیورٹی چاہیے وہ اسے صرف امریکہ ہی دے سکتا ہے۔ دوسری جانب خلیج فارس میں امریکہ کا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے سعودی عرب ایک واحد پارٹنر ہے۔ اوپیک پلس کا اگلا اجلاس چار دسمبر کو ہے اور سعودی کے پاس موقع ہے کہ وہ قیمتوں کے بارے میں متوازن فیصلہ کرے۔‘

    وال سٹریٹ جرنل نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’جولائی میں بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے ولی عہد محمد بن سلمان پر کوئی خاص اثر نہیں پڑا ہے۔ ولی عہد نے اپنے مشیروں سے کہا کہ وہ بائیڈن انتظامیہ کے لیے بہت قربانی دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ یمن میں جنگ کے بارے میں بائیڈن حکومت کی سوچ سعودی عرب سے مختلف ہے۔ جب جولائی میں بائیڈن سعودی عرب گئے تھے تو ولی عہد نے ہر روز پانچ لاکھ بیرل مزید تیل پیدا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لیکن ایک دن بعد ہی پانچ لاکھ بیرل اضافے کو گھٹا کر روزانہ ایک لاکھ بیرل تک اضافے کی حد مقرر کر دی گئی تھی۔

    وال سٹریٹ جرنل کی رپورٹ کے مطابق کویت، بحرین اور عراق تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کے حامی نہیں تھے۔ ان کی دلیل تھی کہ ایسا کرنے سے کساد بازاری پیدا ہوگی اور تیل کی کھپت بھی متاثر ہوگی۔ لیکن آخر کار سبھی نے اوپیک پلس کے فیصلے کا ساتھ دیا۔ روس نے سعودی عرب کی حمایت کی اور کہا کہ تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ صحیح ہے۔

    امریکی رکن کانگریس سعودی عرب کو ہتھیار دینے کے خلاف بل لانے پر غور کر رہے ہیں۔

    چند امریکی رکن کانگریس سعودی عرب سے امریکی افواج کو واپس بلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سینیٹ میں دونوں پارٹیوں کے رہنما ایک بل کی حمایت کر رہے ہیں، جس کے تحت اوپیک پلس ممالک کی جانب سے تیل کی قیمتوں میں اضافے کو غیر قانونی قرار دیا جا سکے۔ صدر بائیڈن نے گزشتہ دنوں کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔

    سعود الشعلان سعوی عرب محمد بن سلمان
    Share. Facebook Twitter Pinterest LinkedIn Tumblr Email
    ویب ڈیسک

    Related Posts

    سعودی ایران معاہدے میں چین کیسے شامل ہوا

    مارچ 17, 2023

    ایران: حکومت مخالف مظاہروں کے پیچھے سعودیہ ہے ، ایرانی حکومت کا دعوی

    نومبر 29, 2022

    توشہ خانہ کیس : تفتیش کا دائرہ کار بڑھانے کی ضرورت ہے

    نومبر 17, 2022

    ابوظہبی فورم فار پیس کی 9ویں سالانہ اسمبلی کا دوروزہ اجلاس آج شروع ہورہا ہے

    نومبر 8, 2022
    Add A Comment

    Leave A Reply Cancel Reply

    Top Posts

    Subscribe to Updates

    Get the latest sports news from SportsSite about soccer, football and tennis.

    Advertisement
    Demo
    • افکار عالم
    • پاکستان
    • تراجم
    • خصوصی فیچرز
    • فن و ثقافت
    • نقطہ نظر
    Facebook Twitter
    • ہمارے بارے میں
    • رابطه
    • استعمال کی شرائط
    • پرائیویسی پالیسی

    © جملہ حقوق  بحق       Dtek Solutions  محفوظ ہیں 2022